مندرجات کا رخ کریں

ابو یوسف

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ابو یوسف
(عربی میں: أبو يوسف ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 731ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کوفہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 13 ستمبر 798ء (66–67 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بغداد   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سلطنت امویہ
دولت عباسیہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ ابو حنیفہ ،  شعبہ بن حجاج   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص محمد بن حسن شیبانی [2]،  احمد بن حنبل [3]،  احمد بن ابی طیبہ دارمی ،  حسن بن زیاد   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ قاضی ،  مجتہد ،  فلسفی   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی [4]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل فقہ   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت کوفہ ،  بغداد   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابو یوسف (پیدائش: 113ھ/ 731ء – وفات: 5 ربیع الاول 182ھ/ 26 اپریل 798ء) امام ابوحنیفہ کے شاگرد اور حنفی مذہب کے ایک امام، یعقوب نام، ابویوسف کنیت، آپ امام ابوحنیفہ کے بعد خلیفہ ہادی، مہدی اور ہارون الرشید کے عہد میں قضا کے محکمے پر فائز رہے اور تاریخ اسلام میں پہلے شخص ہیں جن کو قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) کے خطاب سے نوازا گیا‘ لیکن بادشاہ کی ہاں میں ہاں ملاکر نہیں رہے، بلکہ ہرمعاملہ میں شریعت کا اتباع کرتے، یہاں تک کہ بادشاہ کا مزاج درست کر دیا۔ آپ کی مشہور تصنیف کتاب الخراج فقہ حنفی کی مستند کتابوں میں شمار ہوتی ہے۔

نسب

[ترمیم]

ابو یوسف یعقوب بن ابراہم بن حبیب بن سعد بن بحیر بن معاویہ بن قحافہ بن نفیل بن سدوس بن عبد عناف بن اسامہ بن سحمہ بن سعد بن عبد اللہ بن قدار بن معاویہ بن ثعلبہ بن معاویہ بن زید بن العوذ بن بجیلہ انصاری البجلی۔[5] سعد وہی صحابی ہیں جو غزوہ احد میں رافع بن خدیج اور ابن عمر کے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے پیش کیے گئے مکر کم عمر ہونے کی وجہ سے جنگ میں شرکت کی اجازت نہیں ملی۔ بعد میں خندق و دیگر غزوات میں شرکت کا موقع ملا، عمر بن خطاب کے دور میں کوفہ مین وفات پائی۔ ابن عبد البر نے استیعاب میں نقل کیا ہے کہ

غزوہ خندق کے روز نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سعدکو دیکھا کہ کم عمر ہونے کے باوجود بڑی بہادری سے لڑ رہا ہے ت وپوچھا نوجوان تمھارا نام کیا ہے؟ جواب دیا سعد بن حبتہ' نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اللہ تمھارے دادا کو نیک بخت بنائے ذرا میرے قریب آؤ، آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قریب ہوئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کے سر پر اپنا دست شفقت پھیرا۔[6]

سنہ ولادت

[ترمیم]

امام ابویوسف رحمہ اللہ کوفہ میں سنہ 113ھ یا سنہ93ھ میں پیدا ہوئے (عام ارباب تذکرہ ان کا سنہ ولادت سنہ 113ھ لکھتے ہیں؛ لیکن ابو القاسم علی بن محمدالسمعانی المتوفی سنہ 499ھ اور صاحب مسالک الابصار نے لکھا ہے کہ ان کی وفات 89/برس کی عمر میں ہوئی اور وفات کے بارے میں سب متفق ہیں کہ سنہ 182ھ میں ہوئی، اس اعتبار سے ان کا سنہ ولادت سنہ93ھ قرار پانا چاہیے، علامہ زاہد الکوثری نے امام ابویوسف رحمہ اللہ کے سوانح اور امام ذھبی رحمہ اللہ کے رسائل کے حاشیہ میں یہ ثابت کیا ہے کہ سنہ93ھ زیادہ قرین قیاس ہے؛ انھوں نے لکھا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ 93/ میں 9/کا سر امٹ کر 13/رہ گیا، ظاہر ہے کہ سنہ 113ھ رہ گیا، ظاہر ہے کہ سنہ113ھ میں توان کی ولادت قرار پانہیں سکتی تھی، اس لیے ارباب رجال نے قیاساً سنہ113ھ سمجھ لیا، عاجز (یعنی جناب حافظ مولانا مجیب اللہ صاحب ندوی) کے خیال میں اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ امام ابویوسف رحمہ اللہ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو شیخین کہا جاتا ہے، ظاہر ہے کہ اس تغلیب میں عمر کا کوئی تناسب تو ہونا چاہیے؛ اگر ان کی عمر سنہ 113ھ قرار دی جائے توامام صاحب اور ان کی عمر میں 33/برس کا تفاوت ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ اتنے تفاوت کے ساتھ دونوں کو شیخین کہنا مناسب نہیں معلوم ہوتا)۔

تعلیم کا آغاز اور معاشی تنگی

[ترمیم]

ابتدائے عمر ہی سے ان کو لکھنے پڑھنے کا شوق تھا؛ مگر ان کے والد اپنی غربت کی وجہ سے چاہتے تھے کہ حصولِ معاش میں ان کا ہاتھ بٹائیں، اس وجہ سے ان کوبہت دنوں تک باقاعدہ تحصیلِ علم کا موقع نہ مل سکا (آگے کے واقعات سے معلوم ہوگا کہ باقاعدہ طلب علم سے پہلے ہی ان کی شادی بھی ہو چکی تھی اور وہ صاحب اولاد بھی ہو گئے تھے، ان کے بال بچوں کی معاشی ذمہ داری کی وجہ سے ان کے والد اور زیادہ ان کو حصولِ معاش پر مجبور کرتے تھے)؛ مگر ان کے ذوقِ علم نے ان کو اتنا اُکسایا کہ اسی تنگی و ترشی میں اپنے والد کے چپکے علمائے کوفہ کی خدمت میں حاضر ہونے لگے، کوفہ میں اس وقت فقہ وحدیث کی بہت سی مجلسیں برپا تھیں، جن میں محمد بن ابی لیلی اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہما کی مجالس درس کو خاص امتیاز حاصل تھا؛ چنانچہ امام ابویوسف رحمہ اللہ خصوصیت سے پہلے ابنِ ابی لیلیٰ کی مجلسِ درس میں حاضر ہوئے اور تقریباً 8 , 9/برس تک اُن سے کسب فیض کرتے رہے، اس کے بعد امام صاحب رحمہ اللہ کی مجلس درس میں شریک ہونے لگے اور ان کو یہ مجلس ایسی بھائی کہ پھر امام صاحب کی زندگی میں اس سے علاحدہ نہیں ہوئے۔ ان کے والد کو طلب علم کی طرف ان کی حددرجہ توجہ اور انہماک اور کسب معاش سے بے پروائی بہت گراں گذرتی تھی؛ چنانچہ ایک دن یہ امام صاحب کی مجلس میں شریک تھے کہ ان کے والد پہنچے اور زبردستی اُن کو اُٹھا کر گھر لے گئے اور سمجھایا کہ ابوحنیفہ کھاتے پیتے آدمی ہیں، تم اُن کی ریس کیوں کرتے ہو۔

[7] ایک دوسری روایت یہ ہے کہ ان کے والد کا انتقال بچپن ہی میں ہو گیا تھا، ان کی والدہ کے لیے کوئی ذریعہ معاش نہیں تھا، جب یہ ذرہ ہوشیار ہوئے تو اُن کی والدہ نے ایک کھانے کی دکان پر اُن کو نوکر رکھوا دیا؛ لیکن یہ گھر سے روانہ ہوتے تو بجائے ملازمت پر جانے کے امام صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتے اور تعلیم میں مشغول رہتے، شام کو گھر واپس آکر والدہ سے اس کا تذکرہ نہ کرتے، ایک مہینہ کے بعد ان والدہ نے کہا کہ دکان دار نے تم کونہ کچھ سکھایا اور نہ کام کا کچھ معاوضہ ہی دیا، یہ خاموش رہے، اس پران کی والدہ نے اُن کا ہاتھ پکڑا اور دکان دار کے پاس پہنچیں اور اس سے کہا کہ تم نے اس بچہ کونہ کچھ سکھایا، نہ اُس کی محنت اور کارگذاری کا کچھ معاوضہ ہی دیا، اس نے کہا کہ یہ توایک مہینہ سے میرے یہاں آئے ہیں نہیں، جب راز فاش ہوا تو والدہ ان پر بہت خفا ہوئیں اور ان کو درس سے روک دیا؛ چنانچہ وہ امام صاحب کی مجلس میں کئی روز نہیں گئے؛ انھوں نے اُن کو بلایا اور کچھ رقم دی اور کہا تعلیم جاری رکھو۔ [8]

والد کی تعمیلِ حکم میں کئی روز وہ امام صاحب کی مجلس میں نہیں گئے تو امام صاحب رحمہ اللہ نے دریافت کیا: امام ابویوسف کوجب اس کی اطلاع ملی تو وہ امام صاحب رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، امام صاحبؒ نے آتے ہی پوچھا کہ اتنے دن سے درس میں کیوں نہیں آئے؟ بولے: الشغل بالمعاش وطاعة والدي ترجمہ: کسبِ معاش کی مشغولیت اور والد کی اطاعت مانع رہی۔ یہ کہہ کرمجلس درس میں بیٹھ گئے، تھوڑی دیر کے بعد اُٹھنا چاہا توامام صاحب نے روکا، جب مجلس برخاست ہو گئی توامام صاحب نے چپکے سے اُن کوایک تھلی دی اور فرمایا کہ اس سے اپنی ضروریات پوری کرو، ختم ہوجائے تو پھر کہنا؛ گھر پہنچ کر تھیلی کھولی تو سو درہم تھے، اُس کے بعد وہ برابر درس میں شریک ہونے لگے، جب چند دن گذرجاتے تودوبارہ امام صاحب اُن کوکچھ رقم عنایت کردیتے۔ امام ابویوسف رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ لحاظ کی وجہ سے میں کبھی اپنی ضرورت اور ان کی دی ہوئی رقم کے ختم ہونے کا تذکرہ نہیں کرتا تھا؛ مگر وہ خود ہی اس کو محسوس کر لیا کرتے تھے؛ چنانچہ انھوں نے اس وقت تک مدد جاری رکھی جب تک میں بے نیاز نہیں ہو گیا۔ (ان کے والد کے بارے میں جو روایتیں مذکور ہیں، اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس وقت تک زندہ رہے جب تک کہ امام ابویوسف صاحب عیال نہیں ہو گئے؛ مگراس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان کویتیم چھوڑ کردنیا سے رخصت ہو گئے تھے؛ مگراس واقعہ میں بہت سی ایسی باتیں مذکور ہیں جن کی حیثیت قصہ کہانی سے زیادہ نہیں ہے، امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس روایت کو حکی کے لفظ سے بیان کرکے کمزور کر دیا۔ [9] ایک دوسری روایت میں ہے کہ امام صاحب رحمہ اللہ سے اُن کے والد نے کہا کہ میرا لڑکا یعقوب آپ کی مجلسِ درس میں شریک ہوتا ہے اور رات دن حصولِ علم میں مشغول رہتا ہے، میرے کئی بچے ہیں اور پھریہ بھی اللہ کے فضل سے میری طرح صاحب اہل و عیال ہیں، ان سے کہیے کہ یہ دن کوآپ کے درس میں شریک ہوں اور اس کے بعد جووقت بچے اس میں اپنے اہل و عیال کی کفالت کاس امان کریں، ان دونوں روایتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے، ممکن ہے کہ ان کے والد کی گفتگو کے بعد ہی امام صاحب نے ان کی مدد شروع کردی ہو؛ تاکہ حصولِ معاش میں ان کو دقت اُٹھانی نہ پڑے اور ان کا وقت برباد نہ ہو۔

امام صاحب رحمہ اللہ کی خدمت میں آمد کی وجہ

[ترمیم]

