محمد امین پالن پوری
محمد امین پالن پوری | |
---|---|
ذاتی | |
پیدائش | مجاہد پورہ، ڈبھاڈ، تحصیل کھیرالو، ضلع مہسانہ، شمالی گجرات، بھارت | 15 جنوری 1952
مذہب | اسلام |
قومیت | ہندوستانی |
قابل ذکر کام | فتاویٰ دار العلوم دیوبند کی تکمیل و ترتیبِ جدید، الخیر الکثیر شرح الفوز الکبیر، محاضرات علمیہ بر موضوع رضاخانیت، تہذیب الاصول یعنی آسان اصول تفسیر، حیاتِ سعید |
اساتذہ |
|
مرتبہ | |
شاگرد
|
محمد امین پالن پوری (پیدائش: 15 جنوری 1952ء) ایک ہندوستانی گجراتی دیوبندی عالم، مفتی اور مصنف ہیں۔ وہ سنہ 1402ھ بہ مطابق 1982ء سے دار العلوم دیوبند میں درجۂ علیا کے مدرس کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ابتدائی و تعلیمی زندگی
[ترمیم]ولادت و خاندان
[ترمیم]محمد امین بن یوسف بن علی پالن پوری دستاویز کے مطابق 15 جنوری 1952ء کو شمالی گجرات میں ضلع مہسانہ کے مجاہد پورہ، ڈبھاڈ میں پیدا ہوئے۔[1] ان کا اصل آبائی وطن کالیڑہ، ضلع بناسکانٹھا، گجرات ہے۔ ضلع بناسکانٹھا کا مرکزی شہر پالن پور ہے، جس کی طرف نسبت کرتے ہوئے انھیں "پالن پوری" کہا جاتا ہے۔ ان کا تعلق مومن برادری سے ہے۔[2]
تعلیم و تربیت
[ترمیم]پالن پوری کی ابتدائی دینی و عصری تعلیم جائے پیدائش سے قریب ایک بستی ہردے واسںنہ میں ہوئی کہ جہاں صبح دس بجے تک مدرسے میں اور اس کے بعد سے شام پانچ بجے تک اسکول میں پڑھتے تھے۔[3]
دس بارہ سال کی عمر میں پالن پوری اپنے برادر اکبر سعید احمد پالن پوری کے ساتھ 1382ھ بہ مطابق 1982ء میں دیوبند چلے آئے، حفظ قرآن کی ابتدا قاری کامل دیوبندی کے پاس کی، کچھ دنوں کے بعد ہی سے اپنے برادر اکبر کے پاس پڑھنے لگے اور دو ہی دو سالوں کے اندر حفظ قرآن کی دولت سے بہرہ ور ہوئے اور یہ دو سال سعید احمد پالن پوری کے دورۂ حدیث اور تکمیل افتا کے تھے۔[4]
اگلے سال 1384ھ میں ان کے بڑے بھائی کا تقرر بہ حیثیت مدرس دار العلوم اشرفیہ راندیر، گجرات میں ہوا تو پالن پوری انھیں کے ساتھ وہاں چلے گئے اور فارسی کی کتابیں انھیں سے پڑھیں،[5] پھر دار العلوم اشرفیہ، راندیر میں عربی اول، دوم، اسی طرح عربی سوم کی بعض کتابیں محی الدین راندیری اور یوسف بوڈھانیہ سے پڑھیں۔[6]
پھر انھوں نے مظاہر علوم سہارنپور آ کر وہاں پر کافیہ سے سلم العلوم تک کی کتابیں پڑھیں، جہاں پر انھوں نے محمد یامین سہارنپوری سے کافیہ، سلم العلوم وغیرہ، صدیق احمد جموی سے شرح جامی، محمد سلمان مظاہری سے کنز الدقائق وغیرہ اور محمد یعقوب سہارنپوری سے بعض کتابیں پڑھیں۔[6] ان کے زمانۂ تعلیم مظاہر علوم سہارنپور کے شرکائے درس میں مولانا عبد الاول مقیم حال والسال (برطانیہ) اور اسماعیل سورتی کفلیتوی مقیم حال ولور، ہیمپٹن، لندن شامل تھے۔[7]
پھر وہ دار العلوم دیوبند آ گئے اور وہاں ان کا داخلہ ہو گیا، جہاں انھوں نے عربی پنجم سے عربی ہفتم تک کی کتابیں پڑھیں، ان کے دار العلوم دیوبند کے اساتذہ میں قمر الدین احمد گورکھپوری، خورشید عالم دیوبندی، نصیر احمد خان بلند شہری، وحید الزماں کیرانوی، محمد سالم قاسمی، محمد نعیم دیوبندی، معراج الحق دیوبندی اور فخر الحسن مرادآبادی وغیرہ شامل تھے۔[7]
