محمود حسن دیوبندی
شیخ الہند، مولانا محمود حسن دیوبندی | |
---|---|
دار العلوم دیوبند کے تیسرے صدر المدرسین | |
برسر منصب 1890ء تا 1915ء | |
پیشرو | سید احمد دہلوی |
جانشین | انور شاہ کشمیری |
جمعیت علمائے ہند کے دوسرے صدر | |
برسر منصب نومبر 1920ء تا 30 نومبر 1920ء | |
پیشرو | کفایت اللہ دہلوی |
جانشین | کفایت اللہ دہلوی |
ذاتی | |
مذہب | اسلام |
ذاتی | |
پیدائش | 1851ء |
وفات | 30 نومبر 1920 | (عمر 68–69 سال)
مدفن | مزار قاسمی |
مذہب | اسلام |
نسلیت | ہندوستانی |
فرقہ | سنی |
فقہی مسلک | حنفی |
تحریک | دیوبندی |
بنیادی دلچسپی | تفسیر، حدیث، تحریک آزادی ہند |
قابل ذکر خیالات | تحریک ریشمی رومال |
قابل ذکر کام |
|
اساتذہ | محمود دیوبندی، محمد قاسم نانوتوی |
طریقت | چشتیہ-صابریہ-امدادیہ |
بانئ | جامعہ ملیہ اسلامیہ |
مرتبہ | |
استاذ | |
محمود حسن دیوبندی (معروف بہ شیخ الہند؛ 1851ء – 1920ء) ہندوستان کے ایک نامور عالم دین اور مجاہد آزادی تھے، جنھوں نے دیگر شخصیات کے ساتھ مل کر جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد رکھی اور آزادی ہند کے لیے تحریک ریشمی رومال کا آغاز کیا۔ وہ دارالعلوم دیوبند میں پڑھنے والے پہلے طالب علم تھے۔ ان کے اساتذہ میں محمد قاسم نانوتوی اور محمود دیوبندی شامل ہیں اور وہ تصوف میں امداد اللہ مہاجر مکی اور رشید احمد گنگوہی کے مجاز تھے۔
محمود حسن نے دار العلوم دیوبند کے صدر مدرس کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور جمعیۃ الانصار اور نظارۃ المعارف جیسی تنظیموں کی بنیاد رکھی۔ انھوں نے اردو میں قرآن کا ترجمہ لکھا اور "ادلۂ کاملہ"، "ایضاح الادلہ"، "احسن القِریٰ" اور الجہد المُقِل جیسی کتابیں تصنیف کیں۔ انھوں نے دار العلوم دیوبند میں حدیث کا درس دیا اور سنن ابی داؤد کی تسہیل لکھی۔ ان کے اجل تلامذہ میں اشرف علی تھانوی، انور شاہ کشمیری، حسین احمد مدنی، کفایت اللہ دہلوی، ثناء اللہ امرتسری اور عبید اللہ سندھی شامل ہیں۔
محمود حسن برطانوی راج کے سخت مخالف تھے۔ انھوں نے ہندوستان میں انگریزی اقتدار کا تختہ الٹنے کے لیے تحریکیں شروع کیں؛ لیکن 1916ء میں گرفتار کر کے انھیں مالٹا میں قید کر دیا گیا۔ انھیں 1920 میں رہا کیا گیا اور خلافت کمیٹی کی طرف سے انھیں "شیخ الہند" (ہندوستان کے رہنما) کے خطاب سے نوازا گیا۔ انھوں نے تحریک عدم تعاون کی حمایت میں فتوے لکھے اور مسلمانوں کو تحریک آزادی میں شامل کرنے کے لیے ہندوستان کے مختلف حصوں کا سفر کیا۔ انھوں نے نومبر 1920ء میں جمعیت علمائے ہند کے دوسرے اجلاس عام کی صدارت کی اور جمعیت علما کے صدر مقرر ہوئے۔ شیخ الہند مولانا محمود حسن میڈیکل کالج کا نام انھیں کی یاد میں رکھا گیا ہے۔ 2013ء میں، حکومت ہند نے ان کی تحریک ریشمی رومال پر ایک یادگار ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔
ابتدائی زندگی
[ترمیم]محمود حسن سنہ 1851ء میں بریلی (اتر پردیش، ہندوستان) میں پیدا ہوئے اور ان کا تعلق دیوبند کے عثمانی خاندان سے تھا۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔[1] ان کے والد، ذوالفقار علی دیوبندی، جو دارالعلوم دیوبند کے بانیان میں سے ہیں، بریلی کالج میں پروفیسر تھے اور میرٹھ میں مدارس و تعلیم کے ڈپٹی انسپکٹر کے عہدے پر فائز تھے۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔[2]
محمود حسن نے میاں جی منگلوری سے قرآن اور عبد اللطیف سے فارسی پڑھی۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ 1857ء کی بغاوت کے دوران، ان کے والد کا میرٹھ ٹرانسفر ہو گیا اور محمود حسن کو دیوبند بھیج دیا گیا، جہاں انھوں نے اپنے چچا مہتاب علی سے درس نظامی نصاب سے فارسی اور عربی ادب کی تعلیم حاصل کی۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ وہ دارالعلوم دیوبند کے پہلے طالب علم بنے؛لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ اور انھوں نے ملا محمود کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ انھوں نے 1869ء میں اپنی رسمی تعلیم مکمل کی اور محمد قاسم نانوتوی سے صحاح ستہ کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے میرٹھ گئے۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ انھوں نے دو سال تک قاسم نانوتوی کے دروس حدیث میں شرکت کی اور چھٹیوں میں اپنے والد کے پاس عربی ادب کی پڑھائی کی۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ انھوں نے 1872ء میں تعلیم سے فراغت حاصل کی اور 1873ء میں دار العلوم دیوبند کے پہلے جلسہ میں ان کی اعزازی دستار بندی ہوئی۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ وہ تصوف میں امداد اللہ مہاجر مکی اور رشید احمد گنگوہی کے خلیفہ و مجاز تھے۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
تدریس و دیگر خدمات
[ترمیم]دار العلوم دیوبند