امام ابویوسف رحمہ اللہ کی ابتدائی تعلیم و تربیت کے بارے میں کوئی تفصیل کتابوں میں نہیں ملتی، اوپر کی روایات سے اتنا توضرور پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے جوکچھ حاصل کیا، اس میں ان کے ذاتی ذوق وشوق کے ساتھ امام صاحب رحمہ اللہ کی مالی امداد اور تکفل کوبھی دخل رہا ہے؛ ورنہ ان کے والدین کی حالت اس قابل نہیں تھی کہ وہ تعلیم کے لیے وقت نکال سکتے۔ اوپریہ ذکربھی آچکا ہے کہ امام ابویوسف سب سے پہلے محمدبن ابی لیلی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اُن سے کسب فیض شروع کیا؛ مگر کئی برس کے بعد پھر وہ امام صاحب کی خدمت میں آنے جانے اور اُن کے درس میں شریک ہونے لگے، امام ابویوسف نے ابن ابی لیلی کی مجلسِ درس کو چھوڑ کر کیوں امام صاحب کی صحبت اختیار کی، اس بارہ میں ارباب تذکرہ بہت سی باتیں لکھتے ہیں؛ مگر ان میں بعض باتیں بالکل بے بنیاد معلوم ہوتی ہیں، اس لیے ہم اُن کی قدرے تفصیل کرتے ہیں۔ ان کے پہلے استاذ محمد بن ابی لیلی ممتاز تابعی عبد الرحمن بن ابی لیلی کے صاحبزادے اور خود ممتاز تبع تابعین میں تھے، اموی اور عباسی دونوں دوروں میں برسوں قاضی رہ چکے تھے، اس لیے ان کا علم اور تجربہ دونوں وسیع تھا، امام ابویوسف نے ان سے علمی اور عملی دونوں طرح سے فیض اُٹھایا تھا؛ اس زمانہ میں کوئی طالب علم وہ بھی فقہ کا امام اعظم کی مجلس درس سے بے نیاز نہیں رہ سکتا تھا؛ چنانچہ امام ابویوسف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابن ابی لیلی باوجود اپنے ذاتی فضل وکمال اور علمی منزلت کے جب کوئی مشکل مسئلہ آتا توسب سے پہلے امام صاحب کی رائے معلوم کرنے کی کوشش کرتے تھے، اس سے مجھ کوخیال پیدا ہوا کہ امام صاحب کے درس میں بھی ضرور شریک ہونا چاہیے؛ مگر استاذ کا احترام ولحاظ اس میں مانع تھا، اس وجہ سے میری ہمت وہاں جانے کی نہیں پڑتی تھی؛ لیکن بعد میں کچھ ایسے واقعات پیش آئے کہ محمد بن ابی لیلیٰ کی مجلس سے منقطع ہوکر وہ ہمیشہ کے لیے امام صاحب کی مجلس سے وابستہ ہو گئے۔ اہلِ تذکرہ نے اس سلسلہ میں متعدد ایسے واقعات لکھے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ابویوسف رحمہ اللہ اور ان کے شیخ میں بعض مسائل میں اختلاف پیدا ہوا، جس کے نتیجہ میں انھوں نے ان کی مجلسِ درس چھوڑ دی اور امام اعظم رحمہ اللہ کی مجلسِ درس میں آکر زانوئے تلمذ تہ کرنے لگے؛ لیک نعاجز کے نزدیک متعدد وجوہ کی بناپریہ بات کلیۃً صحیح نہیں معلوم ہوتی: (1)ایک یہ کہ اگر امام ابویوسف کو اپنے استاد سے ایک یامتعدد مسائل میں اختلاف ہو گیا تھا تویہ کوئی ایسی اہم بات نہیں تھی، جس کی وجہ سے وہ ان کی مجلسِ درس چھوڑ دیتے، کیا بعد میں خود امام ابویوسف نے امام صاحب سے متعدد امور ومسائل میں اختلاف نہیں کیا تھا، اس لیے نفس اختلاف مسائل کوترکِ درس کا سبب قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ (2)یہ کہ اگر قاضی محمد بن ابی لیلیٰ سے اختلاف مسائل کی وجہ سے ان کوتنفر پیدا ہو گیا ہوتا اور اسی بناپران کی مجلس درس چھوڑ بیٹھے ہوتے توامام اعظم کی درسگاہ سے فارغ ہونے کے بعد جب وہ خود مسنددرس وقضا پربیٹھے تواپنے تلامذہ کے سامنے امام صاحب اور ابن ابی لیلیٰ کے اختلافی مسائل کومساویانہ طور پربیان نہ کرتے؛ بلکہ ہرمسئلہ پرابن ابی لیلی پرنکیر کرتے؛ لیکن انھوں نے کبھی ایسا نہیں کیا۔ ایسے تمام مخلف فیہ مسائل کو امام محمد نے ایک کتاب میں اختلاف ابی حنیفہ و ابن ابی لیلیٰ میں جمع کر دیا ہے، جو حیدرآباد میں چھپ گئی ہے، اس کے دیکھنے سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ ان کے دل میں اپنے دونوں اساتذہ کا احترام آخروقت تک باقی تھا ۔ (3)تیسری یہ کہ امام سرخسی رحمہ اللہ نے مبسوط کے آخر میں جہاں امام صاحب اور قاضی ابن ابی لیلی کے اختلافی مسائل کا ذکر کیا ہے، وہاں امام ابویوسف اور ابن ابی لیلی کے اسباب اختلاف کا بھی ذکر کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ امام ابویوسف رحمہ اللہ نے 9/برس ابن ابی لیلی کی خدمت میں تعلیم حاصل کی؛ پھراتنی ہی مدت امام صاحب کی خدمت میں رہے [10] اس کے بعد قیل (کہا گیا ہے) کے لفظ سے مذکورہ بالا سبب کا ذکر کیا ہے، جوبعض لوگوں کے نزدیک استادوشاگرد کے درمیان کشیدگی کا باعث ہوا؛ مگرقیل کے لفظ سے اس واقعہ کا ذکر کرنا بجائے خود اس کے ضعف کوظاہر کرتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ علومِ دینیہ کے جمع وتدوین کا ابتدائی زمانہ تھا، جوسیکڑوں اور ہزاروں اہلِ علم کے سینوں اور سفینوں میں منتشر تھے، اس لیے اس وقت کا یہ دستور تھا کہ طلبہ زیادہ سے زیادہ اہلِ علم واصحاب درس کے پاس جاکر استفادہ کرتے تھے؛ تاکہ ان منتشراجزا کووہ اپنے اپنے سینہ وسفینہ میں جمع کرسکیں؛ چنانچہ اس دور کا کوئی ایسا ممتاز اہلِ علم نہیں ملے گا جس کے سینکڑوں کی تعداد میں شیوخ نہ رہے ہوں، اس لیے امام ابویوسف رحمہ اللہ جیسے طباع اور ذہین طالب علم صرف ایک استاد پرکیسے قناعت کرسکتے تھے؛ انھوں نے بھی دستورِ زمانہ کے مطابق مختلف شیوخ واساتذہ کی خدمت میں جاکر زانوے ادب تہ کیا ہوگا اور ازدیاد علم کا یہی شوق ان کوابن لیلی کی مجلس درس سے اُٹھاکرامام صاحب رحمہ اللہ کی مجلس درس میں لایا ہوگا۔ اس لیے ایک شیخ کے یہاں سے دوسرے شیخ کے پاس جانے کی وجہ خواہ مخواہ ناراضی ہی قرار دینا صحیح نہیں ہے، یہ صحیح ہے کہ امام صاحب اور ابن ابی لیلی میں بعض فقہی مسائل میں اختلاف تھا، اس لیے ابتداً خود امام ابویوسف کوامام صاحب کی مجلس درس میں جانے میں تامل تھا کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ ان کواس سے تکلیف ہو؛ مگرقاضی ابن ابی لیلیٰ سے کہیں یہ ثابت نہیں ہے کہ خود انھوں نے اس سے اپنے شاگرد کوروکا ہو؛ پھرامام صاحب اور ابن ابی لیلیٰ کا اختلاف نفسانیت پرمبنی نہیں تھا کہ وہ ایک دوسرے سے استفادہ میں مانع ہوتے؛ چنانچہ ابن ابی لیلیٰ کے بارے میں خود امام ابویوسف رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ مشکل مسائل میں علانیہ امام صاحب کی رائے دریافت کرتے تھے۔ [11]

تحصیلِ علم کی مدت

[ترمیم]

امام ابویوسف رحمہ اللہ کی تحصیلِ علم یااستفادہ کی کل مدت کتنی ہے، تذکرہ نویسوں کی روایتیں اس کے بارے میں مختلف ہیں، یوسف بن ابی سعد نے خود امام ابویوسف سے روایت کی ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی خدمت میں میری آمدورفت مسلسل 29/برس رہی [12] دوسری روایت ہے کہ سترہ برس ان کی صحبت میں رہا [13] تیسری روایت ہے کہ امام سرخسی کی ہے جواوپر نقل ہوئی ہے کہ 9/برس ابن ابی لیلی کی خدمت میں اور 9/برس امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی مجلس درس میں رہے۔ [14] بظاہر ان میں دوروایتیں قابلِ تسلیم نہیں معلوم ہوتیں؛ اگرپہلی روایت تسلیم کی جائے توان کی تعلیم کا زمانہ کم سے کم 38/برس قرار پائے گا، 9/برس ابنِ ابی لیلی کی خدمت میں اور 29/برس امام صاحب کی صحبت میں، دوسری روایت پراعتبار کیا جائے تومدتِ تعلیم 26/برس ہوتی ہے، اس میں اگر دوسرے شیوخ سے استفادہ کی مدت بھی شامل کرلی جائے تومعلوم نہیں یہ مدت کہاں سے کہاں پہنچ جائے، اس ل یے یہ کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتا کہ انھوں نے اتنی طویل مدت صرف حصولِ تعلیم پرصرف کی ہوگی، امام سرخسی رحمہ اللہ نے جومدتِ تعلیم بتائی ہے، یعنی 18/برس وہ بھی امام ابویوسف جیسے قوی الحافظہ، ذہین، طباع اور غیر معمولی فہیم طالب علم کے لیے گوبہت ہے؛ تاہم اس کی صحت پریقین کیا جا سکتا ہے؛ پھریہ روایتیں اس وقت اور زیادہ کمزور ہوجاتی ہیں، جب کہ ان کا سنہ ولادت یہی تذکرہ نگار سنہ113ھ قرار دیتے ہیں، اس لیے کہ امام ابوحنیفہ کی وفات سنہ 150ھ میں ہوئی، اس لحاظ سے امام ابویوسف رحمہ اللہ کی عمراُن کی وفات کے وقت صرف 37/برس کی تھی، جو پہلی روایت کے مطابق ان کی مدت تعلیم سے بھی کم ہے۔ اِن روایتوں میں اس طرح تطبیق دی جا سکتی ہے کہ پہلی روایت میں امام ابویوسف نے وہ عمر بتائی ہوجس میں وہ امام صاحب کی خدمت میں گئے، اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ جب وہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں توان کی عمر کافی تھی اور صاحب اہلِ وعیال بھی تھے، جیسا کہ ان کے والد کے واقعہ کے سلسلہ میں ذکرآچکا ہے، دوسری روایت میں انھوں نے پوری مدت تعلیم بتائی ہو اور تیسری روایت میں صرف امام صاحب کے ساتھ اپنی رفاقت کا زمانہ بتایا ہو، جن کورواۃ نے باہم خلط ملط کر دیا ہو، ان روایتوں سے بہرِحال اتنی بات توضرور ثابت ہوتی ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی کا سب سے قیمتی اور طویل زمانہ ابی لیلی اور امام صاحب رحمہ اللہ کی خدمت وصحبت میں گزارا۔

علمِ دین سے شغف

[ترمیم]

اوپر ذکر آچکا ہے کہ امام ابویوسف رحمہ اللہ نہایت ہی غریب اور عسیرالحال باپ کے فرزند تھے، اس لیے بچپن ہی میں حصولِ معاش کا سوال ان کے لیے پیدا ہو گیا تھا؛ مگران کوطبعا علم دین سے اتنا شغف اور ذوق تھا کہ معاش کی تنگی اور عسرت کی زندگی ان کی تحصیل علم کی راہ میں مانع نہ ہو سکی اور اگرکبھی مانع ہوئی اور وہ مجبوراً کسب معاش کی طرف مائل ہوئے بھی توان کے مشفق استاد نے ضرورت پوری کرکے مانع کودور کر دیا، اُن کے ذوق وشغف کا اندازہ اس سے کرنا چاہیے کہ یوسف بن سعید کا بیان ہے کہ امام ابویوسف نے ایک مدت تک امام صاحب کی خدمت میں آمدورفت کا سلسلہ جاری رکھا؛ مگراس طویل مدت میں ایک دن بھی ایسا نہیں گذرا، جس میں وہ فجر کی نماز میں اُن کے ساتھ شریک نہ رہے ہوں۔

امام ابویوسف کا خود بیان ہے کہ میں برسوں امام صاحب رحمہ اللہ کی رفاقت میں رہا؛ مگربجز بیماری کے عیدالفطر وعیدالضحیٰ کے دن بھی ان سے جدا نہیں ہوا (حسن التقاضی) غورکیجئے!کہ ان دودنوں کی خوشی ومسرت میں ہرشخص اپنے گھروالوں کے ساتھ ہوتا ہے؛ لیکن انھوں نے مجلس علم کی شرکت اور امام صاحب کی معیت ورفاقت کو عیدین کی خوشی ومسرت پر ترجیح دی، مناقب موفق میں ہے کہ امام ابویوسف کے کسی بچہ کا انتقال ہو گیا؛ مگروہ اس کے جنازہ اور تدفین میں اس لیے شریک نہ ہو سکے کہ مبادا امام صاحب کے درس واملا کا کوئی حصہ چھوٹ نہ جائے، خود فرماتے ہیں: مات ابن لي، فلم أحضر جهازه ولادفنه وتركته على جيراني وأقربائي، مخافة أن يفوتني من أبي حنيفة شئ لاتذهب حسرته عنى۔ [15]

میرے ایک بچہ کا انتقال ہو گیا؛ لیکن میں اس کی تجہیز وتدفین میں شریک نہیں ہوا اور اس کو اپنے پڑوسیوں اور عزیزوں کی ذمہ داری پرچھوڑ دیا کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ امام ابوحنیفہ کے درس کا کوئی حصہ چھوٹ جائے اور مجھے اس کی حسرت رہ جائے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان کوعلمِ دین سے کتنا ذوق اور شغف تھا اور امام صاحب رحمہ اللہ کی مجلس درس کی ان کی نگاہ میں کیا قدروقیمت تھی، اس واقعہ سے اس عہد کی اسلامی معاشرت پربھی کچھ روشنی پڑتی ہے، اس زمانہ میں ہمدردی، مواسات اور اخوت اس درجہ عام تھا کہ امام ابویوسف نے اپنے لختِ جگر کے جنازہ اور تدفین میں اس لیے شرکت ضروری نہیں سمجھی کہ وہ گرنہ بھی شریک ہوں گے توان کے اعزہ، اقربا اور پڑوسی اس کام کواپنا ذاتی کام سمجھ کرپوا کر دیں گے، مناقب کردی میں یہ بھی ہے کہ امام ابویوسف اپنے والد کے جنازہ میں بھی امام صاحب کی مجلس درس کے چھوٹ جانے کے خیال سے شریک نہیں ہو سکے تھے، ممکن ہے کہ دونوں واقعے ایک ہی ہوں اور راویوں نے دوکردیا ہو اوپر ذکرآچکا ہے کہ تنگی وعسرت کی وجہ سے ان کے والد ایک بار ان کودرس سے اُٹھالیے گئے تھے، احمد بن مکی کے بیان کے مطابق درس سے اُٹھالے جانے کا واقعہ ایک ہی بار پیش نہیں آیا؛ بلکہ بسااوقات ایک ہی دن میں کئی کئی بار بیش آتا تھا، پوا واقع یہ ہے کہ عبد الحمید الحمانی کہتے ہیں کہ امام ابویوسفؒ کے والد امام ابوحنیفہؒ کی مجلس درس میں آتے اور اُن کا ہاتھ پکڑ کر اُٹھے جاتے؛ لیکن تھوڑی دیر کے بعد وہ اپنے والد کی نظر بچاکر پھرآجاتے اُن کے والد پھرآتے اور انھیں واپس لے جاتے؛ یہاں تک کہ ایک دن ان کے والد بہت غصہ میں مجلس درس میں آئے اور اپنے صاحبزادہ کوبہت سخت وسست کہا اور اہلِ مجلس سے مخاطب ہوکر کہا: یعصینی ہذا الولد انتم تعینونہ۔ [16] ترجمہ: میرا لڑکا بار بار میری عدول حکمی کرتا ہے۔

امام صاحب نے ان سے فرمایا کہ آپ کیا چاہتے ہیں، بولے یہ بازار جاکر کچھ کمائیں اور اہل و عیال کی پرورش میں میرا ہاتھ بٹائیں، امام صاحب نے فرمایا انشاء اللہ اس کارِ خیر میں ہم ان کی مدد کریں گے؛ لیکن انھوں نے اس کوکچھ پسند نہیں کیا، بالآخر امام صاحب نے ذرا تلخ لہجہ میں فرمایا کہ اگرآپ ان کو تعلیم سے روکنا چاہتے ہیں تو اس میں آپ کی قطعی مدد نہیں کی جا سکتی، ہاں کفاف کے سلسلہ میں ہم ان کی مدد کے لیے تیارہیں، آپ براہِ کرم واپس جائیں [17] اور اس مقدس کام سے نہ روکیے۔ بعض روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ علم دین سے ان کو شغف وانہماک تھا، اس کی شکایت محض ان کے والدین ہی کونہیں تھی؛ بلکہ ان کی اہلیہ کوبھی تھی، فرماتی تھیں کہ وہ دن بھر تو امام صاحب کی خدمت میں رہتے تھے اور رات کوگھر آتے تھے اور کبھی کبھی رات کوبھی وہیں رہ جاتے تھے اور کئی کئی دن گھر نہیں آتے تھے، ایک دن یہ امام ابویوسف کی شکایت لے کرامام صاحب کی خدمت میں پہنچیں اور عرض کی کہ یہ آپ کے شاگرد ہمارے نان ونفقہ کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے، صرف پڑھنے پڑھانے ہی میں لگے رہتے ہیں، امام صاحب رحمہ اللہ نے اُن کوسمجھایا اور صبر کی تلقین کی اور فرمایا کہ یہ عسرت اور تنگ دستی کے دن انشاء اللہ جلد ختم ہوجائیں گے اور تم لوگ ان سے جوتوقع رکھتے ہو اس سے زیادہ تم کوملے گا۔ [18] اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حصول علم دین کی راہ میں ان کے لیے کتنے موانع تھے، جن کوکچھ توان کے طبعی ذوق وشوق نے دور کر لیا اور کچھ امام صاحب کی نظرِالتفات اور مالی مدد نے، واقعہ یہ ہے کہ اگرامام صاحب کی نظرِ التفات نہ ہوتی تووہ بہت دنوں تک ان موانع کی تاب نہ لاسکتے اور علم دین سے محروم رہ جاتے۔