دار العلوم دیوبند میں درجہ بندی چوں کہ ان کے مشکاۃ المصابیح والے سال یعنی 1390ھ بہ مطابق 1970ء میں ہوئی تھی اور وہ اس وقت تک تفسیر جلالین نہیں پڑھ پائے تھے تو چھٹیوں میں دار العلوم اشرفیہ راندیر چلے گئے اور وہاں تقریباً ایک سال تک رہ کر انھوں نے شرح عقائد، جامع ترمذی اور دیگر کتابیں اپنے بھائی سعید احمد پالن پوری سے اور تفسیر جلالین محمد رضا اجمیری سے پڑھی۔[8]
1392ھ بہ مطابق 1972ء میں انھوں نے دوبارہ دار العلوم دیوبند آ کر محمد طیب قاسمی سے صحیح بخاری جلد اول (ابتدا تا کتاب الایمان)، فخر الحسن مرادآبادی سے صحیح بخاری جلد اول (کتاب الایمان تا کتاب العلم) اور جامع ترمذی، شریف حسن دیوبندی سے صحیح بخاری جلد اول (کتاب العلم تا ختم کتاب)، محمود حسن گنگوہی سے صحیح بخاری جلد ثانی، عبد الاحد دیوبندی سے صحیح مسلم، معراج الحق دیوبندی سے جامع ترمذی اور شمائل ترمذی، محمد حسین بہاری سے سنن ابو داؤد، محمد نعیم دیوبندی سے سنن نسائی، نصیر احمد خان بلند شہری سے شرح معانی الآثار، انظر شاہ کشمیری سے سنن ابن ماجہ، نظام الدین اعظمی سے موطأ امام مالک اور محمد سالم قاسمی سے موطأ امام محمد پڑھی۔[9]
دورۂ حدیث کے بعد 1393ھ بہ مطابق 1973ء میں انھوں نے دار العلوم ہی سے تکمیل ادب کیا اور اس کے بعد والے سال 1394ھ بہ مطابق 1974ء میں تکمیل افتا کیا۔ ان کے تکمیلِ ادب کے اساتذہ میں وحید الزماں کیرانوی اور عبد الخالق مدراسی اور تکمیل افتا کے اساتذہ میں محمود حسن گنگوہی، نظام الدین اعظمی، علی احمد سعید دیوبندی، کفیل الرحمن نشاط عثمانی دیوبندی شامل تھے؛ ان کے علاوہ فتویٰ نویسی کی مشق و تمرین میں انھوں نے محمود حسن گنگوہی اور اپنے بڑے بھائی سعید احمد پالن پوری سے خوب استفادہ کیا۔[10]
ان کے دار العلوم دیوبند کے ساتھیوں میں اسماعیل بھروچی (بھڑکودروی)، عبد الحمید پالن پوری، تکمیل ادب و تکمیل افتا کے ساتھیوں میں عمر فاروق سندی پی، فیاض احمد اعظمی، عبد السلام قاسمی ناظم شعبۂ کمپیوٹر دار العلوم دیوبند، حبیب الرحمن الہ آبادی اور قاسم امروہوی شامل تھے۔[11]
بیعت و اصلاحی تعلق
[ترمیم]پالن پوری نے زمانۂ تعلیم مظاہر علوم ہی میں محمد زکریا کاندھلوی کے دستِ حق پر بیعت کر لی تھی، پھر اپنے شیخ کے مدینہ منورہ ہجرت کر جانے کے بعد انھوں نے محمود حسن گنگوہی سے انھیں کے حکم پر بغیر بیعت کے اصلاحی تعلق کیا اور انھیں سے استفادہ کرتے رہے۔[12]
ذاتی زندگی
[ترمیم]پالن پوری کا نکاح تکمیل افتا کے سال ہی جمادی الاولی 1395ھ میں اپنے چچا عبد الرحیم پالن پوری کی بیٹی سے ہوا، جن سے ہونے والی بقید حیات اولاد میں دو بیٹیوں کے علاوہ تین بیٹے مصطفی امین پالن پوری، مجتبیٰ امین پالن پوری اور مرتضیٰ امین پالن پوری ہیں۔[13]
تدریسی و عملی زندگی
[ترمیم]پالن پوری نے محمد بن طاہر پٹنی کے قائم کردہ ادارہ مدرسہ کنز مرغوب، پٹن، شمالی گجرات سے اپنی تدریسی زندگی کا آغاز کیا، جہاں دو سال رہ کر مشکاۃ المصابیح اور نور الانوار جیسی کتابوں کا درس دیا، پھر دار العلوم تارا پور، ضلع کھیڑا، گجرات میں دو سال مدرس رہے، جہاں پر دورۂ حدیث شریف اور عربی ہفتم کی کتابیں ان سے متعلق رہیں، پھر دار العلوم آنند، کھیڑا میں انھوں نے چند ماہ صحیح مسلم اور مشکاۃ المصابیح جیسی کتابوں کی تدریس کے فرائض انجام دیے، پھر کچھ عرصہ مدرسہ امداد العلوم، وڈالی، شمالی گجرات میں مدرس رہے، جہاں سنن ابو داؤد اور ہدایہ اولین جیسی کتابیں ان کے زیر تدریس رہیں۔[14] ان کا طرز تدریس اپنے برادر اکبر سعید احمد پالن پوری کی طرح محقَّق و مرتَّب اور طلبہ میں بہت مقبول ہے۔[15]