[ترمیم]محمود حسن سنہ 1873ء میں دار العلوم دیوبند کے استاد مقرر ہوئے، جس سال انھوں نے اپنی تعلیم مکمل کی تھی۔ [1] وہ 1890ء میں دار العلوم کے صدر مدرس بنائے گئے۔ [3][4]لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ انھوں نے دیوبند کے مدرسے کو صرف علم کی جگہ نہیں سمجھا؛ بلکہ وہاں جنگ آزادی 1857ء کے نقصان کی تلافی کے لیے ایک انجمن قائم کی۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
محمود حسن نے 1878ء میں ثمرۃ التربیۃ کے نام سے ایک انجمن کی تشکیل دی۔ [5] جسے دار العلوم دیوبند کے طلبہ و فارغ التحصیل فضلا کی تربیت کے لیے ایک فکری مرکز کے طور پر قائم کیا گیا تھا۔[6] اس کے بعد اس انجمن نے جمعیت الانصار کی شکل اختیار کی، جس کا آغاز 1909ء میں مراد آباد میں اس کے پہلے اجلاس کے ساتھ ہوا، جس کی صدارت احمد حسن امروہی نے کی تھی۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ اپنے شاگرد عبید اللہ سندھی کے ساتھ، محمود حسن نے پھر نومبر 1913ء میں نظارۃ المعارف القرآنیہ کا آغاز کیا۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔[7] اس کا مقصد مسلم علما کے اثر و رسوخ کو بڑھانا اور انگریزی تعلیم یافتہ مسلم طبقہ کو اسلام کے بارے میں تعلیم دینا اور سکھانا تھا۔ [8] حسین احمد مدنی فرماتے ہیں:
” | اس کے (نظارۃ المعارف) کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ انگریزی تعلیم سے نوجوانان اسلام کے عقائد اور خیالات پر جو بے دینی اور الحاد کا زہریلا اثر پڑتا ہے، اس کو زائل کیا جائے اور قرآن کی تعلیم اس طرح دی جائے کہ ان کے شکوک و شبہات دین اسلام سے دور ہو جائیں اور وہ پکے اور سچے مسلمان ہو جائیں۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ | “ |
تحریک ریشمی رومال
[ترمیم]محمود حسن ہندوستان میں برطانوی راج کا تختہ الٹنا چاہتے تھے۔ جس میں کامیابی کے لیے انھوں نے دو جغرافیائی علاقوں پر توجہ دی۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ پہلا خود مختار قبائل کا علاقہ تھا، جو قبائل افغانستان اور ہندوستان کے درمیان آباد تھے۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ اسیر ادروی لکھتے ہیں: "یہ بھی تاریخ کی ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان پر حملہ آور قومیں ہمیشہ اسی راستے سے آئی ہیں، اگر شیخ الہند نے اس علاقہ کو مرکز توجہ بنایا تو یہ ان کے تدبر و فراست کی سب سے بڑی دلیل تھی۔"لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ دوسرا علاقہ ہندوستان کے اندر کا تھا۔ وہ ان تمام مخلص رہنماؤں کو متاثر کرنا چاہتے تھے جو ان کے مقصد کی حمایت کے لیے برادری کی دیکھ بھال کرتے تھے اور اس میں وہ خاصی حد تک کامیاب رہے۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ پہلے محاذ پر جن علما نے کام کیا، ان میں ان کے تلامذہ اور رفقا جیسے عبد الغفار خان، عبد الرحیم سندھی، محمد میاں منصور انصاری، عبید اللہ سندھی اور عزیر گل پیشاوری شامل تھے۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ انھوں نے سرحدی علاقوں اور خود مختار قبائل میں محمود حسن کی تحریک کی اشاعت کی۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ دوسرے محاذ پر جن علما نے کام کیا ان میں مختار احمد انصاری، عبد الرحیم رائے پوری اور احمد اللہ پانی پتی شامل تھے۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ محمد میاں دیوبندی فرماتے ہیں: "میرے اندازے کے مطابق انھوں نے طے کیا تھا کہ جن جن اصحاب میں عملی صلاحیت پائیں، انھیں جابجا خصوصاً "یاغستان" (آزاد قبائل) کے مختلف حصوں میں دینی اور اسلامی درسگاہیں قائم کرنے کی ترغیب دیں۔"[9] اس تحریک کا آغاز ہندوستان کے اندر لوگوں کو انگریز سامراج کے خلاف تیار کرنے کے لیے کیا گیا تھا کہ افغان اور ترک حکومتیں؛ مجاہدین کو فوجی امداد فراہم کریں اور اس فوجی حملے کے دوران ملک کے اندر لوگ بغاوت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ یاغستان محمود حسن کی تحریک کا مرکز تھا۔ [10] بھارت کی عبوری حکومت کو محمود حسن کے شاگرد عبید اللہ سندھی اور ان کے ساتھیوں نے مرتب کیا تھا اور مہندر پرتاپ کو صدر مقرر کیا گیا تھا۔ [11]
محمود حسن نے خود 1915ء میں جرمن اور ترکی کی حمایت حاصل کرنے کے لیے حجاز کا سفر کیا۔ [12] وہ 18 ستمبر 1915ء کو بمبئی سے روانہ ہوئے اور ان کے ساتھ دیگر رفقا بھی تھے، جن میں محمد میاں منصور انصاری، مرتضی حسن چاند پوری، محمد سہول بھاگلپوری اور عزیر گل پشاوری شامل تھے۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔[13] 18 اکتوبر 1915ء کو وہ مکہ گئے جہاں انھوں نے ترکی کے گورنر غالب پاشا اور انور پاشا سے ملاقاتیں کیں جو ترکی کے وزیر دفاع تھے۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔[14] غالب پاشا نے انھیں مدد کی یقین دہانی کرائی اور انھیں تین خطوط دیے، ایک خط مسلمانان ہند کے نام، دوسرا گورنر بصری پاشا کے نام اور تیسرا انور پاشا کے نام۔ [14] محمود حسن نے شام کے گورنر جمال پاشا سے بھی ملاقات کی، جس نے غالب پاشا کی باتوں سے اتفاق کیا۔ [14] محمود حسن کو خدشہ تھا کہ اگر وہ ہندوستان واپس آئے تو انگریزوں کے ہاتھوں انھیں گرفتار ہونا ہڑے گا اور انھیں افغانستان کی سرحد تک پہنچنے کی اجازت دی جائے جہاں سے وہ یاغستان پہنچ سکیں۔ [15] جمال پاشا نے ایک بہانہ بنایا اور انھیں بتایا کہ اگر انھیں گرفتاری کا خدشہ ہے تو وہ حجاز یا ترکی کے کسی دوسرے علاقے میں رک سکتے ہیں۔ [15] اس کے بعد، ریشمی رومال تحریک نامی مشن کو لیک کر دیا گیا اور اس سے منسلک ارکان کو گرفتار کر لیا گیا۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ محمود حسن کو دسمبر 1916ء میں ان کے رفقا اور تلامذہ حسین احمد مدنی اور عزیر گل پیشاوری کے ساتھ، شریف مکہ حسین ابن علی کی طرف سے گرفتار کیا گیا تھا، جس نے ترکوں کے خلاف بغاوت کرکے انگریزوں کے ساتھ اتحاد کیا تھا۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔[12] پھر شریف نے انھیں انگریزوں کے حوالے کر دیا، [16] اور انھیں مالٹا میں قلعہ وردالہ میں قید کر دیا گیا۔[17]
تحریک خلافت
[ترمیم]محمود حسن کو مئی 1920ء میں رہا کیا گیا،[17] اور 8 جون 1920ء تک وہ بمبئی پہنچ چکے تھے۔ [18] ان کا خیرمقدم بڑے علما اور سیاست دانوں نے کیا جن میں عبدالباری فرنگی محلی، حافظ محمد احمد، کفایت اللہ دہلوی، شوکت علی اور مہاتما گاندھی شامل تھے۔ [19] ان کی رہائی کو تحریک خلافت کے لیے ایک بہت بڑی امداد کے طور پر دیکھا گیا[19] اور انھیں خلافت کمیٹی نے "شیخ الہند" (ہندوستان کے رہنما) کے خطاب سے نوازا۔ [18]
محمود حسن نے مدرسہ دیوبند کے علما کو تحریک خلافت میں شامل ہونے کی ترغیب دی۔ [19] انھوں نے برطانوی سامان کے بائیکاٹ پر فتویٰ جاری کیا، جو اس وقت کے محمدن اینگلو اورینٹل کالج کے طلبہ کے استفتاء کے جواب میں تھا۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ اس حکم نامے میں، انھوں نے طلبہ کو مشورہ دیا کہ وہ کسی بھی طرح سے حکومت کا ساتھ دینے سے گریز کریں، سرکاری فنڈ سے چلنے والے اسکولوں اور کالجوں کا بائیکاٹ کریں اور سرکاری ملازمتوں سے گریز کریں۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ اس حکم کے بعد، طلبہ کی اکثریت کالج چھوڑ گئی۔ [20] اس حکم نامے نے تحریک عدم تعاون کی حمایت کی۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ اس کے بعد محمود حسن نے الہ آباد، فتح پور، غازی پور، فیض آباد، لکھنؤ اور مرادآباد کا سفر کیا اور تحریکوں کی حمایت میں مسلمانوں کی رہنمائی کی۔ [21]
جامعہ ملیہ اسلامیہ
[ترمیم]حسن سے کہا گیا کہ وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد کی تقریب کی صدارت کریں، جسے اس وقت مسلم نیشنل یونیورسٹی کا نام دیا گیا تھا۔ [22] یہ یونیورسٹی محمود حسن نے محمد علی جوہر اور حکیم اجمل خان کے ساتھ مل کر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے ان طلبہ کے اصرار پر قائم کی،[23] جو اے ایم یو کے انگریز نواز تعصب سے مایوس تھے اور جو ایک نئی یونیورسٹی چاہتے تھے۔ [24][25] محمود حسن کے بعض مخلصین نے مرض کی جانب توجہ دلائی کہ وہ اس پیشکش کو قبول نہ کریں کیونکہ وہ مالٹا میں قید کے وقت سے بہت کمزور ہو گئے تھے۔ [26][22] محمود حسن نے ان کے خدشات کے جواب میں کہا، "اگر میری صدارت سے انگریز کو تکلیف ہوگی، تو میں اس جلسہ میں ضرور شریک ہوں گا۔"[22] اس کے بعد انھیں ایک پالکی میں دیوبند ریلوے اسٹیشن لایا گیا، جہاں سے انھوں نے علی گڑھ کا سفر کیا۔ [22]
محمود حسن کچھ لکھنے کے قابل نہیں تھے اور اپنے شاگرد شبیر احمد عثمانی سے کہا کہ وہ ان کی صدارتی تقریر تیار کریں۔ اس کے بعد انھوں نے تیار شدہ تقریر میں تصحیح اور بہتری کی اور اسے چھپوانے کے لیے بھیج دیا۔ 29 اکتوبر 1920ء کو یہ تقریر عثمانی صاحب نے یونیورسٹی کے جلسۂ سنگ بنیاد میں بلند آواز سے پڑھی، لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ جس کے بعد محمود حسن نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کا سنگ بنیاد رکھا۔ [26] محمود حسن نے تقریر میں کہا کہ "آپ میں سے جو حضرات محقق اور باخبر ہیں وہ جانتے ہوں گے کہ میرے اکابر سلف نے کسی وقت بھی کسی اجنبی زبان کے سیکھنے یا دوسری قوموں کے علوم وفنون حاصل کرنے پر کفر کا فتوی نہیں دیا۔ ہاں یہ بیشک کہا گیا کہ انگریزی تعلیم کا آخری اثر یہی ہے کہ جو عموماً دیکھا گیا ہے کہ لوگ نصرانیت کے رنگ میں رنگے جائیں یا ملحدانہ گستاخیوں سے اپنے مذہب اور مذہب والوں کا مذاق اڑائیں یا حکومت وقتیہ کی پرستش کرنے لگیں تو ایسی تعلیم پانے سے ایک مسلمان کے لیے جاہل رہنا اچھا ہے۔"[27] انھوں نے مہاتما گاندھی کی اس بات سے اتفاق کیا کہ "ان کالجوں کی اعلی تعلیم بہت اچھے صاف اور شفاف دودھ کی طرح ہے جس میں تھوڑا سا زہر ملا دیا گیا ہو۔"[27]
جمعیت علمائے ہند
[ترمیم]محمود حسن نے جمعیت علمائے ہند کے دوسرے اجلاس عام کی صدارت کی، جو نومبر 1920ء کو دہلی میں منعقد ہوا تھا۔ [28] انھیں جمعیت کا صدر منتخب کیا گیا، اس عہدے پر وہ کچھ دنوں ہی یعنی [30 نومبر کو] اپنی وفات تک ہی خدمات انجام دے سکے۔ [29] اجلاس عام 19 نومبر سے شروع ہو کر تین دنوں کو محیط رہا اور محمود حسن کی صدارتی تقریر ان کے شاگرد شبیر احمد عثمانی نے بلند آواز سے پڑھی۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ محمود حسن نے ہندو-مسلم-سکھ اتحاد کی وکالت کی اور کہا کہ اگر ہندو اور مسلمان متحد ہو جائیں تو آزادی حاصل کرنا زیادہ مشکل نہیں۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔[30] یہ آخری اجلاس تھا، جس میں محمود حسن نے شرکت کی۔ [30]