دوسرے شیوخ حدیث سے استفادہ

[ترمیم]

قاضی ابن ابی لیلی کے تلمذ اور امام صاحب جیسے فقیہ ومجتہد کی خدمت ورفاقت میں رہنے کے بعد کسی دوسرے صاحب کمال کے سامنے ان کوزانوے تلمذ تہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی، جیسا کہ وہ خود فرماتے ہیں: ماکان فی الدنیا مجلس احب الی من مجلس ابی حنیفۃ وابن ابی لیلیٰ فانی مارایت فقیہا افقہ من ابی حنیفہ ولاقاضیا خیرا من ابن ابی لیلی۔ [19] ترجمہ:مجھے دنیا میں کوئی مجلس درس امام ابوحنیفہ اور ابن ابی لیلی کی مجلس درس سے زیادہ محبوب نہیں ہے، اس لیے کہ نہ تومیں نے امام ابوحنیفہ جیسا بہتر فقیہ دیکھا اور نہ ابن ابی لیلی جیسا قاضی۔ لیکن ہراستاذ فن کی کچھ نہ کچھ خصوصیت ہوتی ہے، اس لیے متقدمین میں عام دستور تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ اساتذۂ فن کی خدمت میں حاضر ہوکر اُن سے کسب فیض کرتے تھے؛ چنانچہ امام ابویوسف بھی بے شمار شیوخ حدیث وفقہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کے چشمہ علم سے اپنی تشنگی بجھائی، امام ابویوسف نے جن شیوخ اور اساتذہ فقہ وحدیث سے استفادہ وروایت کی ہے ان کی تعداد سوسے متجاوز ہے، ہم ان میں سے ان چند مشاہیر کا نام یہاں درج کرتے ہیں، جن کی روایتیں کتب الخراج میں موجود ہیں: ابان بن عباس، ابواسحاق الشیبانی، اسرائیل بن ابی اسحاق، اسماعیل بن ابراہیم المہاجر، اسماعیل بن ابی خالد، اسماعیل بن علیہ، اسماعیل بن مسلم، ایوب بن عتبہ، ابوبکر بن عبد اللہ الہذلی، ثابت ابوحمزۃ الشمالی، (ترمذی کے رواۃ میں ہیں) ابن جریج، حجاج بن ارطاۃ، جریز بن عثمان، حسن بن دینار، حسن بن علی بن عمارہ، حصین بن عمروبن میمون، حنظلہ بن ابی سفیان، روح ابن مسافر، سعید بن عروبہ، سعید بن مرزبان، سعید بن مسلم، سفیان بن عیینہ، سلیمان التیمی، سلیمان بن مہران الاعمش، سماک بن حرب، طلحہ بن یحییٰ، طارق بن عبد الرحمن، عاصم الاحول، عبد اللہ بن سعید المقبری، عبد اللہ بن علی، عبیداللہ بن عمر، عبد اللہ بن محرر، عبد اللہ بن واقد، عبد اللہ بن ابولید المدنی، عمربن دینار، عمروبن میمون بن مہران، غیلان بن فیس الہمدانی، الفضل بن مرزوق، قیس بن الربیع، قیس بن مسلم، لیث بن سعد، امام مالک بن انس، مالک بن مغول، محمد بن اسحاق صاحب المغازی، محمد بن ابی حمید، محمد بن السائب الکلبی، محمد بن سالم، محمد بن طلحہ، محمدبن عبد اللہ، محمد بن عمروبن علقمہ، مسعر بن کدام، مسلم الخزاعی، مطرف ابن طریف، ابومعشر، مغیر بن مقسم، نافع مولی بن عمر، نصر بن طریف، ابن ابی نجیح، ہشام بن عروہ، ہشام بن سعید رحمہم اللہ۔ اس فہرست میں بعض ممتاز تابعین کا نام بھی نظر آئے گا، اس میں ان شیوخ حدیث وفقہ کے نام بھی ہیں، جن کوحدیث وفقہ میں امامت کا مقام حاصل تھا، علامہ زاہد الکوثری نے ان کے 104/شیوخ کا تذکرہ کیا ہے، علاوہ بریں ان کی کتاب الخراج میں متعدد جگہ پرغیرواحد من علما اہل المدینۃ وغیرہ کے الفاظ ملتے ہیں، جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ مدینہ میں ان کے شیوخ بکثرت تھے؛ حالانکہ اس فہرست میں صرف چند نام آئے ہیں۔

امام مالک رحمہ اللہ سے ملاقات

[ترمیم]

امام ابویوسف رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ ہم عصر تھے اور دونوں درجہ اجتہاد پرفائز تھے، اس لیے ان دونوں میں بعض اجتہادی مسائل میں اختلاف تھا جن کے بارے میں بالمشافہ گفتگو بھی ہوئی اور امام ابویوسف رحمہ اللہ نے باوجود معاصرت کے بعض مسائل میں امام مالک رحمہ اللہ کی رائے کوترجیح دی، یہ اختلاف بعض ان فروعی مسائل میں تھا، جن کا تعلق تمدن، معاشرت اور معاملات سے تھا، مثلاً اس وقت تمام اسلامی ملکوں میں غلہ وغیرہ کے وزن کرنے کے لیے صاع، مد اور رطل وغیرہ رائج تھے؛ مگران کاوزن ہرملک میں مختلف تھا اور ہرجگہ کے علما اپنے یہاں کے پیمانوں کوصحیح سمجھتے تھے اور انھی سے عشرہ صدقہ فطر وغیرہ میں کام لینے کی ہدایت کرتے تھے، امام ابویوسف رحمہ اللہ کوفہ کے رہنے واے تھے، اس لیے وہ کوفی پیمانہ کوصحیح سمجھتے تھے؛ مگرجب وہ امام مالک سے ملے توانہوں نے ان کومدنی صاع دکھایا اور فرمایا کہ یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صاع ہے، اس کے بعد سے امام ابویوسف رحمہ اللہ نے اپنی رائے سے رجوع کر لیا (اس روایت کے بارے میں ماہذ الکوثری نے لکھا ہے کہ رجوع کا ذکر صحیح نہیں ہے اور پھرانہوں نے اس روایت کوناقابل اعتبار ثابت کرنے کی کوشش کی ہے؛ مگریہ ان کی شدت پسندی ہے جس کا وہ ہرمسئلہ میں اظہار کرتے ہیں، اس سے امام ابویوسف کی عظمت میں کوئی فرق نہیں آتا)۔

موطائے امام مالک کی تدوین کے وقت حدیث وآثار کا کوئی دوسرا جامع مجموعہ نہیں تھا، اس لیے اس عہد میں اس کی روایت وسماع سب سے زیادہ قابل فخرچیز سمجھی جاتی تھی، جن کویہ فخرنصیب نہیں ہوتا تھا، ان کا بڑا نقص تصور کیا جاتا تھا، امام ابویوسف رحمہ اللہ نے موطا کا سماع براہِ راست امام مالک سے نہیں کیا تھا؛ بلکہ ان کے مشہور اور جلیل القدر شاگرد اسد بن فرات صقلبی سے کیا تھا؛ اسی بناپر امام محمد ان کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ امام ابویوسف نے علم حدیث کی صرف مہک پائی ہے [20] یعنی انھوں نے توامام مالک کی خدمت میں رہ کرمؤطا کا سماع کیا تھا اور امام ابویوسف کویہ شرف حاصل نہیں تھا (امام ابویوسف کا علم حدیث وآثار میں اتنا وسیع تھا کہ ان کوبراہِ راست سماع کی ضرورت ہی نہیں تھی؛ بلکہ اس کا مطالعہ ان کے لیے کافی تھا اور امام محمد کا مطالعہ چونکہ حدیث وآثار میں امام مالک کی خدمت میں وسیع ہوا تھا، اس لیے انھوں نے اس کی ضرورت محسوس کی ہوگی؛ اسی بناپر انھوں نے امام ابویوسف کے بارے میں یہ رائے دی؛ مگر امام ابویوسف نے جوعلمی یادگاریں چھوڑی ہیں، ان کے دیکھنے کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ ان کوعلم حدیث میں درک نہیں تھا)۔

محمد بن اسحاق صاحب المغازی اور امام ابویوسف

[ترمیم]

جس زمانہ میں امام ابویوسف امام صاحب کے حلقہ درس میں بیٹھ کر اکتساب فیض کر رہے تھے؛ اسی زمانہ میں محمد بن اسحاق کوفہ آئے، جو سیر و مغازی کے امام سمجھے جاتے تھے، ان کی علمی شہرت اور کشش امام ابویوسف کو ان کے حلقہ درس میں کھینچ لائی، ان کے ساتھ ان کے کئی رفقا بھی تھے؛ جنھوں نے کتاب المغازی کے سماع کی خواہش ظاہر کی اور وہ تیار ہو گئے، امام ابویوسف کا بیان ہے کہ میں کئی مہینہ تک سماع میں مشغول رہا اور امام صاحب کے حلقہ درس اور خدمت میں نہ جاسکا، جب پوری کتاب ختم ہو گئی توامام صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا، امام صاحب نے غیر حاضری کی وجہ دریافت کی توکہا کہ میں محمد بن اسحاق سے اُن کی کتاب المغازی کا سماع کررہا تھا، اس لیے حاضر نہ ہو سکا، یہ سن کر امام صاحب نے محمد بن اسحاق کے علم وروایت پراپنے عدم اطمینان کا اظہار کیا؛ مگرامام ابویوسف نے کمال ادب کے ساتھ اپنے شفیق ومہربان استاد کے سامنے صاحب مغازی کے علم و فضل کا اعتراف کیا [21] اس روایت کوابنِ خلکان نے بھی نقل کیا ہے؛ مگراس میں یہ اضافہ ہے کہ امام ابویوسف نے امام صاحب کے جواب میں بے دھڑک کہا کہ آپ بھی توعلم کے مدعی ہیں؛ لیکن یہ نہیں جانتے کہ غزوۂ بدر پہلے ہوا ہے یاغزوۂ اُحد، ظاہر ہے کہ یہ روایت کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتی، جس کی مجلس درس امام ابویوسف کے نزدیک سب سے زیادہ پرکشش اور محبوب ہو اور جہاں انھوں نے اپنی زندگی کا سب سے قیمتی اور طویل حصہ گزارا ہو، اس کے سامنے امام ابویوسف یہ جسارت نہیں کرسکتے تھے؛ پھرامام محمد کی کتاب السیر الصغیر جس کوامام صاحب نے املا کرایا تھا، اس کے دیکھنے کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ امام صاحب خدانخواستہ مغازی وسیر سے ناواقف تھے؛ پھرامام ابوحنیفہ نے سیر و مغازی کی تکمیل امام شعبی سے کی تھی، جو اپنے زمانہ میں سیر و مغازی کے امام سمجھے جاتے تھے، جن کی وسعت علم اور تبحر میں کسی کوکلام نہیں ہے، یہ ضرور ہے جس طرح امام صاحب نے قرآن وحدیث وفقہ کواپنا خاص فن بنالیا تھا؛ اسی طرح ان کواس فن کی طرف خاص توجہ کرنے کا موقع نہ مل سکا؛ ورنہ کون کہہ سکتا ہے کہ وہ اس سے عاری تھے، اِس روایت کا راوی معافی البحریری ہے جس کوائمہ رجال نے ضعیف اور ناقابل اعتبار ٹھہرایا ہے۔ [22]

حلقۂ درس

[ترمیم]

اتنے ائمہ روزگار وشیوخ زمانہ سے استفادہ وحصولِ تعلیم کے بعد ان کواپنا علاحدہ حلقہ درس قائم کرنے کا خیال پیدا ہوا اور قائم بھی کر لیا؛ مگراس کی اطلاع امام صاحب کونہیں دی، امام صاحب کو معلوم ہوا تو اپنے کسی شاگرد کے ذریعہ چند مسائل دریافت کرائے، جن کے جواب سے وہ مطمئن نہیں ہوا اور اسی وقت اس کی تردید کی، اب امام ابویوسف رحمہ اللہ کو احساس ہوا کہ انھوں نے قبل ازوقت حلقہ درس قائم کر دیا؛ چنانچہ وہ امام صاحب کی خدمت میں آئے اور اپنی اس تقصیر کا اعتراف کیا، امام صاحب نے فرمایا: تزبیت قیل اَنْ تحصرم۔ [23] ترجمہ:تم انگور ہونے سے پہلے ہی منقی بن گئے (یعنی پختہ کار ہونے سے پہلے ہی درس وتدریس کا کام شروع کر دیا)۔ اس سلسلہ کی ایک روایت یہ ہے کہ ایک بار وہ بیمار پڑے، امام صاحب ان کی عیادت کے لیے گئے، مزاج پرسی کے بعد امام صاحب نے فرمایا کہ مجھ کوتم سے بڑی توقعات ہیں اور تم مسلمانوں کے لیے بہت مفید ہو سکتے ہو (مناقب کردی) جب امام ابویوسف اچھے ہوئے توان کواپنا الگ حلقہ درس قائم کرنے کا خیال پیدا ہوا، جو عمل میں بھی آگیا؛ مگراس کے بعد بھی، امام صاحب رحمہ اللہ کی مجلس درس میں آمدورفت قائم رہی، ایک بار آئے توکوئی دقیق مسئلہ امام صاحب رحمہ اللہ سے دریافت کیا، جس کو سن کر امام صاحب کوبڑا تعجب ہوا، فرمایا: سبحان اللہ ایک شخص جواپنا الگ حلقہ قائم کرتا ہے، خدا کے دین پرگفتگو کرتا ہے، تلامذہ کی ایک بڑی تعداد کوخطاب کرتا اور درس دیتا ہے، وہ اجارہ کا ایک مسئلہ اچھی طرح نہیں جانتا؛ پھرآپ نے بطورِ نصیحت فرمایا: مَنْ ظَنَّ أَنَّهُ يَسْتَغْنِي عَنْ التَّعَلُّمِ لِیَتَبَكِّ عَلَى نَفْسِهِ۔ (مناقب کردی) ترجمہ:جوگمان کرتا ہے کہ وہ حصولِ تعلیم سے مستغنی ہو گیا ہے اس کواپنے اوپر رونا چاہیے۔ غالباً یہ واقعہ اس وقت کا ہوگا، جب ابھی امام ابویوسف رحمہ اللہ کا علم پختہ نہیں ہوا تھا اور ان میں مجتہدانہ شان نہیں پیدا ہوئی تھی، ایسا بہت ہوتا ہے کہ لوگ جلد ہی اپنے کواستفادہ وتحصیل سے مستغنی سمجھنے لگتے ہیں اور درس وافادہ شروع کردیتے ہیں، خود امام اعظم رحمہ اللہ نے اپنی فطری ذہانت وجودت طبع کی بناپر اپنے استاد حماد بن سلیمان سے اپنے کوبے نیاز سمجھ لیا تھا؛ مگرفوراً ہی ان کواس پرتنبہ ہو گیا اور پھرآخر عمر تک ان کا دامنِ فیض نہیں چھوڑا امام صاحب رحمہ اللہ کوامام ابویوسف رحمہ اللہ سے خاص تعلق تھا اور جس بڑے کام کے لیے وہ ان کوتیار کر رہے تھے، اس کے لائق ابھی نہیں ہوئے تھے، اس لیے اپنے ذاتی تجربہ کی بناپر وہ چاہتے تھے کہ افادہ واستفادہ کا سلسلہ باہم ابھی کچھ دنوں اور قائم رہے؛ تاکہ وہ پورے طور پراس کام کی ذمہ داریوں کے سنبھالنے کے قابل ہوجائیں، ان میں یہی احساس پیدا کرنے کے لیے ان کے سامنے امام اعظم رحمہ اللہ نے ایسے مسائل پیش کیے، جن میں ان کواپنے قصورِ علم اور نارسائی ذہن کا احساس ہو اور نہ امام صاحب توخود اُن کی برابر ہمت افزائی فرماتے اور اُن میں اعتماد پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے، ایک بار امام زفر اور ان میں کسی مسئلہ میں مباحثہ ہو گیا، جب کئی گھنٹے گذر گئے اور بحث جاری رہی توامام صاحب نے امام زفر سے فرمایا کہ علمی ریاست اور سیادت ابویوسف کا حصہ ہے تم اُس کولینے کی کوشش نہ کرو۔