دار العلوم دیوبند میں
[ترمیم]1402ھ بہ مطابق 1982ء میں ان کا تقرر دار العلوم دیوبند میں ہوا،[16][17] اس وقت سے اب تک قدوری، شرح وقایہ، نور الانوار، جلالین، مشکاۃ المصابیح اور دورۂ حدیث کی مختلف کتابیں مختلف اوقات میں ان سے متعلق رہیں[14][18] اور فی الحال ہدایہ جلد رابع اور صحیح بخاری جلد ثانی (باب فضائل القرآن تا ختم کتاب) کے اسباق ان سے متعلق ہیں۔[18]
قلمی خدمات
[ترمیم]فتاویٰ دار العلوم دیوبند کی تکمیل اور ترتیب ثانی
[ترمیم]ظفیر الدین مفتاحی کے بعد مفتی دار العلوم دیوبند عزیز الرحمن عثمانی کے مجموعۂ فتاویٰ ”فتاوی دار العلوم“ جلد 13 سے جلد 18 تک کی چھ جلدوں کو پالن پوری ہی نے ترتیب دے کر مکمل کیا، پھر مجلس شوریٰ دار العلوم دیوبند نے فتاویٰ دار العلوم دیوبند کی سابقہ جلدوں کی ترتیب نو کی ذمہ داری بھی انھیں ہی کے سپرد کی۔[19] 1427ھ (بہ مطابق 2006ء) سے وہ شعبۂ ترتیب فتاویٰ دار العلوم دیوبند کے ناظم بھی ہیں۔[19][16]
بعض کتابوں کی تصحیح و تعلیق یا تصحیح و نظر ثانی
[ترمیم]پالن پوری نے فتاویٰ دار العلوم دیوبند کی جدید جلدوں کی ترتیب یا قدیم جلدوں کی ترتیب ثانی کے علاوہ اپنے بھائی سعید احمد پالن پوری کے ساتھ مل کر مشترکہ طور پر محمود حسن دیوبندی کی ادلۂ کاملہ کی تسہیل اور ایضاح الادلۃ کی تصحیح و تعلیق کا کام کیا۔[20] اسی طرح اپنے بھائی سعید احمد پالن پوری ہی کے ساتھ مل کر عبد الرحیم لاجپوری کے مجموعۂ فتاویٰ فتاویٰ رحیمیہ کی ترتیب نو کا کام کیا۔[21]
عبد الخالق سنبھلی کے ساتھ مل کر مشترکہ طور پر انھوں نے فتاویٰ دار العلوم دیوبند کی چوتھی، چھٹی اور آٹھویں جلدوں کے ضمیمے لکھے۔[22] اسی طرح انھوں نے اپنے بیٹے مصطفیٰ امین پالن پوری کے ساتھ مل کر محمد تقی عثمانی کے مجموعۂ مواعظ اصلاحی خطبات کی تصحیح و ترقیم[23] اور نواب ذوالقدر جنگ کی خلافت اندلس کی تصحیح کا کام کیا۔[24]
انھوں نے خود محمد یونس بن محمد عمر پالن پوری کی کتاب بکھرے موتی کی پہلی، دوسری، تیسری، چوتھی اور ساتویں جلدوں کی اصلاح و نظر ثانی کی، اسی طرح انھیں کی کتاب منتخب ابواب کی تصحیح اور نظر ثانی کا کام کیا۔[25]
ان کے علاوہ بھی انھوں نے کئی کتابوں کی تصحیح اور نظر ثانی کا کام کیا ہے، جن کی تفصیل مصطفی امین پالن پوری کی کتاب آب حیات میں درج ہے۔
تصانیف
[ترمیم]پالن پوری کی تصانیف میں درج ذیل کتابیں شامل ہیں:[26][27]
- اصلاح معاشرہ
- آدابِ اذان و اقامت
- الخیر الکثیر شرح الفوز الکبیر
- تہذیب الاصول یعنی آسان اصول تفسیر
- محاضرات علمیہ بر موضوع رضاخانیت (تعارف و تعاقب) – طلبۂ دار العلوم دیوبند کے سامنے رد رضاخانیت پر پیش کیے گئے ان کے محاضرات کا مجموعہ۔
- تین نادر سبق
- تین نادر تحفے
- حیاتِ سعید (اپنے بھائی سعید احمد پالن پوری کی سوانح عمری)
- حیاتِ امین (مختصر خود نوشت سوانح مع تذکرہ اسانید)
- قدرت کے نظارے
- دنیا کب فنا ہوگی؟
ان کی کتابوں کے انگریزی ترجمے
[ترمیم]افضل حسین الیاس نے پالن پوری کی کتاب آداب اذان و اقامت کا انگریزی ترجمہ ”ETIQUETTES OF AZAAN & IQAMAT: Virtues laws and proofs“ کے نام سے کیا ہے،[28] اس کے علاوہ انھوں نے الخیر الکثیر کا بھی ”Khairul Katheer“ کے نام سے انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔[29]
حوالہ جات
[ترمیم]مآخذ
[ترمیم]- ↑ پالن پوری 2017, pp. 22–23.