تلامذہ
[ترمیم]محمود حسن کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ ان کے بڑے شاگردوں میں غلام رسول ہزاروی،[31][32][33][34] انور شاہ کشمیری، اصغر حسین دیوبندی، اشرف علی تھانوی، حسین احمد مدنی، اعزاز علی امروہی، کفایت اللہ دہلوی، مناظر احسن گیلانی، محمد میاں منصور انصاری، محمد شفیع دیوبندی، ثناء اللہ امرتسری، شبیر احمد عثمانی، سید فخر الدین احمد، عبید اللہ سندھی اور عزیر گل پشاوری شامل ہیں۔ [3]لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ ابراہیم موسی بیان کرتے ہیں کہ "ان کے تلامذہ کی ایک اچھی خاصی جماعت نے بعد میں مدارس کے میدان میں شہرت حاصل کی اور جنوبی ایشیا میں عوامی زندگی میں مذہبی تعلیم، سیاست اور ادارہ سازی جیسے متنوع شعبوں میں اپنا حصہ قربان کیا۔"[35]
قلمی خدمات
[ترمیم]ترجمۂ قرآن
[ترمیم]محمود حسن نے اردو میں قرآن کا ایک بین سطری ترجمہ لکھا۔[36] بعد میں انھوں نے اس ترجمہ کو تفسیری نوٹوں کے ساتھ لکھنا شروع کیا، ابھی انھوں نے چوتھا پارہ النساء مکمل کیا تھا کہ 1920ء میں ان کا انتقال ہو گیا۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ وہ تفسیر ان کے شاگرد شبیر احمد عثمانی نے مکمل کیا اور تفسیرِ عثمانی کے نام سے شائع ہوا۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ بعد میں افغانستان کے آخری بادشاہ محمد ظاہر شاہ کی زیر سرپرستی علما کی ایک جماعت نے اس کا فارسی میں ترجمہ کیا۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
الابواب و التراجم للبخاری
[ترمیم]محمود حسن نے دار العلوم دیوبند میں صحیح بخاری کا درس دیا اور جب وہ مالٹا میں قید تھے تو صحیح بخاری کے باب کے عنوانات کی تشریح کرتے ہوئے ایک شرح لکھنا شروع کیا۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ علم حدیث میں، روایات کی تطبیق کے سلسلے میں "ترجمۃ الباب" کو ایک الگ علم کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔[37] محمود حسن نے ترجمۃ الباب سے روایات کی مطابقت کے سلسلہ میں پندرہ اصول ذکر کیے ہیں اور پھر 'باب کیف بدأ الوحی' سے سلسلۂ کلام کا آغاز کیا اور کتاب العلم کے 'باب من أجاب السائل بأکثر مما سألہ' لکھا تھا کہ قضا و قدر کا فیصلہ نافذ ہو گیا اور وہ راہیِ عالمِ بقا ہو گئے۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ اس رسالے کا عنوان الابواب و الترجم للبخاری ہے اور وہ 32 صفحات پر مشتمل ایک نامکمل رسالہ ہے۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
ادلۂ کاملہ
[ترمیم]جوں جوں ہندوستان میں تحریکِ اہل حدیث پروان چڑھنے لگی انھوں نے احناف کے خلاف سوال اٹھانا شروع کر دیے۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ اہل حدیث عالم محمد حسین بٹالوی نے دس سوالات کا مجموعہ مرتب کیالوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ اور جواب دینے والوں کے لیے دس روپے فی جواب کے ساتھ انعام کے ساتھ چیلنج کا اعلان کیا۔ یہ امرتسر سے شائع ہوا اور دار العلوم دیوبند کو بھجوایا گیا۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ اس وقت علمائے دیوبند کی پالیسی یہ تھی کہ ایسے مسائل سے اجتناب کیا جائے جس سے امت مسلمہ میں تقسیم و انتشار پیدا ہو؛ لیکن اہل حدیث نے اس مسئلے پر مجبور کیا۔ اس کے بعد محمود حسن نے اپنے استاد نانوتوی کے تعمیلِ حکم میں، لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ اہل حدیث کے سوالات کو پلٹ کر الٹا انھیں سے کئی سوالات پوچھے، اس چیلنج کے ساتھ کہ اگر آپ ان سوالات کا جواب دیں گے تو ہم آپ کو ہر جواب پر بیس روپے پیش کریں گے۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
ایضاح الادلہ
[ترمیم]محمود حسن کی ادلۂ کاملہ کے بعد ایک دوسرے غیر مقلد عالم مولوی احمد حسن امروہوی نے ادلۂ کاملہ کے جواب میں مصباح الادلہ لکھی۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ دیوبندی عالم نے اصل مخاطب محمد حسین بٹالوی کے جواب کے لیے کچھ دنوں انتظار کیا، لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ جس نے پھر اعلان کیا کہ امروہوی کا جواب کافی ہے اور یہ کہ انھوں نے خود جوابات لکھنے کا ارادہ ترک کر دیا ہے۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ محمود حسن نے اس کے جواب کی طرف توجہ فرمائی اور ایک ضخیم کتاب ایضاح الادلہ شرح ادلۂ کاملہ معرضِ وجود میں آئی۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
احسن القِرٰی