اس کی مجلس درس کا کوئی ذکر تذکروں میں نہیں ملتا؛ لیکن ان کے تلامذہ اور مستفیدین کی کثرت تعداد سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے چاہے کوئی باقاعدہ مجلسِ درس نہ قائم کی ہو؛ لیکن تشنگانِ علم ان کے چشمہ علم سے سیراب ضرور ہوتے رہتے تھے اور یہ سلسلہ تقریباً سولہ برس یعنی سنہ150ھ سے سنہ166ھ تک جاری رہا، سنہ166ھ میں وہ عہدۂ قضا پر مامور کر دیے گئے اور تقریباً 17/برس تک یہ خدمت انھوں نے انجام دی؛ گوقضاء کے زمانہ میں بھی درس وافادہ کا سلسلہ جاری تھا اور مستفیدین برابر فائدہ اُٹھاتے رہے؛ مگرظاہر ہے کہ اس عہدہ کی مشغولیتوں کی وجہ سے در سکی طرف پہلی جیسی یکسوئی توباقی نہیں رہ سکتی تھی؛ چنانچہ ارباب تذکرہ دیکھتے ہیں کہ دن میں توان کوبالکل فرصت نہیں ملتی تھی؛ البتہ رات میں اس کے لیے وقت نکال لیتے تھے اور درس دیتے تھے، ہارون سے کچھ لوگوں نے شکایت کی توپہلے تواس نے ان کے علم وتقویٰ کی تعریف کی، اس کے بعد کہا کہ: یقد للناس ولیس معہ کتاب ولاشیئ درسہ باللیل مع شغلہ فی اعمالنا۔ [24] ترجمہ:عہدۂ قضاء کی مشغولیت کی وجہ سے رات کو لوگوں کودرس دینے کے لیے بیٹھتے ہیں اور ان کے علم کے استحضار کا حال یہ ہے کہ ان کے ہاتھ میں نہ کوئی کتاب ہوتی ہے اور نہ کوئی چیز لکھی ہوئی ہوتی ہے۔

امام صاحب کے درس کی خصوصیات امام ابویوسف کے درس میں

[ترمیم]

امام صاحب رحمہ اللہ اپنے معاصرین سے جہاں بہت سی چیزوں میں ممتاز تھے، وہاں ایک امتیاز یہ بھی تھا کہ وہ طلبہ کے ساتھ نہایت خیرخواہی اور حسنِ سلوک کے ساتھ پیش آتے تھے، ان کی تعلیم میں نہ بخل سے کام لیتے تھے، نہ تضیع اوقات کرتے تھے؛ بلکہ کوشش کرتے تھے کہ وہ اپنے فن میں بڑی سے بڑی شان امتیاز حاصل کر لیں؛ یہی وجہ ہے کہ ان کے ایسے صاحب علم و فضل، ذہین وطباع تلامذہ دوسرے ائمہ کونہیں ملے، امام صاحب نے اپنے تلامذہ سے کہہ دیا تھا کہ استاد ومربی ہونے کے باوجود میری کسی بات کو بغیر دلیل اور حجت کے نہ ماننا، استاد کے یہ اوصاف بڑی حد تک شاگردوں میں بھی موجود تھے اور وہ بھی اپنے تلامذہ کے ساتھ نہایت فیاضانہ برتاؤ کرتے تھے، امام محمد بن حسن کے حالات میں مذکور ہے کہ وہ امام شافعی اور امام مالک کے مشہور افریقی شاگرد اسدبن فرات کومجلس درس کے مقررہ اوقات کے علاوہ رات کوگھر پرپڑھاتے تھے اور ان کوکوئی ناگواری نہیں ہوتی تھی، اسد کومالی امداد کی ضرورت ہوتی تھی تواس سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے، امام شافعی کہتے تھے: لیس احدٌ اَمَن عَلیٰ من محمد بن حسن الشیبانی۔ ترجمہ:امام محمدسے زیادہ میرے اوپر کسی نے احسان نہیں کیا۔ امام ابویوسف رحمہ اللہ پربھی استاد کا پرتوپڑا تھا، وہ بھی طلبہ کے ساتھ نہایت لطف ومہربانی سے پیش آتے تھے ان کے سوالات کا نہایت خندہ پیشانی اور کمال حلم وصبر کے ساتھ جواب دیتے تھے اور ان کومطمئن کرنے کی کوشش کرتے تھے، حسن بن زیاد جوامام صاحب کی شاگردی میں رہ چکے تھے، ان کی وفات کے بعد امام ابویوسف اور امام زفر کے پاس استفادہ کے لیے آتے تھے، امام ابویوسف کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: کَانَ ابویوسف اوسع صدرً ابالتعلیم من زفر۔ [25] ترجمہ:ابویوسف تعلیم کے بارے میں زفر سے زیادہ کشادہ دل اور وسیع ظرف کے تھے۔ انہی کا بیان ہے کہ میرے سامنے جب کوئی مشکل مسئلہ آتا توپہلے امام زفر کے پاس جاتا، ان سے دریافت کرتا، وہ جواب دیتے، میری سمجھ میں نہ آتا تودوبارہ پوچھتا؛ یہاں تک کہ جب وہ تکرارِ سوال سے زچ ہوجاتے توفرماتے کہ تمھارے لیے یہ فن نہیں ہے، وقت ضائع کرنے سے کیا فائدہ ہے، تمھارے ذہن ودماغ کا یہی حال ہے، تومجھے اُمید نہیں ہے کہ تم حصولِ علم میں کامیاب ہو گئے، میں وہاں سے بہت غمگین واپس ہوتا اور پھرامام ابویوسف رحمہ اللہ کی خدمت میں جاکر مسئلہ دریافت کرتا، جب ان کا حل بی میری سمجھ میں نہ آتا توفرماتے اچھا گھبراؤ نہیں کیا تم کواس مسئلہ کے مبادی سے بھی واقفیت نہیں ہے، کہتا کہ اس کے بہت سے گوشوں سے واقف توضرور ہوں؛ لیکن جوواقفیت اور جواطمینان چاہتا ہوں وہ حاصل نہیں ہوتا اور دل میں خلش باقی رہتی ہے، فرماتے کہ ہرناقص چیز بتدریج اتمام واکمال کوپہنچتی ہے، صبر سے کام لو، ذہن ودماغ پرزور ڈالو، اُمید ہے کہ تم رفتہ رفتہ اپنے گوہر مقصود کو پالوگے، حسن کہتے ہیں کہ میں ان کے اس صبروحلم پرمتعجب رہتا، شاگردوں سے فرماتے تھے کہ: لواستطعت ان اشاطرکم مافی قلبی لفعلت۔ [26]

میرے قطب ودماغ میں جوکچھ علم (فضل) ہے اگراسے تم لوگوں (تلامذہ) میں تقسیم کرسکتا توتقسیم کردیتا۔ اس سے تلامذہ کے ساتھ ان کی غیر معمولی دلسوزی، ہمدردی اور تعلقِ خاطر کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، جب تک عہدۂ قضاپر مامور نہیں ہوئے تھے، درس وافادہ کا کام یکسوئی سے انجام دیتے رہے؛ مگرجب قضاءت کی ذمہ داری سنبھال لی اور اس کے کاموں میں مشغول ہو گئے توظاہر ہے کہ و ہ یکسوئی اور انہماک باقی نہیں رہ سکتا تھا؛ لیکن پھربھی اس سے جووقت بچتا تھا، وہ افادہ وتعلیم ہی میں صرف ہوتا تھا؛ یہاں تک کہ حالت سفر میں بھی یہ فیض جاری رہتا تھا، ایک بار بصرہ تشریف لے گئے توبڑا ہجوم ہوا، اصحاب حدیث چاہتے تھے کہ پہلے وہ استفادہ کریں اور اصحاب فقہ چاہتے تھے کہ پہلے ان کوخطاب کیا جائے، فرمایا میں دونوں گروہوں سے تعلق رکھتا ہوں، کسی کوکسی پرترجیح نہیں دے سکتا، اس کے بعد انھوں نے ایک سوال کیا، جن لوگوں نے جواب دیا اُن کواندر لے گئے اور دیرتک یہ مجلس درس وافادہ جاری رہی [27] حج کے لیے تشریف لے گئے تووہاں بھی درس وافادہ کا سلسلہ جاری تھا، امام مالک سے اسی سفر میں انھوں نے ملاقات کی اور دونوں میں علمی باتیں ہوئیں؛ غرض یہ کہ انھوں نے کوئی مخصوص مجلس درس توقائم نہیں کی مگرتعلیم وافادہ اور درس وتدریس کا مشغلہ پوری زندگی جاری رہا؛ حتی کہ موت سے چند لمحے پہلے تک یہ چشمۂ فیض جاری تھا، ان کے خاص شاگرد قاضی ابراہیم بن الجراح کا بیان ہے کہ امام ابویوسف رحمہ اللہ جب آخری بار بیمار پڑے تومیں برابر ان کی عیادت کے لیے جایا کرتا، ایک روز گیا تووہ بے ہوش پڑے تھے، ذراہ ہوش ہوا توفرمایا: ابراہیم! پیدل رمی جمار کرنا بہتر ہے یاسوار ہوکر؛ عرض کیا پیدل، فرمایا: غلط ہے، میں نے پھر عرض کیا، سوارہوکر، ارشاد ہوا یہ بھی غلط ہے؛ پھرانہوں نے مسئلہ کی پوری تفصیل بیان کی، ان کی خدمت سے اُٹھ کرابھی دروازہ سے باہر نکلا بھی نہیں تھا کہ اندر سے آواز آئی کہ امام کی وفات ہو گئی۔ ظاہر ہے جس کا چشمہ علم تقریباً 32/برس تک مسلسل جاری رہا ہو، اُس سے پوری مملکتِ اسلامیہ کے نہ معلوم کتنے تشنگانِ علم نے اپنی پیاس رفع کی ہوگی، ان سب کے ناموں کا معلوم اور جمع کرنا بڑا مشکل اور دشوار کام ہے؛ مگرجونام تذکروں میں ملتے ہیں، ان کی تفصیل بھی طوالت سے خالی نہیں، چند ممتاز اور مشہور تلامذہ وطالبانِ علم کے نام درجِ ذیل ہیں: قاضی ابراہیم بن جراح مازنی، ابراہیم بن سلمۃ الطیالسی، ابراہیم بن یوسف بن میمون البلخی، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ میں نے تین الماریوں کے بقدر کتابوں کا علم ان سے حاصل کیا ہے، اسد بن فرات امام مالک رحمہ اللہ کے مشہور شاگرد اسماعیل بن حماد، امام صاحب رحمہ اللہ کے پوتے، اشرف بن سعید نیشاپوری، بشار بن موسیٰ بصری، بشربن یزید نیشاپوری، نویر ن سعد مروزی، جعفر بن یحییٰ برمکی (ہارون کا مشہور وزیر)، حسن بن زیادالحسین بن ابراہیم بغدادی، حسین ابن حفص اصفہانی، ابوالخطاب (امام ابویوسف کے کاتب یعنی پرائیوٹ سکریٹری)، خلف بن ایوب بلخی، داؤد بن رشید خوارزمی، سعید بن الربیع ہروی، شجاع بن مخلد، ابوالعباس طوسی، عبد الرحمن بن مہر، عبد الرحمن بن عبدی، عبدوس بن بشرالرازی، عثمان بن بحرالجاحظ، عرزم ابن فروہ، حافظ علی جعدالجوہری، علی بن حرملہ کوفی، علی بن صالح جرجانی، علی بن المدینی (مشہور حافظِ حدیث)، علی بن مسلم طوسی، عمروبن ابی عمروحرانی، فضیل بن عیاض، امام محمد بن حسن شیبانی، محمد بن ابی رجاء خراسانی، موسیٰ بن سلیمان جوزجانی، وکیع بن الجراج، ہلال بن یحییٰ بصری (صاحب احکام الوقف)، یحییٰ بن آدم (صاحب کتاب الخراج)، یحییٰ بن معین (امام جرح و تعدیل)، یوسف (امام کے صاحبزادے جوکتاب الآثر کے راوی ہیں)۔ اِن ناموں سے آپ کواندازہ ہوگا کہ امام ابویوسف رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کی دوملاقتاوں کا ذکر کیا ہے، ایک مدینہ منورہ میں اور دوسری بغداد میں، بغداد میں امام ابویوسف رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کی ملاقات بالکل افسانہ ہے، اس لیے کہ امام شافعی رحمہ اللہ عراق میں پہلی بار سنہ184ھ میں گئے ہیں، جب کہ دوسال پہلے سنہ182ھ میں امام ابویوسف کا انتقال ہو چکا تھا؛ پھروہ امام فن کی حیثیت سے نہیں لکہ ایک معمولی طالب علم کی حیثیت سے امام محمد کی خدمت میں گئے تھے؛ خود فرماتے ہیں کہ میں نے محمد بن حسن سے ایک اونٹ کے برابر علم حاصل کیا، میری آنکھوں نے ان کے جیسا کس کونہیں پایا، ظاہر ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ جوامام محمد کی شاگردی کے لیے گئے تھے، ان کا امام ابویوسف بفرض محال وہ زندہ بھی ہوتے تومناظرہ کرنا اور پھران کوساکت کردینا کس طرح سمجھ میں آسکتا ہے، جب کہ امام ابویوسف رحمہ اللہ ان کے استاد امام محمد رحمہ اللہ کے بھی استاد تھے، اس روایت کی تردید کرتے ہوئے حافظ ابنِ کثیر اور حافظ ابن حجر نے جوکچھ لکھا ہے، اس کوہم یہاں نقل کرتے ہیں: ومن زعم من الرواة أن الشافعي اجتمع بأبي يوسف كما يقوله عبد الله بن محمد البلوي الكذاب في الرحلة التي ساقها الشافعي فقد أخطأ في ذلك، إنما ورد الشافعي بغداد في أول قدمة قدمها إليها في سنة أربع وثماني۔ [28] ترجمہ: جن راویوں نے یہ گمان کیا ہے کہ امام شافعی اور امام ابویوسف میں ملاقات ہوئی جیسا کہ عبد اللہ بن محمد البلوی کذاب (عبد اللہ بن محمد بلوی کے متعلق حافظ ابن کثیر کی اس رائے کی تائید میں امام ذہبی نے میزان میں دارِقطنی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ یہ حدیث وضع کرتا تھا، ابن حجر نے جولکھا ہے وہ آگے منقول ہے) نے ایک فرضی سفرامام شافعی کی طرف منسوب کیا ہے، اس نے اس میں ایک فاش غلطی کی ہے، بغیر کسی شبہ کے یہ بات مسلم ہے کہ امام شافعی پہلی بار بغداد میں سنہ184ھ میں گئے (اس سے دوبرس پہلے امام ابویوسف کا انتقال ہو چکا تھا)۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ جو خود شافعی المسلک ہیں انھوں نے امام شافعی کی سوانح عمری میں جومستقل کتاب توالی التاسیس کے نام سے لکھی ہے؛ اس میں اس واقعہ کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں: وأماالرحلة المنسوبة إلى الشافعي المروية من طريق عبد الله بن محمد البلوي فقد أخرجها الآبري والبيهقي، وغيرهما، مطولة ومختصرة، وساقها الفخر الرازي في مناقب الشافعي بغير إسناد معتمدا عليها، وهي مكذوبة، وغالب مافيها موضوع، وبعضها ملفق من روايات ملفقة، وأوضح مافيها من الكذب قوله فيها: إن أبايوسف ومحمد بن الحسن حرضا الرشيد على قتل الشافعي، وهذا باطل من وجهين: أحدهما: أن أبايوسف لمادخل الشافعي بغداد كان مات ولم يجتمع به الشافعي، والثاني: أنهما كانا أتقى لله من أن يسعيا في قتل رجل مسلم، لاسيما وقد اشتهر بالعلم وليس له إليهما ذنب إلاالحسد له على ماآتاه الله من العلم، هذا مالايظن بهما، وإن منصبهما وجلالتهما ومااشتهر من دينهما ليصد عن ذلك والذي تحرر لنا بالطرق الصحيحة أن قدوم الشافعي بغداد أول ماقدم كان سنة أربع وثمانين، وكان أبويوسف قد مات قبل ذلك بسنتين۔ [29] ترجمہ:اور عبد اللہ بن محمدالبلوی کے واسطہ سے جوسفر نامہ امام شافعی کی طرف منسوب ہے اس کوآبری اور بیہقی وغیرہ نے مفصل اور مختصر طور پرنقل کیا ہے اور امام رازی نے اپنی کتاب مناقب الشافعی میں بغیر کسی سند کے اس کوصحیح سمجھ کرنقل کر دیا ہے، وہ بالکل افسانہ ہے، سب سے بڑا جھوٹ جو اس میں بولا گیا ہے وہ یہ ہے کہ امام ابویوسف اور امام محمد نے ہارون رشید کوامام شافعی کے قتل پراکسایا، یہ بات دووجوہ کی بناپر بالکل ردکردینے کے قابل ہے، ایک تویہ جس وقت امام شافعی بغداد پہنچے تھے اس وقت امام ابویوسف کا انتقال ہو چکا تھا اور اُن سے ملاقات نہیں ہوئی، دوسری یہ کہ ان دونوں بزرگوں کے دلوں میں جوخدا کا خوف اور تقویٰ تھا اس سے بالکل مستبعد تھا کہ وہ ان کے قتل کی کوشش کرتے اور پھرایک ایسے مسلمان کے قتل کی کوشش کرتے جس کا کوئی گناہ نہیں تھا، ان کے بارے میں اس کا گمان ہی نہیں کیا جا سکتا، ان کا منصب، ان کی جلالت اور ان کی انسانیت دوسی کی جوشہرت ہے یہ تمام چیزیں قطعی اس کی تردید کرتی ہیں اور یہ بات صحیح طریقوں سے ہمارے نزدیک ثابت ہے کہ امام شافعی سنہ184ھ میں پہلی بار بغداد گئے اور امام ابویوسف اس سے دوسال پہلے انتقال کرچکے تھے (ان تصریحات کے باوجود ابتک اہلِ علم اپنی کتابوں میں اسے نقل کرتے ہیں اور بعض جگہ طلبہ کوپڑھاتے ہیں)۔ رجال کے سلسلہ میں حافظ ابنِ حجررحمہ اللہ کی رائے کا جووزن ہے اس سے اہلِ علم واقف ہیں؛ پھران کے ساتھ امام سخاوی جورجال وحدیث کے دوسرے نقاد ہیں وہ اپنی کتاب مقاصد حسنہ میں اس روایت کی تکذیب کرتے ہوئے لکھتے ہیں: وَھِیَ مَوْضُوْعَۃ مکذوبۃ ترجمہ: یہ موضوع اور سراسرجھوٹ ہے۔