- ↑ پالن پوری 2017, p. 23.
- ↑ پالن پوری 2017, p. 23–24.
- ↑ پالن پوری 2017, p. 24.
- ↑ پالن پوری 2017, p. 25.
- ^ ا ب پالن پوری 2017, p. 26.
- ^ ا ب پالن پوری 2017, pp. 26–27.
- ↑ پالن پوری 2017, pp. 28–29.
- ↑ پالن پوری 2017, pp. 29–30.
- ↑ پالن پوری 2017, pp. 30–31.
- ↑ پالن پوری 2017, pp. 31–34.
- ↑ پالن پوری 2017, pp. 52–53.
- ↑ پالن پوری 2017, pp. 34–35.
- ^ ا ب پالن پوری 2017, pp. 55–56.
- ↑ سبحانی مظاہری، محمد کوثر علی (دسمبر 2021)۔ الجوہر المفید فی تحقیق الاسانید یعنی تذکرۂ محدثین اور ان کی سندیں (پہلا اشاعت)۔ فاربس گنج، ارریا، بہار: جامعۃ الفلاح دار العلوم الاسلامیہ
- ^ ا ب خلیلی قاسمی، محمد اللہ (اکتوبر 2020)۔ دار العلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ (تیسرا اشاعت)۔ دیوبند: شیخ الہند اکیڈمی۔ ص 688، 791
- ↑ مبارکپوری، محمد عارف جمیل (1442ھ م 2021ء)۔ "٧٧٥-البالنبوري"۔ موسوعة علماء ديوبند (عربی میں) (پہلا اشاعت)۔ دیوبند: شیخ الہند اکیڈمی۔ ص 338
{{حوالہ کتاب}}
: تحقق من التاريخ في:|date=
(معاونت) - ^ ا ب مظفر نگری، محمد تسلیم عارفی؛ سہارنپوری، عبد اللہ شیر خان (2023)۔ أساتذة دار العلوم و أسانيدهم في الحديث (پہلا اشاعت)۔ دیوبند: مکتبۃ الحرمین۔ ص 64
- ^ ا ب پالن پوری 2017, pp. 57، 121–124.
- ↑ پالن پوری 2017, pp. 99، 115.
- ↑ پالن پوری 2017, p. 99.
- ↑ پالن پوری 2017, p. 119.
- ↑ پالن پوری 2017, p. 160.
- ↑ پالن پوری 2017, p. 174.
- ↑ پالن پوری 2017, pp. 166، 177.
- ↑ پالن پوری 2017, pp. 60–96.
- ↑ برنی، خلیل الرحمن قاسمی۔ "حضرت مولانا مفتی محمد امین پالن پوری مد ظلہ العالی"۔ قافلۂ علم و کمال (1438ھ اشاعت)۔ بنگلور: ادارۂ علمی مرکز۔ ص 416–417
- ↑ "ETIQUETTES OF AZAAN & IQAMAT (آدابِ اذان و اقامت کا انگریزی ترجمہ)"۔ مورخہ 2023-05-15 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2023-05-15
- ↑ "الخیر الکثیر کا انگریزی ترجمہ"۔ اخذ شدہ بتاریخ 2023-05-15
کتابیات
[ترمیم]- پالن پوری، مصطفیٰ امین (مارچ 2017)۔ آب حیات (پہلا اشاعت)۔ دیوبند: دار العرفان