[ترمیم]حسن نے اس کتاب میں گاؤں اور دیہات میں نماز جمعہ کی اجازت پر بحث کی ہے۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ سید نذیر حسین دہلوی نے یہ مسئلہ اٹھایا تھا اور ان کا ایک فتویٰ شائع ہوا تھا، جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ جمعہ کے لیے کسی جگہ کی تخصیص نہیں، انھوں نے کہا کہ ہرجگہ جہاں چند آدمی جمع ہو جائیں جن کی اقل تعداد دو ہو، ان لوگوں کو جمعہ ادا کرنا ضروری ہے۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ حنفی فقیہ اور عالم، رشید احمد گنگوہی نے اس کے جواب میں 14 صفحات پر مشتمل ایک فتویٰ تحریر کیا، جسے حنفی مکتب فکر کے نقطۂ نظر سے اوثق العُریٰ کہا جاتا ہے۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
گنگوہی کے کام کو غیر مقلدین علما کی طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ جن میں سے اکثر نے سابقہ دلائل کو دوبارہ پیش کیا۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ گنگوہی کے شاگرد محمود حسن نے محسوس کیا کہ ان کاموں کی زبان گستاخانہ ہے اور اس کے جواب میں اس نے ایک طویل کتاب لکھی جس کا نام احسن القِریٰ فی توضیح اوثق العُریٰ ہے۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
جُھد المُقِلّ
[ترمیم]شاہ اسماعیل دہلوی اور ان کے رفقا کو، جنھوں نے بدعات (مذہبی اختراعات) سے مسلمانوں کی اصلاح کے لیے کام کیا، ان بدعات سے وابستہ لوگوں کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ دہلوی پر خاص طور پر توہین مذہب کا الزام تھا اور وہ خارج از اسلام اسلام قرار دے دیے گئے تھے۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ اس کے بعد احمد حسن کانپوری نے تنزیہ الرحمٰن لکھا، جس میں انھوں نے دہلوی کو معتزلہ کے ایک متشدد گروہ میں شامل بتلایا۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ اس کے جواب میں محمود حسن نے دو جلدوں میں جُھد المُقِلّ فی تنزیہ المعز والمذل لکھی۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ کتاب میں زیادہ تر خدائے تعالیٰ کی ذات و صفات سے متعلق علم کلام کی اصطلاحات میں بحث ہے، یہ کتاب نجم الدین نسفی کی کتاب "العقائد النسفیہ" پر لکھی گئی سعد الدین تفتازانی کی "شرح العقائد النسفیہ" کی نہج پر لکھی گئی ہے۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ محمود حسن نے علم الکلام کا استعمال کرتے ہوئے شاہ اسماعیل دہلوی اور ان جیسے دیگر علما پر لگائے گئے الزامات کا جواب دیا ہے۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
تصحیحِ سنن ابی داؤد
[ترمیم]صحاح ستہ کے تحریری نسخے اسلامی ممالک؛ بالخصوص مکہ اور مدینہ کے کتب خانوں میں محفوظ تھے۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ ہندوستانی عالم احمد علی سہارنپوری مکہ میں موجود مخطوطات کو نقل کرتے اور پھر شاہ محمد اسحاق سے پڑھتے تھے۔ جب وہ ہندوستان واپس آئے تو انھوں نے اپنے پریس سے حدیث کے ان مخطوطات کے نقل شدہ ایڈیشن شائع کرنا شروع کردیے۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ شاہ محمد اسحاق کے شاگرد محمد قاسم نانوتوی نے حدیث کے نسخوں کو نقل کرنے کا عمل جاری رکھا یہاں تک کہ تمام کتابیں ہندوستان میں شائع ہو گئیں۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
سنن ابی داؤد کی تصحیح کی ضرورت اب بھی باقی رہ گئی تھی، جو حدیث کی چھ بڑی کتابوں میں سے ایک ہے۔ تاہم، جو نسخے شائع ہو چکے تھے اور جو اصل تحریری مسودات یعنی قلمی نسخے پائے جاتے تھے، ان میں خاصا فرق رہ گیا تھا اور قابل اصلاح خامیاں رہ گئی تھیں۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ اس طرح محمود حسن نے تمام دستیاب مخطوطات کو جمع کیا، متن کو نقل کیا اور اس کے کئی ایڈیشن کتابی شکل میں شائع ہوئے۔ یہ 1900ء میں مطبع مجتبائی دہلی سے شائع ہوئے۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
وفات و وراثت
[ترمیم]علی گڑھ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد رکھنے کے ایک دن بعد 30 اکتوبر 1920ء کو، محمود حسن نے مختار احمد انصاری کی درخواست پر دہلی کا سفر کیا۔ کئی دنوں بعد ان کی طبیعت بگڑ گئی اور انھوں نے انصاری سے دریا گنج میں اپنے گھر پر علاج کروایا۔ [38]لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ ان کا انتقال 30 نومبر 1920ء کو دہلی میں ہوا۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ ان کی وفات کی اطلاع ملتے ہی ہندو اور مسلمان اپنی دکانیں بند کر کے محمود حسن کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے انصاری کے گھر کے باہر جمع ہو گئے۔ [39] اس کے بعد انصاری نے محمود حسن کے بھائی حکیم محمد حسن سے پوچھا کہ اگر دہلی میں تدفین پسند فرمائیں تو شاہ ولی اللہ دہلوی کے خاندانی قبرستان مہدیان میں بندوبست کیا جائے اور اگر دیوبند میں تدفین منظور ہو تو جنازہ لے جانے کی تیاری کی جائے۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ ان کی خواہش کے پیش نظر انھیں دیوبند میں دفن کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور انھیں ان کے استاذ محمد قاسم نانوتوی کی جوار میں دفن کیا گیا۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ ان کی نماز جنازہ متعدد بار ادا کی گئی۔ دہلی کے لوگوں نے انصاری کے گھر کے باہر نماز ادا کی اور پھر میت کو دیوبند منتقل کیا گیا۔ دہلی ریلوے اسٹیشن پر پہنچتے ہی لوگوں کی بڑی تعداد جمع ہو گئی اور نماز جنازہ ادا کی گئی۔ اس کے بعد میرٹھ شہر ریلوے اسٹیشن اور میرٹھ چھاؤنی ریلوے اسٹیشن پر نماز ادا کی گئی۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ ان کی پانچویں اور آخری نماز جنازہ ان کے بھائی حکیم محمد حسن نے پڑھائی اور انھیں قاسمی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