امام ابن تیمیہ نے بھی منہاج السنہ میں اس کی تردید کی ہے۔ مدینہ منورہ میں ان کی ملاقات کی جوروایت ہے، اس میں یہ الفاظ ہیں کہ امام مالک کی موجودگی میں امام ابویوسف اور امام شافعی سے صاع، وقف اور اقامت کے بارے میں مباحثہ ہوا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امام ابویوسف نے امام شافعی کے مسلک کی طرف رجوع کر لیا۔ [30] اوپربار بار ذکر آچکا ہے کہ امام شافعی پہلی بار سنہ184ھ میں جب بغداد گئے ہیں، تواس وقت وہ طالب علم تھے اور امام ابویوسف اس سے دوبرس پہلے انتاقل فرماچکے تھے، ظاہر ہے کہ مدینہ منورہ میں ان حضرات کی ملاقات اس سے پہلے ہی ہوئی ہوگی؛ کیونکہ اس روایت میں امام مالک کی موجودگی کا بھی ذکر ہے اور وہ سنہ179ھ میں وفات پاچکے تھے؛ پھر تمام اہلِ تذکرہ لکھتے ہیں کہ امام شافعی جب امام مالک کی خدمت میں گیئے ہیں توبہت کم سن تھے، اس لیے یہ کسی طرح قرین قیاس نہیں ہ کہ امام شافعی اس وقت کسی خاص مسلک کے حامل رہے ہوں گے، جس کوامام ابویوسف نے اختیار کر لیا ہوگا، جب کہ اس کے کئی برس کے بعد جب امام محمد کے حلقہ درس میں گئے تواس وقت بھی وہ ایک طالب علم ہی تھے؛ پھرامام مالک کی مجلس درس اور ان کی عام مجالس کے آداب سے جولوگ واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ امام مالک کی مجلس میں کسی کوبلند آواز سے بولنے کی بھی اجازت نہیں تھی، ایسی صورت میں کسی شاگرد کومناظرہ ومباحثہ کی اجازت کس طرح مل سکتی تھی، یہ امکان ضرور ہے کہ امام ابویوسف اور امام شافعی کی ملاقات، مدینہ منورہ میں امام مالک کی خدمت میں ہوئی ہو، اس لیے کہ ان کی خدمت میں دونوں بزرگوں کا جانا اور کسب فیض کرنا بہرحال ثابت ہے؛ مگر اس روای میں جو ہارون رشید کی موجودگی کا ذکر ہے اس کے بارے میں امام بخاری لکھتے ہیں: وكذلك ماذكر من أن الشافعي اجتمع بأبي يوسف عند الرشيد باطل، فلم يجتمع الشافعي بالرشيد إلابعد موت أبي يوسف۔ [31] ترجمہ:اس طرح ذکر کیا جاتا ہے امام شافعی اور امام ابویوسف میں ہارون الرشید کی موجودگی میں ملاقات ہوئی، یہ بالکل باطل ہے، ہارون الرشید سے امام شافعی کی ملاقات، امام ابویوسف کے انتقال کے بعد ہوئی۔ اس بیان سے مدینہ کی ملاقات کا امکان بھی ختم ہوجاتا ہے۔ ان تاریخی بیانات کی روشنی میں یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ جاتی ہے کہ ان دونوں اماموں میں ملاقات نہیں ہوئی، اس سلسلہ میں ایک اور چیز قابل ذکر ہے، وہ یہ کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الام، باب بیع الولاء اور مسند میں امام ابویوسف سے امام محمد کے واسطہ سے روایت کی ہے، یعنی اگروہ براہِ راست ان سے استفادہ کرتے توپھرامام محمد کے واسطہ سے کیوں روایت کرتے۔ امام ابوحنیفہ کے بعض مسانید میں امام شافعی کی براہِ راست امام ابویوسف سے روایت مذکور ہے، اس کے بارے میں علامہ زاہد الکوثری نے لکھا ہے کہ غالبا یہ سبقت قلم ہے۔ امام شافعی کے ایک شیخ یوسف بن خالد ہیں، ممکن ہے کہ بعض رواۃ نے غلط فہمی سے یوسف کی بجائے ابویوسف کا نام روایت کر دیا ہو اور وہی زبان زد ہو گیا ہو۔

عہدۂ قضاء

[ترمیم]

عہد نبوی اور عہد صدیقی میں عہدۂ قضا اسلامی حکومت کا کوئی الگ شعبہ نہیں تھا؛ بلکہ ہرصوبہ یاضلع کا جووالی ہوتا تھا، وہی انتظامی اور عدالتی دونوں امور انجام دیتا تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب اسلامی حدود مملکت میں بہت زیادہ وسعت پیدا ہوئی اور گوناگون مصالح اور ضرورتوں کی بناپر انتظامیہ اور عدلیہ کوایک ساتھ رکھنا مشکل ہو گیا اور پھرولاۃ مملکت کی بے عنوانیوں کی خبریں بھی دربارِ خلافت میں پہنچنے لگیں توحضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے دونوں شعبوں کوالگ کر دیا اور دونوں کے الگ الگ ذمہ دار اور سربراہ کار مقرر کیے اس کے دونوں شعبے ایک دوسرے سے آزاد ہو گئے، جن کے عہدہ داروں کا تقرر خود خلیفہ وقت کرتا تھا، عہد فاروںی کے بعد بہت دنوں تک اسی پرعمل درآمد تھا، یعنی یہ کہ دونوں شعبے الگ تھے اور ان کے عہدہ داروں کا تقرر وقت کا خلیفہ کرتا تھا؛ مگرخلفائے بنوامیہ جن کودین اور دین کے تقاضوں اور کاموں سے وہ شغف اور تعلق خاطر باقی نہیں رہ گیا تھا جوان کے پیشروں کوتھا اس لیے انھوں نے عہدۂ قضا کی اہمیت کم کردی اور قاضیوں کا انتخاب اور ان کا تقرر اور غزل صوبوں کے والیوں کے ذمہ ہو گیا۔

قاضیوں کا انتخاب

[ترمیم]

ظاہر ہے کہ جب خود خلفائے بنو امیہ کا دینی تصور کمزور اور ان کی دینی زندگی مضمحل ہو گئی تھی اور دین سے زیادہ ان پر دنیا طلبی غالب آگئی تھی تو پھر ان کے مقرر کردہ والیوں کی دینی زندگی کا کیا اعتبار ہو سکتا تھا؛ غرض اس کی وجہ سے بد عنوانیوں کا ایک غیر مختتم سلسلہ شروع ہو گیا، مروان جوسلسلۂ بنی اُمیہ کا تیسرا فرمانروا ہے، اس کے زمانہ کا ایک واقعہ ہے کہ جب وہ مصر پہنچا تووہاں کے قاضی کوبلوایا، اس وقت وہاں کے قاضی عابس تھے، اس نے ان سے پوچھا کہ قرآن یاد ہے، بولے نہیں پھرپوچھا فرائض یعنی تقسیم وراثت میں پختگی پیدا کرلی ہے جواب ملا نہیں، مروان کواس جواب سے حیرت ہوئی، بولا فَبِمَ تَقْضِیْ پھرآپ فیصلہ کیسے کرتے ہیں؟۔ خلفاء کی اس بے توجہی کا نتیجہ یہ ہوا کہ دن بدن اس میں بے عنوانیاں بڑھتی ہی چلی گئیں، حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں دوسرے شعبوں کی طرح اس کی طرف بھی توجہ کی؛ مگراس کام کوپایہ تکمیل تک پہنچانے سے پہلے ہی انتقال کرگئے، صرف یہی نہیں تھا کہ قاضیوں کے انتخاب میں اہل ونااہل کا بہت کم خیال کیا جاتا تھا؛ بلکہ حکمران طبقہ قاضیوں کے فیصلوں تک میں بھی دخل اندازی کرتا تھا، چنانچہ اموی اورعباسی دور کا مشکل سے کوئی ایسا قاضی ملے گا جس کے فیصلہ میں ارباب حکومت کی مداخلت کا کوئی نہ کوئی واقعہ نہ پیش آیا ہو، صرف اموی دور کے قاضی خیربن نعیم اور عباسی دور کے قاضی حفص بن غیاث کے متعلق ان کے تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ ارباب حکومت نے ان کو اپنے فیصلوں کے بدلنے پرمجبور کرنا چاہا تھا؛ مگرحکومت سے منسلک ہوتے ہوئے بھی ان کے پائے ثبات میں لغزش نہیں پیدا ہوئی اور وہ اپنے فیصلوں پرقائم رہے؛ یہی وجوہ تھے کہ محتاط فقہا اور محدث حکومت وقت سے کسی قسم کے تعاون کرتے بھی تھے تواس سے مطمئن نہیں ہوتے تھے؛ بلکہ ایک اضطرار ہی سمجھ کراسے انجام دیتے تھے، قاضی حفص بن غیاث فرماتے تھے کہ جب میری حالت یہ ہو گئی کہ مردار کھانا میرے لیے حلال ہو گیا تواس وقت میں نے عہدۂ قضا قبول کیا، قاضی شریک کومجبوراً عہدۂ قضا قبول کرنا پڑا توانھوں نے اس کودین کے فروخت کرنے سے تعبیر کیا، ان کے الفاظ یہ ہیں: بعث دینی۔ [32]

