محمد یعقوب نانوتوی
اس میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
محمد یعقوب نانوتوی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 2 جولائی 1833ء نانوتہ |
وفات | 21 دسمبر 1884ء (51 سال) نانوتہ |
رہائش | نانوتہ دہلی اجمیر |
شہریت | برطانوی ہند |
والد | مملوک علی نانوتوی |
مناصب | |
مہتمم دارالعلوم دیوبند | |
برسر عہدہ 1867 – 21 دسمبر 1884 |
|
عملی زندگی | |
استاذ | مملوک علی نانوتوی ، احمد علی سہارن پوری |
تلمیذ خاص | سید ممتاز علی |
پیشہ | عالم ، محدث ، فقیہ ، مفسر ، شاعر |
درستی - ترمیم |
مولانا محمد یعقوب دار العلوم کے اس عظیم منصب پر سب سے پہلے حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی فائز ہوئے انھوں نے اپنے والد ماجد حضرت مولانا مملوک علی اور حصرت شاہ عبد الغنی مجددی دہلویؒ سے تحصیل علوم کی تھی۔ حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی 13صفر 1394مطابق 1834ء کو نانوتہ میں پیدا ہوئے۔ منظور احمد غلام حسین اور شمس الضحی ان کے تاریخی نام ہیں قران مجید نانوتہ میں حفظ کیا محرم 1206ھ مطابق 1844ء میں جب ان کی عمر گیا رہ سال کی تھی ان کے والد ماجد ان کو دہلی لے گئے میزان منشعب اور گلستاں سے ان کی تعلیم شروع ہوئی تمام علوم متداولہ اپنے والد سے حاصل کیے البتہ علم حدیث کی تحصیل حضرت شاہ عبد الغنی مجددی سے کی علوم منقول و معقول میں اپنے والد ماجد کے مثل تھے۔ ذی الحجہ 1267ھ مطابق 1851ء میں حضرت مولانا مملوک علی کا انتقال ہو گیا اس کے ایک سال بعد تک قیام رہا بعد ازں اجمیر کے کو ر منٹ کا لج میں ان کا تقرر ہو گیا مکتوبات یعقوبی میں لکھا ہے :
اجمیر میں 30روپے پر ملازم ہو کر تشریف لے گئے اس وقت آپ بہت کم سن تھے پر نسپل اجمیر کا لج نے دیکھ کر کہا مو لوی تو اچھا ہے مگر نو عمر اور کم سن ہے پر نسپل کی سفارش پر اپ کو ڈپٹی کلکٹری کا عہدہ دیا گیا مگر اپ نے قبول نہیں کیا اس کے بعد اپ کو سو روپیے ماہوارا پر بنارس بھیجا گیا وہاں سے ڈیڑ ھ سو روپیکی تنخواہ پر ڈپٹی انسپکٹر بنا کر سہارنپور میں تقرر ہوا ہیہیں غدر کا واقعہ پیش آیا اس زمانے میں نانوتہ میں قیام رہا سرکاری ملازم سے استعفا دے کر سبکدوش ہو گئے اور میرٹھ میں منشی ممتاز علی کے مطبع میں ملازم ہو گئے سوانح قاسمی میں خود لکھتے ہیں منشی ممتاز علی صاحب نے میرٹھ میں چھاپہ خا نہ قائم کیا مولوی محمد قاسم صاحب کو پرانی دوستی کے سبب بلا لیا وہی تصحیح کی خدمت تھی یہ کام برائے نام تھا مقصود ان کا مولوی صاحب کو اپنے رکھنا تھا احقر اس زمانے میں بریلی اور لکھنوء ہو کر میرٹھ میں اسی چھاپہ خا نے میں نو کر ہو گیا 1283ہ مطابق 1866ء میں دیو بند تشریف لائے اور یہاں تدریس کی منصب پر فائز ہوئے دار العلوم کے پہلے شیخ الحدیث