محمود حسن کو کئی اعزازات ملے۔ اشرف علی تھانوی نے فرمایا کہ لوگ "شیخ العالم" کو "شیخ الہند" کہتے ہیں۔[40] تھانوی کہتے ہیں کہ "ہماری اعتقاد میں تو وہ "شیخ الہند و السند و العرب و العجم" ہیں۔"[40] سہارنپور میں ایک میڈیکل کالج کا نام شیخ الہند مولانا محمود حسن میڈیکل کالج رکھا گیا۔[41] جنوری 2013ء میں ہندوستان کے صدر، پرنب مکھرجی نے محمود حسن کی ریشمی رومال تحریک پر ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔[42]
حوالہ جات
[ترمیم]- ^ ا ب طیب 1990, p. 18.
- ↑ رضوی 1980, pp. 93–94.
- ^ ا ب رضوی 1981, p. 20.
- ↑ طیب 1990, p. 20.
- ↑ دیوبندی 1946, p. 112.
- ↑ حسن، نایاب (1 دسمبر 2017ء)۔ "حضرت شیخ الہند کا تصورِ فلاحِ امت"۔ ملت ٹائمز۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-07-27
- ↑ دیوبندی 2013, p. 295.
- ↑ خمجی 1999, p. 92.
- ↑ دیوبندی 2013, p. 57.
- ↑ تبسم 2006, p. 47.
- ↑ رضوی 1981, pp. 137–138.
- ^ ا ب ترویدی 1982, p. 659.
- ↑ طیب 1990, p. 49.
- ^ ا ب پ دیوبندی 2013, pp. 59–60.
- ^ ا ب دیوبندی 2013, p. 59-60.
- ↑ دیوبندی 2013, p. 61.
- ^ ا ب ناخدا، اسماعیل۔ "Where were Indian Muslim scholars interned in Malta?"۔ بصائر۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-07-30
{{حوالہ ویب}}
: الوسيط غير المعروف|trans_title=
تم تجاهله يقترح استخدام|عنوان مترجم=
(معاونت) - ^ ا ب طیب 1990, p. 76.
- ^ ا ب پ خمجی 1999, p. 144.
- ↑ طیب 1990, p. 79.
- ↑ طیب 1990, p. 77.
- ^ ا ب پ ت دیوبندی 1946, p. 213.
- ↑ بشیر، انتفاضہ. پی (29 اکتوبر 2020ء)۔ "Jamia Millia Islamia: A University That Celebrates Diversity"۔ آؤٹ لک انڈیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-07-30
{{حوالہ خبر}}
: الوسيط غير المعروف|trans_title=
تم تجاهله يقترح استخدام|عنوان مترجم=
(معاونت) - ↑ دیوبندی, p. 144.
- ↑ "Shaikhul-Hind Mahmood Hasan: symbol of freedom struggle"۔ ملی گزٹ۔ 12 فروری 2016ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-07-27
{{حوالہ خبر}}
: الوسيط غير المعروف|trans_tilte=
تم تجاهله (معاونت) - ^ ا ب نظامی 2011, p. 29.
- ^ ا ب نظامی 2011, p. 33.
- ↑ واصف دہلوی 1970, p. 56.
- ↑ واصف دہلوی 1970, p. 74.
- ^ ا ب نظامی 2018, p. 132.
- ↑ ہردوئی، محمد طیب قاسمی۔ دار العلوم ڈائری لیل و نہار: تلامذۂ دور صدارت امام الفلسفہ مولانا سید احمد دہلوی و شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی (2013ء اشاعت)۔ دیوبند: ادارہ پیغامِ محمود۔ ص 37–38، 42–43۔
دیوبند میں محمود اسعد مدنی کے گھر کے سامنے مدنی مارکیٹ میں ہردوئی کے رہنے والے اخبار فروش اور سابقہ ماہنامہ پیغام محمود کے مدیر محمد طیب قاسمی نے مرغوب الرحمن بجنوری کے زمانۂ اہتمام میں ان کی اجازت سے دار العلوم دیوبند سے فضلائے دار العلوم دیوبند کا ریکارڈ حاصل کیا تھا اور اسی کو ترتیب دے کر اپنے ادارے ادارۂ پیغام محمود سے سلسلہ وار تلامذہ کی فہرست شائع کی اور 2013ء میں سید احمد دہلوی اور محمود حسن دیوبندی کے دار العلوم دیوبند میں دور صدارت میں دورۂ حدیث سے فارغ التحصیل طلبہ کی فہرست شائع کی، جس میں سید احمد دہلوی کے دور صدارت کے طلبہ کے تحت غلام رسول بفوی کا سنہ فراغت 1303ھ لکھا ہوا ہے یعنی اس وقت دار العلوم دیوبند کے شیخ الحدیث سید احمد دہلوی تھے اور محمود حسن دیوبندی استاذ حدیث تھے، صحیح بخاری کا ایک حصہ ان سے بھی متعلق تھا، پھر 1307ھ میں سید احمد دہلوی کے مستعفی ہوکر بھوپال چلے جانے کے بعد محمود حسن دیوبندی دار العلوم دیوبند کے شیخ الحدیث و صدر المدرسین بنائے گئے تھے۔
{{حوالہ کتاب}}
: يحتوي الاستشهاد على وسيط غير معروف وفارغ:|1=
(معاونت) - ↑ فیوض الرحمن جدونی (1977)۔ "استاذ الاساتذہ مولانا غلام رسول صاحب بفوی"۔ مشاہیر علمائے سرحد 1857–1977ء (تحقیقی مقالہ برائے پی ایچ ڈی علومِ اسلامیہ)۔ ملیر کینٹ، کراچی: جامع مسجد الفرقان۔ صفحہ: 307۔ 07 فروری 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 فروری 2023
- ↑ رضوی، سید محبوب (1993ء)۔ "مولانا غلام رسول ہزاروی"۔ تاریخ دار العلوم (جلد دوم) (دوسرا اشاعت)۔ دار العلوم دیوبند: ادارہ اہتمام۔ ص 62–63
- ↑ مبارکپوری، محمد عارف جمیل (1442ھ م 2021ء)۔ "٦٠٤-الهزاروي"۔ موسوعة علماء ديوبند (عربی میں) (پہلا اشاعت)۔ دیوبند: شیخ الہند اکیڈمی۔ ص 267
{{حوالہ کتاب}}
: تحقق من التاريخ في:|date=
(معاونت) - ↑ موسی 2015, p. 72.