ترجمہ: میں نے اپنے دین کو بیچ دیا۔ وہ لوگ مردار اور دین فروشی سے اس لیے اس کوتعبیر کرتے تھے کہ وہ مسند قضا پر پہنچنے کے بعد اس جرات اور آزادی کے ساتھ دینی احکام کی روشنی میں معاملات کا فیصلہ نہیں کرسکتے تھے، جس آزادی سے وہ عہدۂ افتا پررہ کرکرسکتے تھے؛ بلکہ جولوگ حکومت سے اپنا تعلق قائم کرتے تھے ان کویہ بھی کرنا پڑتا تھا، یافعی نے یزید بن عبدالملک کے زمانہ کا ایک واقعہ بیان کیا ہے: فأتوه بأربعين شيخاً شهدوا له أن الخلفاء لاحساب عليهم ولاعذاب۔ [33] ترجمہ:ان کے پاس چالیس شیوخ آئے اور کہا کہ خلفا کے لیے نہ حساب ہے اور نہ عذاب۔ اس کے بعد وہ لکھتے ہیں: نعوذ بالله مماسيلقى الظالمون من شدة العذاب۔ [34] ترجمہ:ہم اللہ کی پناہ اس عذاب اور سزا سے مانگتے ہیں جن میں یہ ظالم مبتلا ہوں۔ لیکن ان میں جوبہت زیادہ غیر معمولی لوگ تھے؛ انھوں نے کسی قیمت پراس اضطرار کواپنے لیے گوارا نہیں کیا، انھی لوگوں میں سفیان ثوری، امام مالک، امام ابوحنیفہ اور ان کے بعض تلامذہ ہیں، امام ابوحنیفہ نے بنوامیہ اور بنوعباس دونں کا عہد دیکھا تھا اور دونوں عہدوں میں ان کے سامنے یہ لقمۂ ترپیش کیا گیا؛ مگرانہوں نے قبول نہیں کیا اور کسی قسم کے تعاون اور اشتراک عمل کوصحیح نہیں سمجھا، ان کے اس عزم سے ان کی پوری زندگی بڑی بے اطمینانی اور بے چینی میں گذری؛ مگرانہوں نے اپنے اس ارادہ وعزم میں کسی قسم کی تبدیلی گوارا نہیں کی؛ بلکہ اس سے آگے بڑھ کروقت کی ان دینی اور اصلاحی تحریکوں کا علانیہ ساتھ دیا جونظام حکومت کے بدلنے اور اس میں انقلاب و اصلاح پیدا کرنے کے لے اُٹھیں، جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے، ان کے تلامذہ میں امام زفر بھی اسی عزم وارادہ کے اسنان تھے، ان کے سامنے بھی جب عہدۂ قضا پیش ہوا تواس کے قبول کرنے سے انکار کر دیا، جب بہت زیادہ اصرار ہوا توروپوش ہو گئے، حکم ہوا کہ ان کا مکان گرادیا جائے، جس کی تعمیل کی گئی؛ لیکن وہ اپنے فیصلہ اور عزم راسخ پرقائم رہے۔ امام محمد کوامام ابویوسف نے ایک مصلحت کی بناپراس عہدہ کے قبول کرنے پرمجبور کیا جس کا رنج ان کو زندگی بھر رہا؛ انھوں نے حکومت کے خلاف بعض ایسے فیصلے دیے کہ ان کواس کے نتیجہ میں جیل جانا پڑا، تفصیل ان بزرگوں کے حالات میں آئے گی؛ لیکن امام ابویوسف نے اپنے استاد اور اپنے اصحاب کی روش کے برخلاف عہدۂ قضاء قبول کیا، جس سے یہ گمان ہوتا ہے کہ ان کووقت کے اس نظام سے اتنی نفرت اور بے تعلقی نہیں تھی، جوان کے پیش روں اور دوسرے ہم عصروں کوتھی؛ اسی بناپربعض اہلِ تذکرہ نے ان کے بارے میں کچھ اچھی رائے نہیں دی؛ لیکن ان کے بارے میں متعدد وجوہ کی بناپریہ گمان صحیح نہیں ہے، یہ صحیح ہے کہ جو لوگ حکومت کا کوئی عہدہ قبول کرلیتے تھے، ان کوعام طور پراچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا تھا، خصوصیت سے اہلِ تقویٰ اور اہلِ علم کا گروہ تواس کو سخت ناپسند اور حقیر سمجھتا تھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ حکومت سے متعلق ہونے کے بعد آدمی کی دینی حمیت اور ملی غیرت کچھ سرد ضرور پڑجاتی تھی اور صحیح فیصلہ کے مقابلہ میں حکومت کے مصالح اور مفادات کا لحاظ اس کوزیادہ کرنا پڑتا تھا، ایک شاعر کا قول ہے ؎ إنَّ نِصْفَ النَّاسِ أَعْدَاء لِمَنْ وُلِّيَ الأَحْكَامَ هَذَا إِنْ عَدَلْ [35] چنانچہ اسی بناپرامام ابویوسف کے بارے میں یہی عام طور پر یہ غلط فہمی تھی اور اُن کوعہدۂ قضا کے قبول کرلینے کی وجہ سے مطعون کرتے تھے؛ مگرہم آئندہ تفصیل سے بتائیں گے کہ ان کے متعلق لوگوں کا گمان صحیح نہیں تھا، سب سے پہلی بات تویہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ انھوں نے بہت دنوں تک اس عہدہ کوقبول نہیں کیا؛ مگربعد میں کچھ ایسے اسباب پیدا ہو گئے کہ ان کواپنی رائے بدلنی پڑی اور اس عہدہ کوانہوں نے قبول کر لیا؛ مگرباوجود اس کے انھوں نے کبھی حق وعدل سے اعراض نہیں کیا، ہمیشہ بے لاگ فیصلے کیے اور ہمیشہ اپنی حمیت اور ملی غیرت کوباقی رکھا؛ اگرکبھی نادانستہ لغزش بھی ہو گئی تواس پرسخت افسوس کرتے تھے اوپرہم نے لکھا ہے کہ امام ابویوسف بہت غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، جب تک امام صابح حیات تھے ان کی اور ان کے بال بچوں کی کفالت کا خیال رکھتے تھے اور ان کی مدد کرتے تھے، ان کی وفات کے بعد امام ابویوسف کی معاشی زندگی کا یہ سہارا بھی ختم ہو گیا؛ پھربھی انھوں نے نہ حکومت کا رُخ کیا اور نہ کسی کی امداد قبول کی، کئی برس تک خالصۃ لوجہ اللہ درس دیتے رہے، اس درمیان میں گھر کا جواثاثہ اور اسباب وسامان تھا، اس کوبیچ بیچ کرگذر اوقات کرتے اور کام چلاتے رہے، خود ہی فرماتے ہیں کہ جب میرے ذاتی اثاثہ کا ایک ایک تنکا بک گیا اور میری حالت بے انتہا خستہ ہو گئی تومیں نے اپنے سسرالی مکان کی ایک کڑی نکلوا کربازار میں بیچنے کے لیے بھیجی، جس کومیری ساس نے پسند نہیں کیا اور مجھے برا بھلا کہا، جس سے میرے دل پربہت چوٹ لگی اور میں نے مجبور ہوکر بالآخرعہدۂ قضا قبول کر لیا۔ [36]

لیکن صرف اتنی ہی وجہ امام ابویوسف کے عہدۂ قضا قبول کرلینے کے لیے کافی نہیں ہو سکتی تھی؛ بلکہ ان کے سوانح حیات پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دین کی مصلحت اسی میں سمجھتے تھے کہ اس عہدہ کوقبول کر لیا جائے اور اس کے ذریعہ اسلامی نظام کے ان قوانین کونافذ کیا جائے، جوامام صاحب اور ان کی وفات کے بعد خود انھوں نے اور ان کے احباب نے کتاب وسنت سے مستنبط کیے تھے؛ چنانچہ جس زمانہ میں امام محمد کوعہدۂ قضا کے قبول کرنے میں عذر ہوا توان سے کہا کہ اگرآپ اس عہدہ کوقبول کر لیں گے توشام میں ہمارے مسلک کی ترویح کا ایک ذریعہ ہاتھ آجائے گا (یہ مسلک جس کی ترویج کے لیے زور دے رہے تھے، وہ وہی ہے جوامام صاحب اور امام ابویوسف اور خود امام محمد نے کتاب وسنت سے مستنبط کیا تھا، صرف امام محمد نے ایک ہزار مسائل صرف قرآن پاک سے مستنبط کیے تھے) اس واقعہ کا ذکر امام محمد کے حالات میں آئے گا۔ پھرامام صاحب اور دوسرے بزرگوں کی دربارِ خلافت سے بے تعلقی کی وجہ سے حکومت نے بھی اپنے رویہ میں بڑی حد تک تبدیلی پیدا کرلی تھی، اب اس نے اسلامی احکام کے اجرا اور فیصلوں میں پہلے سے کہیں زیادہ مواقع اور آزادی دے رکھی تھی، خاص طور سے قضاۃ کے فیصلوں میں بہت کم دخل دیتی تھی، یہاں تک کہ بعض معاملات میں امام ابویوسف کے ہم عصر قاضیوں نے ارکان حکومت توالگ رہے خود خلفا کے فیصلے صادر کیے اور حکومت کوبرداشت کرنا پڑا، اس کے علاوہ امام صاحب نے اسلامی احکام کی ترویج کے لیے ایک جماعت تیارکی تھی اور اس کے افراد میں جوسیرت اور کردار پیدا کیا تھا، اس کی بناپر ان سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی تھی کہ وہ ارکانِ حکومت یاوزراء یا خلفاء کے سامنے اظہارِ حق کی بجائے ان کی خوشامد کریں گے؛ ممکن ہے؛ اسی بنا پرخود امام صاحب نے ان لوگوں کوعہدۂ قضا کے قبول کرنے کی اجازت دیدی ہو توکوئی تعجب نہیں؛ جیسا کہ امام صاحب نے ان کے والد کوجواب دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ آئندہ یہ بڑی حیثیت کے مالک ہوں گے۔ وہ خود فرماتے تھے کہ میرے یہ چھتیس اصحاب ہیں، جن میں سے 28/توعہدۂ قضا کے لائق ہیں، 2/مفتی ہو سکتے ہیں اور 2/یعنی امام زفر اور امام ابویوسف یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ قیاضیوں اور مفتیوں کوتیار کریں اور ان کواس کام کے لائق بنائیں۔ [37] عاجز کا خیال ہے کہ یہی وجوہ اسباب تھے، جن کی بناپر اب اہلِ علم اور اہلِ تقویٰ اصحاب عہدۂ قضا کے قبول کرنے میں اتنے زیادہ سخت نہیں رہ گئے تھے، جتنا کہ اس سے پہلے تھے؛ ممکن ہے کہ اس کے ساتھ معاشی تنگی وپریشانی نے بھی امام ابویوسف کویہ عہدہ قبول کرنے پرمجبور کیا ہو؛ ورنہ اگران کویہ توقع نہ ہوتی کہ ان کے کیے ہوئے فیصلوں میں کوئی قوت حارج نہیں ہوگی یااپنے اندر اس قسم کی کمزوری پاتے کہ وہ ارباب حکومت کی خاطر اور پاسداری میں اظہارِ حق سے باز رہ جائیں گے تویقینا استاد کی طرح وہ بھی موت کوپسند کرتے؛ لیکن اس عہدہ کے قریب نہ جاتے؛ آگے جوواقعات نقل کیے جائیں گے ان سے اندازہ ہوگا کہ انھوں نے ہمیشہ بے لاگ فیصلے کیے کبھی کسی کی ناحق رعایت نہیں کی، وزراء وارکانِ حکومت تک کی شہادتیں ردکردیں، ہارون رشید جیسے بااقتدار اور صاحب جبروت خلیفہ کومعمولی رعایا کی صف میں کھڑا کر دیا اور اس کے سامنے کبھی اظہارِ حق سے باز نہیں آئے اور وہ استاد کی وہ بات کیسے بھول سکتے تھے، جوانہوں نے منصور کے جواب میں کہی تھی، منصور نے جب امام صاحب کوعہدۂ قضا قبول کرنے پرمجبور کیا توآپ نے اس سے کہا تھا کہ قاضی ایسے شخص کوہونا چاہیے جوآپ کے خلاف، آپ کے بچوں کے خلاف اور آپ کے سپہ سالاروں کے خلاف فیصلہ کرسکے۔ [38] ہم ذیل میں ان کے زمانہ قضا کے چند واقعات نقل کرتے ہیں: امام ابویوسف تین تین عباسی خلفاء کے دور میں قاضی رہے، مہدی، ہادی اور ہارون رشید، مہدی نے انھیں صرف بغداد کے مشرقی حصہ کا قاضی مقرر کیا تھا؛ مگر خلیفہ ہادی کے زمانہ میں وہ پورے بغداد کے قاضی بنادیئے گئے (بغداد کی آبادی اس وقت چھ سات لاکھ تھی) ایک باغ کے معاملہ میں خلیفہ ہادی اور کسی عام آدمی میں اختلاف ہو گیا، ہادی نے حکم دیا کہ معاملہ قاضی کے روبروپیش کیا جائے، امام ابویوسف کے سامنے ایسی شہادتیں گذریں جن سے باغ ہادی کا ثابت ہوتا تھا؛ لیکن امام نے انہی شہادتوں پراکتفا نہیں کیا؛ بلکہ خفیہ تحقیقات کی، جس سے معلوم ہوا کہ باغ خلیفہ کے مخالف فریق ہی کا ہے، جس کے خلاف عدالت میں شہادتیں گذررہی تھیں، قاضی صاحب نے مقدمہ تواس وقت ملتوی کر دیا، ہادی سے ملاقات ہوئی تواس نے پوچھا کہ مقدمہ میں آپ نے کیا فیصلہ کیا، امام ابویوسف نے فرمایا کہ شہادتیں توآپ کے موافق ہی گذری ہیں؛ مگرمدعا علیہ کی طرف سے یہ مطالبہ ہوا ہے کہ مدعی (خلیفہ) سے حلف بھی لے لی جائے، ہادی نے پوچھا توآپ کی کیا رائے ہے؟ کیا آپ مدی کا حلف اُٹھانا صحیح سمجھتے ہیں (حنفی مسلک کے مطابق قسم مدعی کے ذمہ نہیں؛ بلکہ مدعا علیہ کے ذمہ ہے؛ مگرامام ابویوسف رحمہ اللہ کے نزدیک ایک حق دار کے حق کوواپس دلانا اس سے زیادہ ضروری ہے کہ حنفی مسلک کی پیروی کی جائے) امام ابویوسف رحمہ اللہ نے فرمایا کہ قاضی ابن ابی لیلیٰ کی تویہی رائے ہے (جولوگ یہ کہتے ہیں کہ امام ابویوسف وغیرہ امام صاحب کے قول کے خلاف کبھی فتویٰ نہیں دیتے یافیصلہ نہیں کرتے تھے، صحیح نہیں ہے) اس کے بعد ہادی نے کہا کہ اچھا توباغ مدعا علیہ کے حوالہ کردیجئے۔ [39]

اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ امام ابویوسف رحمہ اللہ صحیح فیصلہ تک پہنچنے اور حق کوحق دار تک پہنچانے میں کتنی کدوکاوش کرتے تھے؛ اسی طرح کا ایک فیصلہ انھوں نے ہارون رشید کے خلاف بھی دیا تھا؛ مگراس میں ان سے ذرہ سی غلطی ہو گئی تھی، جس کا ان کوزندگی بھرافسوس رہا، واقعہ یہ ہے کہ سوادعراق کے ایک بوڈھے نے ہارون کے خلاف یہ دعویٰ دائر کیا کہ فلاں باغ میرا ہے؛ لیکن خلیفہ نے اس پرغاصبانہ قبضہ کر لیا ہے، اتفاق سے یہ مقدمہ اس روز پیش ہوا جس روز خود ہارون رشید فیصلے کے لیے بیٹھا تھا، قاضی ابویوسف فریقین کے بیانات اور ان کے دعویٰ ہارون کے سامنے پیش کر رہے تھے، جب اس مقدمہ کی باری آئی توانہوں نے خلیفہ کے سامنے اس کوپیش کیا اور کہا کہ آپ کے اوپر دعویٰ ہے کہ آپ نے فلاں آدمی کا باغ زبردستی لے لیا ہے، مدعی یہاں موجود ہے، حکم ہوتوحاضر کیا جائے؟ بوڈھا سامنے آیا توقاضی ابویوسف نے پوچھا: بڑے میاں آپ کا دعویٰ کیا ہے، اس نے کہا کہ میرے باغ پرامیرالمؤمنین نے ناحق قبضہ کر لیا ہے، جس کے خلاف دادرسی چاہتا ہوں، قاضی نے سوال کیا، اس وقت وہ کس کے قبضہ اور نگرانی میں ہے، بولا امیر المومنین کے ذاتی قبضہ میں ہے، اب قاضی ابویوسف نے ہارون رشید سے مخاطب ہوکر کہا کہ دعویٰ کے جواب میں کچھ آپ کہنا چاہتے ہیں، ہارون رشید نے کہا: میرے قبضہ میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے، جس میں اس شخص کا حق ہو، نہ خود باغ ہی میں اس کا کوئی حق ہے، قاضی نے فریقین کے بیانات سننے کے بعد مدعی سے پوچھا کہ تمھارے دعویٰ کے ثبوت کے لی کوئی دلیل بھی ہے، کہا ہاں! خود امیر المومنین سے قسم لے لی جائے، ہارون نے قسم کھا کرکہا کہ یہ باغ میرے والد مہدی نے مجھے عطا کیا تھا، میں اس کا مالک ہوں، بڈھے نے یہ سناتواس کوبہت غصہ آیا اور یہ بڑبڑاتا ہوا عدالت سے نکل گیا، جس طرح کوئی شخص آسانی سے ستوگھول کرپی جائے؛ اسی طرح اس شخص نے آسانی سے قسم کھالی (امام ذہبی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ مدی نصرانی تھا، اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عدل وانصاف کا اس زمانہ میں کیا معیار تھا) ایک معمولی آدمی کی زبان سے یہ الفاظ سن کرہارون کا چہرہ غصہ سے تمتما اُٹھا، یحییٰ برمکی نے ہارون کوخوش کرنے کے لیے امام ابویوسف سے مخاطب ہوکر کہا کہ آپ نے دیکھا اس عدل وانصاف کی نظیر دنیا میں مل سکتی ہے، امام ابویوسف نے اس کی تحسین کی، کہا کہ مگرانصاف کے بغیر کوئی چارہ بھی تونہیں تھا۔