تھے ان کے فیص و تعلیم و تر بیت نے بہت سے ممتاز علما پیدا کیے جو آسمان و علم و فضل کے آفتاب و ما ہتا ب بن کر چمکے 19سال مدرسہ میں 77طلبہ نے آپ سے علوم نبو یہ کی تحصیل کی جن میں مولا نا عبد الحق پور قاضوی 249 مولانا عبد اللہ 249مولانا فتح محمد تھانوی 249 شیخ الہند مولانا محمود حسن دیو بندی 249مولانا خلیل احمد 249 مولانا احمد حسن امروہوئی 249 مولانا فخر الحسن گنگوہی 249 مولانا حکیم منصور خاں مراد آبادی 249 مفتی عزیز الرحمان دیو بندی 249 مولانا حافظ محمد احمد اور مولانا حبیب الرحمان عثمانی رحمہما اللہ جیسے مشاہیر اور یگانۂ علما شامل ہیں حضرت مولانا یعقوب اور ان کے تلامذہ کے فیض و تعلیم کو دیکھتے ہوئے اگر یہ کہا جائے تو مبا لغہ نہ ہو گا کہ اس وقت ہند و پاک 249 بنگلہ دیش 249افغا نستان اور وسط ایشیا میں جس قدر علما موجود ہیں ان کی بڑی تعداد اسی خوان علم کی زلہ رہا ہے ان کیک حلقہ ء درس کی نسبت اشرف السوا نح میں لکھا ہے کہ : حضرت مولانا یعقوب جو علاوہ ہر فن میں ماہر ہو نے کے بہت بڑے صاحب باطن اور شیخ کامل بھی تھے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے مولانا ممدوح سے بڑے بڑے فیوض و برکاتحاصلکیے اور زیادہ تر علوم عجبیہ و غریبہ انھیں سے حاصل کیے اور مولانا کے اکثر اقوال او احوال و حقائق و معارف نہایت لطف لے کر بیان فرما یا کرتے ہیں اور آنکھوں سے زار و قطار آنسوجاری ہیں حضرت مولانا محمد یعقوب نے حضرت حاجی امدا داللہ مہاجر مکی سے سلوک و معرفت کے مقامات طے کیے تھے اکثر جزکیف کی حالت طاری رہتی تھی دنوی علائق کے جانب مطلق توجہ نہ تھی انھوں نے جو خطوط اپنے ایک مرید منشی محمد قاسم نیانگری کے نام لکھے ہے وہ سلوک و معرفت کا مرقع اور حقائق تصوف کا دستور العمل ہیں مسالک کے لیے وہ ایک جامع ہداہت نامہ ہیں باوجود کہ مزاج میں جلال اور جزب کا غلبہ تھا اور اس رعب اور اثر کا یہ عالم تھا کہ لوگ بات کرتے ہو ئے گھبراتے تھے مگر آپ ہر شخص سے نہایت اخلاق و تواضع کے ساتھ پیش آتے تھے اپنے بزرگوں کی طرح مزاج میں بڑا استغنا تھا جس کا انداز اس واقعہ سے کیا جا سکتا ہے کہ ایک صاحب نے جن کو مولانا کے مزاج میں برا دخل تھا عرص کیا فلاں نواب صاحب کی بڑی خواہش ہے کہ ایک مرتبہ آپ ان کے یہاں تشریف لے جائیں مولانا نے فرما دیا ہم نے سنا ہے کہ جو مولوی نواب صاحب کے یہاں جاتا ہے نواب صاحب اس کو سو رو پہ دیتے ہیں اس لیے وہ شاید دو سو رو پئے دے دیں سو دو سو ہمارے کتنے دن کے لیے ہیں ہم وہاں جا کر مولویت کے نام پر دھبہ نہ لگائیں گے مکتوبات یعقوبی کے دیباچہ نگار حکیم امیر احمد لکھتے ہیں اپ کے صدہا شاگرد بلاد ہندوستان کا بل و بخارا وغیرہ میں موجود ہیں آپ جامع علوم معقول و منقول ہیں فا صل اجل اور عالم ہونے کے علاوہ سالک و