- ↑ "The Translations of the Quran"۔ دی اسلامک کوارٹرلی۔ لندن: اسلامک کلچرل سینٹر۔ 40–41: 228۔ 1996
{{حوالہ رسالہ}}
: الوسيط غير المعروف|trans_title=
تم تجاهله يقترح استخدام|عنوان مترجم=
(معاونت) - ↑ "Shaykh (Maulana) Muhammad Zakariyya Kandhlawi"۔ سینٹر مسجد۔ مورخہ 2021-05-19 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2022-04-22۔
Assigning chapter headings in a hadith collection is a science in itself, known among the scholars as al-abwab wa 'l-tarajim [chapters and explanations].
- ↑ سعد شجاع آبادی 2015, p. 24-25.
- ↑ سعد شجاع آبادی 2015, p. 26.
- ^ ا ب تھانوی، اشرف علی۔ عثمانی، محمود اشرف (مدیر)۔ ملفوظات حکیم الامت۔ ملتان: ادارہ تالیفات اشرفیہ۔ ج 5۔ ص 300
- ↑ "Saharanpur medical college to be named after Madni"۔ ٹائمز آف انڈیا۔ 24 نومبر 2013۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-07-27
- ↑ "Prez releases special stamp on 'Silk Letter Movement'"۔ بزنس اسٹانڈرز۔ 29 جنوری 2013۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-07-29
کتابیات
[ترمیم]- ادروی، اسیر (اپریل 2012ء)۔ حضرت شیخ الہند حیات اور کارنامے۔ دیوبند: شیخ الہند اکیڈمی
- ادروی، اسیر (اپریل 2016ء)۔ کاروان رفتہ: تذکرہ مشاہیر ہند (دوسرا اشاعت)۔ دیوبند: دار المؤلفین
- دیوبندی، محمد میاں (1946ء)، علماء حق اور ان کے مجاہدانہ کارنامے، نئی دہلی: الجمعیۃ بک ڈپو، ج 1
- دیوبندی, محمد میاں (2013ء). سلک لیٹر موومنٹ (انگریزی میں). Translated by محمد اللّٰہ قاسمی (پہلا ed.). شیخ الہند اکیڈمی بہ معاونت مانک پبلی کیشنز. ISBN:978-93-7831-322-6.
- دیوبندی، محمد میاں (جنوری 2002ء)۔ اسیران مالٹا [دی پریزنرز آف مالٹا]۔ دیوبند: کتب خانہ نعیمیہ
- حقانی، عبد القیوم (جنوری 2006ء)۔ "علامہ شبیر احمد عثمانی نمبر"۔ ماہنامہ القاسم۔ نوشہرہ (خیبر پختونخوا): القاسم اکیڈمی، جامعہ ابو ہریرہ۔ ج 9
- حسین اکبر علی خمجی (1999ء)۔ The legacy of the early twentieth-century Khilafat movement in India [ہندوستان میں بیسویں صدی کے اوائل کی تحریک خلافت کی میراث] (مقالہ)۔ ٹورنٹو یونیورسٹی۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 جولائی 2021ء
- موسی، ابراہیم (2015ء)۔ What is a Madrasa?۔ ایڈنبرگ: ایڈنبرگ یونیورسٹی پریس۔ ISBN:978-14-6962-013-8
{{حوالہ کتاب}}
: الوسيط غير المعروف|trans_title=
تم تجاهله يقترح استخدام|عنوان مترجم=
(معاونت) - نظامی، ظفر احمد (2011ء)۔ معماران جامعہ۔ نئی دہلی: مکتبہ جامعہ۔ ISBN:978-81-7587-475-6۔ OCLC:649685329
- نظامی، ظفر احمد (2018ء)۔ خان، رفاقت علی (مدیر)۔ آزادی ہند کی جدو جہد میں مسلمانوں کا کردار 1857ء-1947ء: دہلی۔ نئی دہلی: انسٹیٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز۔ ISBN:978-93-84973-07-0
- قاسمی، محمد طیب (جولائی 1999ء)۔ بخاری، محمد اکبر شاہ (مدیر)۔ 50 مثالی شخصیات۔ دیوبند: مکتبہ فیض القرآن
- الرحمن، مفتی عزیز (جولائی 1967ء)۔ تذکرہ مشائخ دیوبند (دوسرا اشاعت)۔ بجنور: مدنی دار التالیف۔ ص 213–231۔ OCLC:19927541
- رضوی، سید محبوب (1980ء)۔ ہسٹری آف دار العلوم دیوبند۔ ترجمہ از مرتضی حسین ایف قریشی (پہلا اشاعت)۔ دار العلوم دیوبند: ادارہ اہتمام۔ ج 1
- رضوی، سید محبوب (1981ء)۔ ہسٹری آف دار العلوم دیوبند۔ ترجمہ از مرتضی حسین ایف قریشی (پہلا اشاعت)۔ دار العلوم دیوبند: ادارہ اہتمام۔ ج 2
- سعد شجاع آبادی، ابومحمد ثںاء اللہ (2015ء)۔ علمائے دیوبند کے آخری لمحات۔ سہارنپور: مکتبہ رشیدیہ
- السلام، ضیاء؛ پرویز، محمد اسلم (فروری 2020ء)۔ Madrasas in the Age of Islamophobia (پہلا اشاعت)۔ ساج پبلیکیشنز۔ ISBN:978-93-5328-929-4
{{حوالہ کتاب}}
: الوسيط غير المعروف|trans_title=