ان واقعات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ امام ابویوسف رحمہ اللہ نے اپنی جرات، دینی حمیت اور اظہارِ حق سے اس عہدہ کوجس پرعلم دین سے ناواقف تک مقرر ہونے لگے تھے، کتنا اونچا اور بلند کر دیا کہ مطلق العنان خلفا تک کوان کے فیصلہ کے آگے سرجھکادینا پڑتا تھا، موجودہ زمانہ میں شائد کوئی استعجاب کی بات نہ سمجھی جائے؛ مگرجس مطلق العنان اور شخصی فرماں روائی کے دور کے واقعات ہیں، اس میں یہ بات حددرجہ تعجب خیز اور حیرت انگیز ہے، ان واقعات سے ایک اور بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اس وقت اسلامی نظام کے چلانے والوں اور خواص کے طبقہ میں گودین کی وہ روح باقی نہیں رہ گئی تھی، جو قرونِ اولیٰ میں تھی؛ مگرچونکہ اسلامی نظام کا ڈھانچا کسی نہ کسی شکل میں اب بھی موجود تھا جس کا اثر تھا کہ معاشرہ کے مستاہل اور دین سے غافل افراد کے دلوں میں بھی اتنا خوفِ خدا اور احساسِ ذمہ داری باقی تھا کہ جب ان کے سامنے کوئی داعی حق، حق کی دعوت دیتا، یاان کی کسی ناحق بات پرتنقید کرتا توچاہے، ان کی مرضی اور خواہش کے خلاف ہی کیوں نہ ہوتا، اس کوقبول ضرور کرتے تھے اور اگرقبول نہ کرتے توکم ازکم ان کواس پرندامت ضرور ہوتی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اگرعام علما فقہا نے تواصی بالحق ادا کیا ہوتا، تونہ تواسلامی نظام ہی کودھکا لگتا، نہ اس کے چلانے والے غلط راہ پرپڑجاتے؛ چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی مجددانہ عزم وارادہ کا انسان حکومت کے مقابلہ میں سینہ سپرہوگیا ہے، تواس نے بڑی حد تک زمانہ کی رفتار اور حکومت کا رُخ موڑ دیا ہے؛ مذکورہ بالا معاملہ میں امام ابویوسف نے انصاف کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی؛ مگرپھربھی آخر وقت تک ان کوجب اس واقعہ کا خیال آجاتا توفرماتے تھے: میں اپنے اندر سخت کوفت، اذیت، رنج محسوس کرتا ہوں اور ڈرتا ہوں کہ میں نے انصاف میں جوکوتاہی کی ہے، اللہ تاعلیٰ کے یہاں اس کا کیا جواب دونگا؟ لوگوں نے پوچھا آپ نے انصاف میں کیا کوتاہی کی؟ اور آپ اس سے زیادہ کیا کرسکتے تھے کہ ایک معمولی کسان کے مقابلہ میں وقت کے سب سے بڑے بادشاہ کوقسم کھانے پرمجبور کر دیا، فرمایا تم لوگوں نے نہیں سمجھا کہ مجھے کس خیال سے تکلیف ہوتی ہے؛ پھرافسوس کے لہجہ میں فرمایا کہ مجھے تکلیف اور کڑھن اس کی ہے کہ میں ہارون سے یہ نہ کہہ سکا کہ آپ کرسی سے اترجائیے، جہاں آپ کا فریق کھڑا ہے وہیں ایک فریق کی حیثیت سے آپ بھی کھڑے ہوجائیے یاپھراجازت دیجئے کہ اس کے لیے بھی کرسی لائی جائے۔ [40] ان کی جرأت وحق گوئی صرف فیصلوں ہی تک محدود نہیں تھی؛ بلکہ ہرموقع پروہ اس کاثبوت دیتے تھے، ہارون نے ان سے کتاب الخراج لکھنے کی فرمائش کی تواس کی تعمیل کی اور کتاب مرتب کردی کہ اسلامی قانون کی تدوین کا ایک اہم اور بہت ضروری کام تھا؛ لیکن اس کے دیباچہ میں ہارون کوجس صفائی اور جرأت کے ساتھ نصیحتیں اور ہدایتیں کی ہیں، وہ ان کی حق گوئی کی ایک زبردست یادگار ہے؛ بعض اہلِ تذکرہ نے جوامام ابویوسف صاحب کے بارے میں یہ لکھا ہے کہ دنیا نے ان کومشغول کر لیا تھا، اس کی تردید میں دوسرے تذکروں اور تاریخوں سے جوبیانات نقل کیے جاتے ہیں، ان میں توشبہ کیا جا سکتا ہے اور اس کے متعلق دورائیں ہو سکتی ہیں؛ لیکن انھوں نے خود اس کتاب میں جوکچھ لھا ہے، اس میں کون شبہ کرسکتا ہے، یہ نصائح وہدایات کتاب کے صفحہ نمبر:17،18، پرپھیلے ہوئے ہیں، ہم اس کا خلاصہ یہاں پیش کرتے ہیں۔ امیر المومنین! خدا کا شکر ہے کہ اس نے ایک بڑی ذمہ داری (حکومت) آپ کے سپرد کی ہے، اس کی ادائیگی کا ثواب بھی تمام ثوابوں سے بڑا اور اعلیٰ ہے اور اس میں کوتاہی کی سزا بھی تمام سزاؤں سے بدتر اور سخت تر ہے، آپ کے سپرد اس امت مسلمہ کے تمام معاملات کیے گئے ہیں، آپ دن رات کوشش کریں کہ ان کے حقوق کی بنیادیں مستحکم ہوں اور آپ ان کے جان ومال کے امین ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ پریہ ذمہ داری ڈال کرآپ کی آزمائش کی ہے، میں یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ خدا کے خوف اور ڈرپر جس تعمیر کی بنیاد نہیں رکھی جائے گی اس کے لیے ہروقت خطرہ ہے کہ کس وقت خدائے قدوس اوندھے منہ بنانے والے کے اوپر اسے گرادے، توآپ امت اور عام رعیت کے حقوق کی حفاظت اور ان کے معاملات کی دیکھ بھال میں کوتاہی نہ کریں، عمل میں خدا قوت بخشتا ہے۔

آج کے کام کوکل پرنہ اُٹھارکھیے؛ اگرآپ نے ایسا کیا تونقصان ہوگا، وقت کوتوع اور اُمید کے ساتھ نہ رکھیے؛ بلکہ وقت کوعمل کے ساتھ رکھیئے، یعنی امید پرکوئی کام اُٹھا نہ رکھیئے؛ بلکہ ہرکام وقت پرکرلیجئے؛ ہرکام کا ایک وقت ہوتا ہے، وقت کے بعد کام بے کار ہے؛ پھربہت سی نصیحتیں کرنے کے بعد فرماتے ہیں: قیامت کے دن وہی حکمران سب سے زیادہ خوش بخت ثابت ہوگا، جس نے اپنی رعیت کوخوش حال رکھنے کی کوشش کی، دیکھیے آپ کسی معاملہ میں جاوۂ مستقیم سے نہ ہٹیے گا؛ ورنہ آپ کی رعیت بھی ہٹ جائے گی، خبردار کسی معاملہ میں خواہشِ نفس اور اپنے غیظ وغضب کودخل نہ دیجئے گا، جب دین ودنیا میں کش مکش کی صورت پیش آئے توچاہیے کہ آپ دین کے پہلو کواختیار کریں اور دنیا کوچھوڑدیں، دین باقی رہنے والی چیز ہے اور دنیا فانی ہے، آپ تمام لوگوں کوخدا کے قانون کے لحاظ سے برابر سمجھیں؛ خواہ وہ آپ کے قریب کے ہوں یابعید کے ہوں، اللہ کے قانون کے نفاذ میں آپ ملامت کرنے والوں کی بالکل پروا نہ کیجئے۔ غرض اسی انداز سے انھوں نے ایک طویل نصیحت کی ہے؛ اسی کے بعد موضوع کتاب پربحث کی ہے، اس کے بعد کس کوشبہ ہو سکتا ہے جس بلند مقصد کے لیے انھوں نے یہ عہدہ قبول کیا تھا اس کو انھوں نے پورے طور پرانجام نہیں دیا، ہارون خودرائی کے باوجود بہت سی خوبیوں میں دوسرے عباسی حکمرانوں میں ممتاز تھا، خصوصاً اس کی رعایا پروری کے واقعات تواب تک زبان زدعام وخاص ہیں اور ان خصوصیات کے پیدا کرنے میں اس کی نیک فطرتی کے ساتھ ساتھ بلاشبہ امام ابویوسف رحمہ اللہ کی معیت کوبھی بہت کچھ دخل تھا۔، امام ابویوسف رحمہ اللہ نے جب خلفا کی پروا نہیں کی تووزراء اور ارکانِ حکومت کی پروا کیا کرتے؛ چنانچہ انھوں نے متعدد وزراء اور خواصِ حکومت کی شہادتیں ردکردیں، ایک بار علی بن عیسیٰ وزیرمملکت نے کسی معاملہ میں شہادت دی، توامام ابویوسف نے قبول نہیں کی، یہ ایک وزیر کی بڑی توہین تھی، اس نے معاملہ ہارون رشید کے سامنے پیش کیا، ہارون رشید نے امام موصوف سے دریافت کیا توفرمایا کہ میں نے شہادت اس لیے رد کردی کہ میں نے اپنے کانوں سے ان کویہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں توخلیفہ کا عبد اور غلام ہوں اور جب یہ غلام ہیں توغلاموں کی شہادت معتبر نیں، بعض روایتوں میں ہے کہ انھوں نے کہا کہ یہ جماعت سے نماز نہیں پڑھتے [41] اس لیے میں نے ان کی شہادت رد کرد؛ ممکن ہے کہ یہ دوالگ الگ واقعے ہوں یا امام نے دونوں باتیں کہی ہوں.

قاضی القضاۃ کے عہدہ کی ابتدا

[ترمیم]

امام ابویوسف خلیفہ مہدی کے عہد خلافت میں بغداد کے مشرقی حصہ کے قاضی مقرر ہوئے تھے، خلیفہ ہادی کے زمانہ میں بھی اسی عہدہ پرتھے، ہارون رشید کے ہاتھوں میں خلافت کی باگ ڈور آئی توسال بھر تک تواس نے ان کواسی حیثیت میں رکھا؛ مگراس کے بعد تمام ممالک محروسہ کا قاضی القضاۃ بنادیا، مقریزی نے لکھا ہے کہ: عراق، خراسان، شام، مصر میں ان کے حکم کے بغیر قضات کے منصب پرکوئی مقرر نہیں ہو سکتا تھا۔ [42] جواہرمضیہ میں ہے: كَانَ إِلَيْهِ تولية الْقضاءِ فِى الْآفَاقِ مِنَ الشَّرْقِ وَالْغَرْبِ۔ [43] ترجمہ:مشرق سے مغرب تک تمام اسلامی ملکوں میں قاضیوں کا تقرر انہی کے سپرد تھا۔ خود امام ابویوسف رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فَوَلَّانی قضاء البلاد کلھا۔ [44] ترجمہ:پھرمجھ کوتمام ممالکِ محروسہ کی قضأت کی ذمہ داری سونپ دی۔ اِن بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ رسماً اور تبرکاً قاضی نہیں بنائے گئے تھے؛ بلکہ کہنا چاہیے کہ وہ حکومت کے محکمۂ عدلیہ کے پورے انچارج یاباالفاظِ دیگر وزیر عدل وقانون تھے، یہ محکمہ اس سے پہلے کبھی قائم نہیں ہوا تھا، یہ امام ابویوسف رحمہ اللہ ہی کی ذات تھی جس نے عہدۂ قضأ کو جس کی خلافتِ راشدہ کے بعد کوئی قیمت باقی نہیں رہ گئی تھی، اتنا باوقار بلند اور اہم بنادیاکہ اس کوایک الگ محکمہ اور عہدہ کی حیثیت حکومت کو دینی پڑی، اس کی تائید ابوالولید الطیالسی کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے، وہ کہتے تھے کہ: ہذا ہوالوزیر وقاضی القضاہ، ترجمہ:یہی وہ شخص ہے جو وزیر اور قاضی القضاۃ ہے۔