مجذوب بھی تھے اور جسیے کہ آپ روحانی طبیب تھے اسی طرح امراض ظاہری کا بھی علاج کرتے تھے اپ نہایت خوش وضع 249خوش خلق 249 خوش خو 249 خوش لہجہ 249و خوش گفتگو تھے بڑ ے صاحب کمال و مکاشفات تھے آپ سے بہت پشین گوئیاں صادر ہوئیں جن میں بعض کا صدور ہو چکا ہے جو باقی ہے ان کا انتظار ہے آپ نے دو حج کیے پہلا حج 1277ہ مطابق 1860ء میں حضرت مولانا قاسم قدس سرہ کی معیت میں کیا گیا حضرت مولانا مظفر حسین کاندھلوی اور حضرت حاجی عابد دیوبندی بھی ساتھ تھے یہ سفر پنجاب اور سندھ کے راستے سے کیا گیا بیاض یعقوبی میں خود انھوں نے اس سفر کی مفصل یا داشت لکھی ہے دوسرے حج کے لیے 1294دہ میں تشریف لے گئے اس مرتبہ بھی علما کی ایک جماعت کی معیت میں رہی حضرت مولانا نانوتوی حضرت مولانا گنگوہی حضرت مولانا مظہر نانوتوی اور حضرت مولانا منیر نانوتوی حضرت مولانا حکیم ضیاء الدین اور حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی وغیرہ حضرات کے علاوہ اس مقدس قافلے میں تقریباً سو آدمی تھے مولوی جمال الدین بھوپالی 249حضرت مولانا مملو ک علی کے شاگرد تھے انھوں نے اس تعلق کے بنا پر حضرت مولانا یعقوب کو ایک بڑے مشاہرہ پر بھو پال طلب فرما یا مگر آپ نے دار العلوم کی قلیل تنخواہ کے باوجود دار العلوم سے ترک تعلق کو پسند نہ فرمایا اپنے بھانجے مولانا خلیل اختر کو بھوپال بھیج دیا ۔ مولانا یعقوب شعرو شاعری سے ذوق رکھتے تھے گمنام تخلص تھا انھوں نے دہلی میں بزمانے طالب علمی غالب مومن 249 ذوق 249 اور آزردہ جیسے یگانہ روز گار شعرا کو دیکھا تھا اور ان کی مجالس سخن کی ہنگاموں سے ان کے کان آشنا تھے اپنے ایک خط میں مسترشد منشی محمد قاسم نیانگری کو مشورہ دیا ہے کہ وہ دررسودا اور ذوق کے کلام کوبڑھا کریں اس میں درد واثر ہے مولانا کا فارسی اور اردو کلام بیاض یعقوبی میں درج ہے اشعار میں قدر کلام کے ساتھ سوز و گداز اور درد و اثر پایا جاتا ہے تصانیف میں تین رسالے ان کی یاد گار رہیں سوانح قاسمی اگر چہ بہت مختصر حیات ہے مگر زبان اور بیان اور حالات اور واقعات کے لحاظ سے بہت قابل قدر۔ ان کا دوسرا مجموعہ مکتوبات یعقوبی ہے جو 64خطوط پر مشتمل ہے خطوط استفسارات کے جوابات میں لکھے گئے ہیں ان میں راہ سلوک کی دشواریوں کا حل مسا ئل شرعیہ کا ذکر اور طریقت و سلوک کا دستور العمل بیان کیا گیا ہے ۔
تیسرا مجموعہ بیاض یعقوبی ہے یہ سفر حج کے حالات 249 کتب و احادیث کی اسانید منظو مات اور عملیات و غیر ہ پر مشتمل ہے آخر میں طبی نسخے درج ہیں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے دونوں مجموعوں پر حسب ضرورت حواشی تحریر فرمائے ہیں وفات سے چند دن پہلے وطن ما لوف نانوتہ تشریف لے گئے تھے و ہیں بمرض طاعون 3ربیع الاول 1302ہ مطابق 1885ء کو داعئ اجل کو لیبک کہا ۔