تم تجاهله يقترح استخدام|عنوان مترجم=
(معاونت) - تبسم، فرحت (2006ء)۔ Deoband Ulema's Movement for the Freedom of India (پہلا اشاعت)۔ نئی دہلی: جمعیت علمائے ہند بہ تعاون مانک پبلی کیشنز۔ ISBN:81-7827-147-8
{{حوالہ کتاب}}
: الوسيط غير المعروف|trans_title=
تم تجاهله يقترح استخدام|عنوان مترجم=
(معاونت) - محمد طیب (1990ء)۔ The Role of Shaikh-Ul-Hind Maulana Mahmud-Ul-Hasan in the Indian Freedom Movement [تحریک آزادی ہند میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن کا کردار] (مقالہ)۔ علی گڑھ: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی۔ OCLC 1012388751
- ترویدی، راج کمار (1982ء)۔ "Turco-German intrigue in India in Workd War I"۔ پروسیڈیڈنز آف دی انڈین ہسٹری کانگریس۔ انڈین ہسٹری کانگریس۔ ج 43: 659۔ JSTOR:44141303۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-07-30
{{حوالہ رسالہ}}
: الوسيط غير المعروف|trans_title=
تم تجاهله يقترح استخدام|عنوان مترجم=
(معاونت) - واصف دہلوی، حفیظ الرحمن (1970ء)۔ جمعیۃ علماء ہند پر ایک تاریخی تبصرہ۔ OCLC:16907808
- واسطی، سید تنویر (ستمبر 2006ء)۔ "The Political Aspirations of Indian Muslims and the Ottoman Nexus"۔ مڈل ایسٹرن اسٹڈیز۔ ٹیلر اینڈ فرانسیس۔ ج 42 شمارہ 5: 709–722۔ DOI:10.1080/00263200600826331۔ ISSN:0026-3206۔ JSTOR:4284490۔ S2CID:144026442۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-07-27
{{حوالہ رسالہ}}
: الوسيط غير المعروف|trans_title=
تم تجاهله يقترح استخدام|عنوان مترجم=
(معاونت) - زماں، محمد قاسم (24 دسمبر 2018ء)۔ گراف، بٹینہ؛ کراویتز، برجٹ؛ امیر معظمی، شیرین (مدیران)۔ "Ways of Knowing Muslim Cultures and Societies: Studies in Honour of Gudrun Krämer"۔ مشرق وسطیٰ و ایشیا کا سماجی، اقتصادی اور سیاسی مطالعہ۔ برل۔ ج 122: 280-297۔ اخذ شدہ بتاریخ 28جولائی 2021ء
{{حوالہ رسالہ}}
: تحقق من التاريخ في:|access-date=
(معاونت) والوسيط غير المعروف|trans_title=
تم تجاهله يقترح استخدام|عنوان مترجم=
(معاونت)
مزید پڑھیے
[ترمیم]- ارشد، عبد الرشید؛ دیوبندی، نواز، مدیران (جنوری 2000ء)۔ "شیخ الہند مولانا محمود حسن"۔ سوانح علمائے دیوبند۔ دیوبند: نواز پبلیکیشنز۔ ج 2۔ ص 434–522
- مٹکاف، باربرا ڈی (1982ء)۔ Islamic Revival in British India: Deoband, 1860–1900۔ پرنسٹن، نیو جرسی: پرنسٹن یونیورسٹی پریس۔ ISBN:0-691-05343-X۔ OCLC:889252131
{{حوالہ کتاب}}
: الوسيط غير المعروف|trans_title=
تم تجاهله يقترح استخدام|عنوان مترجم=
(معاونت) - محمد مجاب (2001ء)۔ Islamic sciences in india and indonesia: a comparative study [ہندوستان اور انڈونیشیا میں اسلامی علوم: ایک تقابلی مطالعہ] (مقالہ)۔ بھارت: کلیہ سنی دینیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی۔ صفحہ: 161–167۔ hdl:10603/58830
بیرونی روابط
[ترمیم]
- اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: غیر آرکائیو شدہ روابط پر مشتمل حوالہ جات
- أخطاء الاستشهاد: وسائط غير مدعومة
- أخطاء الاستشهاد: وسائط غير معروفة فارغة
- عربی (ar) زبان پر مشتمل حوالہ جات
- الاستشهاد: قيمة المجلد طويلة
- انگریزی (en) زبان پر مشتمل حوالہ جات
- دار العلوم دیوبند کے فضلا
- اسلام ناؤ خانے
- 1851ء کی پیدائشیں
- 1920ء کی وفیات
- آزادی ہند کے فعالیت پسند
- اتر پردیش سے آزادی ہند کے فعالیت پسند
- احناف
- بریلی کی شخصیات
- بھارت کے سنی علما
- بھارتی اسکولوں و کالجوں کے بانیان
- بھارتی مسلم شخصیات
- جامعہ ملیہ اسلامیہ
- حنفی فقہا
- دار العلوم دیوبند کا تدریسی عملہ
- دار العلوم ندوۃ العلماء
- دیوبندی شخصیات
- ماتریدی شخصیات
- مفسرین
- ہندو-جرمن سازش
- ہندوستانی صوفیا
- بھارتی انقلابی