ہارون رشید جیسا باجیردت وخود پرست خلیفہ ان کا اس قدر اعزاز واکرام کرتا تھا کہ ان کوہمہ وقت اس کے دربار میں بازیابی کی اجازت تھی، ان کے لیے کوئی روک ٹوک نہیں تھی؛ یہاں تک کہ باب خلافت تک پہنچ جانے کے باوجود سواری سے نہیں اُترتے تھے، حریم خلافت کا پردہ اُٹھادیا جاتا اور ان کی سواری اندر چلی جاتی تھی، جب ہارون کا سامنا ہوتا تووہ خود سلام میں سبقت کرتا اور یہ مصرع دہراتا تھا جاءت بہ محبترا ببردہ بعض راویں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا یہ اعزاز واکرام اور بے پایاں اختیار اقتدار خلیفہ کے بعض حواریوں اور حاشیہ نشینوں کوبرالگا، ممکن ہے، ان میں وہ وزیر اور عہدہ دار بھی رہے ہوں، جن کی شہادتیں امام ابویوسف رحمہ اللہ نے ان کے عہدہ ومنصب اور اقتدار واجلال کے علی الرغم ردکردی تھیں اور ان لوگوں نے ہارون رشید سے شکایت کے طور پرکہا: وکان فقیہا عالماً انک فعت ابایوسف فوق المقدار وانزلتہ المنزلتہ الجلیلۃ الرفیعۃفبای وجہ نال ذٰلِک منک۔ [45] ترجمہ:وہ محض ایک عالم اور فقیہ تھے، آپ نے ان کی حیثیت سے کہیں زیادہ ان کوبلند کر دیا اور غیر معمولی اعزاز واکرام بخش دیا، تویہ مرتبہ آپ کے یہاں انھوں نے کس وجہ سے حاصل کر لیا ہے۔ ہارون نے ان حاسدوں کوجواب دیا کہ میں نے جو کچھ کیا ہے، بہت سوچ سمجھ کر اور کافی تجربہ کے بعد کیا ہے، خدا کی قسم علم کے جس باب میں بھی میں نے اُن کوجانچا کامل پایا؛ پھرکہا کہ ان کی علمی قابلیت کو ان کی طالب علمی کے زمانہ سے جانتا ہوں؛ پھران علمی امتیازات کے علاوہ میں نے مذہب میں ان کے قدم کواستوار اور ان کے دین کو تمام آلودگیوں سے محفوظ پایا؛ اگرکوئی قاضی ابویوسف جیسا ہوتوپیش کرو۔ [46] مذکورہ واقعات سے اندازہ ہو گیا ہوگا کہ امام ابویوسف نے جس مقصد کی خاطر یہ عہدۂ قضا قبول کیا تھا، اس میں وہ کتنے کامیاب تھے اور انھوں نے اپنے ذاتی کردار اور علم وتفقہ سے اس عہدہ کوکتنا بلند اور خود حکومت میں کتنا اثر اور رسوخ پیدا کر لیا تھا کہ وزراء اور ارکانِ حکومت تک کے دل میں رشک وحسد پیدا ہونے لگا تھا اور یہ ہارون کے عہد کا واقعہ ہے جس میں برامکہ جیسے بیدار مغز وزراء اور ارکان دولت تھے، امام ابویوسف بعد اسی عہدہ پرجب وہب بن وہب المعروف بابی النجتری کا تقرر ہوتا ہے تووہ ہارون کے ہرکام کے جواز کے لیے حدیثیں وضع کرنے لگتے ہیں، مشہور ہے کہ انھوں نے کئی بار اسی طرح کا اقدام کیا، دوایک بار توہارون کچھ نہیں بولا؛ مگروہ بھی صاحب علم ونظر تھا اور پھرامام ابویوسف جیسے متدین اور محتاط قاضی کی رفاقت میں رہ چکا تھا، کب تک خاموش رہتا؛ چنانچہ ایک روز وہ کبوتر اڑارہا تھا کہ وہب آگئے، پوچھا کہ کبوتر بازی کے لیے بھی کوئی حدیث آئی ہے، بے محابا شیخ نے یہ روایت سنادی: مجھ سے ہشام بن عروہ نے یہ روایت کی ہے کہ ان کے والد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے واسطہ سے بیان کرتے تھے کہ وہ فرماتی تھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبوتر بازی کی ہے اور اس سے شغف فرمایا ہے۔ یہ سن کرہارون آپے سے باہر ہو گیا اور نہایت خشم گیں آواز میں بولا نکل جاؤ میرے سامنے سے؛ اگرتمہارا تعلق قریش سے نہ ہوتا تومیں تمھیں ابھی معزول کردیتا اور یہی ہوا کہ کچھ دنوں کے بعد معزول کر دیے گئے۔ [47]

عہدۂ قضا کی مدت

[ترمیم]

امام ابویوسف عہدۂ قضا پر کتنے دنوں مامور رہے، اس میں اختلاف ہے، ایک مرتبہ خود انھوں نے اپنے شاگرد سے بیان کیا کہ میں 17/برس امام صاحب کی حدمت میں رہا اور 17/برس دنیا کے کاموں میں (یعنی عہدۂ قضا پر) اوپر ذکر آچکا ہے کہ سب سے پہلے مہدی کے وقت قاضی مقرر ہوئے اور ان کی وفات سنہ182ھ ہجری میں عہدۂ قضاء کی حالت میں ہوئی تواگر ان کے تقرر کا سنہ159ھ مانا جائے توقضا کی مدت 22 ، 23 برس ہوتی ہے اور اگر یہ مانا جائے کہ وہ 17/برس عہدۂ قضا پر رہے تواس اعتبار سے ان کا تقرر سنہ166ھجری میں ہونا چاہیے؛ غرض پہلی صورت میں امام صاحب کی وفات کے 9/برس کے بعد عہدۂ قضاء قبول کیا اور دوسری صورت میں پندرہ برس کے بعد۔

علالت اور وفات

[ترمیم]

موت سے کچھ دن پہلے بیمار پڑے، ان کو بیمار ہونے سے پہلے ہی اپنی موت کا کچھ اندازہ ہو گیا تھا، وہ برابر کہتے تھے کہ 17/برس امام صاحب کی خدمت میں رہا اور 17/برس دنیا کے کاموں میں، اب میرا وقت قریب ہے، موت سے کچھ پہلے وصیت کی کہ میرے مال میں سے ایک ایک لاکھ درہم اہلِ مکہ، اہلِ مدینہ اور اہلِ کوفہ پر تقسیم کر دیا جائے، اس کے بعد وراثت تقسیم ہو۔ [48] علالت کے ایام میں ان پر عجیب رقت طاری رہتی تھی، عہدۂ قضا کی ذمہ داریوں کوانہوں نے جس دیانت داری سے انجام دیا اس کی تفصیل اُوپر آچکی ہے؛ لیکن آخروقت میں وہ کہتے تھے کہ کاش میں فقر وفاقہ کی حالت میں اس دنیا سے چلا جاتا اور عہدۂ قضا نہ قبول کرتا؛ پھر بھی میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میں نے قصداً نہ کسی پرظلم کیا ہے اور نہ کسی فریق کی پاسداری کی ہے اور نہ میری خواہش ہوتی کہ فلاں فریق کامیاب ہو اور فلاں ناکامیاب [49] جس روز انھوں نے اس دارِفانی کو چھوڑا ان پرعجیب کیفیت تھی اور زبان پریہ کلمات تھے: بارِالہٰا توجانتا ہے کہ میں نے کسی فیصلہ میں جو تیرے بندوں کے درمیان تھا خودرائی سے کام نہیں لیا اور نہ خلاف واقعہ فیصلہ کیا، ہمیشہ میری کوشش رہی کہ جوفیصلہ ہو وہ تیری کتاب اور تیرے رسول کی سنت کے موافق ہو، جب کسی مسئلہ میں مشکل پیش آتی تھی تومیں امام ابوحنیفہ کواپنے اور تیرے درمیان واسطہ بناتا تھا اور جہاں تک مجھے معلوم ہے کہ امام ابوحنیفہ تیرے احکام کوخوب سمجھتے تھے اور عمداً وہ کبھی حق کے دائرہ سے باہر نہیں جاتے تھے، یہ بھی زبان پرتھا کہ: اے اللہ! توجانتا ہے کہ میں ہمیشہ پاکدامن رہا اور کبھی ایک درہم جان بوجھ کر حرام کا نہیں کھایا۔ [50] تعلیم و تعلم آخری سانس تک جاری تھا، ایک شاگرد کوکسی مسئلہ کی تفصیل بتا رہے تھے، ابھی خاموش بھی نہیں ہوئے تھے کہ چند منٹ کے بعد آواز ہمیشہ کے لیے بند ہو گئی۔ معروف کرخی ایک مشہور بزرگ گذرے ہیں، یہ امام ابویوسف کے معاصر تھے ان کوجب بیماری کی اطلاع ہوئی توانہوں نے اپنے ایک رفیق سے کہا کہ اگر آج ان کی وفا ت ہوجائے تومجھے اطلاع دینا میں جنازہ میں شریک ہوں گا، ان رفیق کا بیان ہے کہ جب میں دارالرقیق کے دروازہ پر پہنچا توامام ابویوسف کا جنازہ نکل رہا تھا، میں نے خیال کیا کہ اگرمیں معروف کرخی کوخبر کرنے جاتا ہوں تومجھے جنازہ کی نماز نہ ملے گی؛ چنانچہ جنازہ کی نماز پڑھ کر ان کے پاس گیا اور خبروفات سنائی توان کوسخت صدمہ ہوا اور بار بار انا للہ پڑھا اور پھریہ فرمایا کہ انشاء اللہ ان کوجنت میں اچھا مقام ملے گا، لوگوں نے پوچھا کہ یہ مقام ان کو کیونکر حاصل ہوگا؟ فرمایا: کہ تعلیم اور تعلم اور لوگوں کی ایذارسانی پرصبر کی بدولت [51] یہ واقعہ جمعرات کے دن ظہر کے وقت ربیع الاوّل کی پانچویں تاریخ سنہ182ھ کوپیش آیا۔ اِن کی وفات کا لوگوں پربڑا اثر ہوا، خصوصیت سے ہارون رشید بہت غم گین تھا، جنازہ نکلا تو مشایعت کی اور خود نماز جنازہ پڑھائی اور اپنے خاندان کے خاص مقبرہ میں دفن کرایا [52] اس سے فارغ ہوا تولوگوں کی طرف مخاطب ہوکر کہا کہ تمام اہلِ اسلام کوچاہیے کہ ان کی وفات پرایک دوسرے کی تعزیت کریں یعنی حادثہ ایک شخص یا ایک خاندان کا نہیں بلکہ پوری ملت کا ہے، شجاع بن مخلد کا قول ہے کہ ہم امام ابویوسف کے جنازہ میں شریک تھے، عباد بن عوام بھی ہمارے ساتھ تھے، میں نے اُن کویہ کہتے سنا کہ اہلِ اسلام کو چاہیے کہ ابویوسف کی وفات پرایک دوسرے کی تعزیت کریں۔ [53] اہلِ تذکرہ کا بیان ہ کہ امام ابویوسف کے جنازہ میں ابویعقوب خزیمی شاعر بھی شریک تھا؛ اس نے لوگوں کویہ کہتے سنا کہ دوسرے امام کا خاتمہ ہو گیا، فقہ کا خاتمہ ہو گیا تواس نے برجستہ ایک مرثیہ کہا: جس کے چند اشعار ہیں ؎ يا ناعي الفقه إِلَى أهله أن مات يعقوب وما تدري لم يمت الفقه ولكنه حول من صدر إِلَى صدر ألقاه يعقوب إِلَى يوسف فزال من طيب إِلَى طهر فهو مقيم فإذا ما نوى حل وحل الفقه في قبر [54]

حلیہ

[ترمیم]

نہایت ہی پتلے دبلے اور پستہ قد تھے، ان کے ایک شاگرد قاسم بن زریق کہتے تھے کہ جب وہ مسند درس پربیٹھتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ وہ اس میں ڈوب جائیں گے؛ لیکن جب درس دینے لگتے تھے توحیرت میں ڈال دیتے تھے، ان کا جثہ دیکھ کریہ کہا کرتے تھے کہ اگراللہ چاہے تو پرندہ کے پیٹ میں علم بھردے۔

اولاد

[ترمیم]

امام ابویوسف کثیر الاولاد تھے؛ مگرارباب تذکرہ صرف ان کے صاحبزادوں کا تذکرہ کرتے ہیں، ایک تو بچپن ہی میں داعِ مفارقت دے گئے اور ایک یوسف نام کے صاحبزادے تھے؛ جنھوں نے علمِ دین امام ابویوسف سے ورثہ میں پایا تھا، امام ابویوسف رحمہ اللہ کی زندگی ہی میں قاضی مقرر ہو گئے تھے، امام ابویوسف پہلے بغداد کے مشرقی حصہ کے قاضی تھے، جب وہ قاضی القضاۃ بنائے گئے توان کی جگہ پران کے صاحبزادے کا تقرر ہوا، والد کی وفات کے بعد پھریہ رصافہ کے قاضی بنا دیے گئے، یہ جامع منصور کے امام بھی تھے، اِن کے صاحبزادے فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے گھر میں تیس برس سے عہدۂ قضا ہے، بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ابویوسف رحمہ اللہ کے بعد یہ بھی قاضی القضاۃ بنا دیے گئے تھے؛ مگریہ روایت صحیح نہیں ہے؛ بلکہ امام ابویوسف کے بعد وہب بن وہب ابوبختری اس عہدہ پر مامورہوئے؛ ممکن ہے کہ کچھ دنوں کے لیے انھوں نے نیابت کا کام انجام دیا ہو سنہ193ھ میں ان کی وفات ہوئی۔ [55] ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ یہ امام ابویوسف رحمہ اللہ کی کتاب الآثار کے راوی ہیں، کتاب الآثار لخبۃ احیاء المعارف النعمانیہ حیدرآباد نے سنہ1355ھ میں شائع کی ہے۔

محاسنِ اخلاق

[ترمیم]

ان کا صحیفۂ اخلاق ہرقسم کے محاسن وفضائل سے پ رہے، عہدۂ قضا پررہتے ہوئے انھوں نے جس اخلاق و کردار کا ثبوت دیا، وہ ان کی خصوصیت ہے، اس عہدۂ پر پہنچنے کے بعد بڑے بڑے پاکباز لوگوں کا دامن بھی آلودہ ہوجاتا ہے؛ مگرانہوں نے اپنا دامن کبھی داغ دار نہ ہونے دیا؛ لوگوں سے ملنا جلنا، تواضع وخاکساری لوگوں کی امداد اور اعانت، علم کی عزت و توقیر، فیاضی و سیر حشمی یہ سب چیزیں اس زمانہ میں بھی ان کے ساتھ ساتھ سایہ کی طرح رہیں۔ مشہور سیرت نگار واقدی امام ابویوسف رحمہ اللہ کے ہم عصر تھے، امام ابویوسف حج میں گئے توحجاز میں ان سے ملاقات ہوئی، ان دنوں واقدی کی مالی حالت اچھی نہیں تھی، امام ابویوسف رحمہ اللہ ان کواپنے ساتھ بغداد لائے اور ہارون کے دربار میں لے گئے، یحییٰ برمکی بھی موجود تھا، پوچھا کہ قاضی صاحب مکہ سے کیا تحفہ لائے ہیں؟ امام ابویوسف نے کہا کہ میں ایسا تحفہ تمھیں دونگا کہ اس سے پہلے کبھی نہ ملا ہوگا، یحییٰ نے کہا کہ کیا ہے؟ انھوں نے واقدی کوپیش کرتے ہوئے کہا کہ یہی تحفہ ہے، اس کے بعد انھوں نے یحییٰ کے ذریعہ اس کی کافی مالی مدد کرائی۔ [56] ہارون ایک بار خطبہ دے رہا تھا، ایک شخص کھڑا ہوا اور اس کومخاطب کرکے کہا کہ خدا کی قسم! تم نے نہ تومال کی تقسیم برابر کی اور نہ عدل وانصاف سے کام لیا؛ بلکہ اس کی بجائے فلاں فلاں برائیاں کیں، ہارون نے حکم دیا کہ اس کوگرفتار کر لیا جائے، نماز کے بعد وہ پیش کیا گیا، ہارون نے ایک آدمی امام ابویوسف رحمہ اللہ کوبلانے کے لیے بھیجا، امام ابویوسف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں آیا تووہ آدمی دوعقابوں کے بیچ میں کھڑا تھا اور اس کے پیچھے دوجلاد کوڑے لیے کھڑے تھے، ہارون نے کہا کہ اس شخص نے مجھ سے آج ایسی گفتگو کی ہے کہ اس سے پہلے کسی نے نہیں کی، یہ موقع بڑا نازک تھا؛ لیکن امام ابویوسف رحمہ اللہ نے نہایت جرأت کے ساتھ ہارون کواسوۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ کیا، کہا کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غنیمت تقسیم کی، توآپ سے بھی اسی طرح کی بات چیت کی گئی تھی: وَمَا أُرِيدَ بِهَا وَجْهُ اللَّهِ،ترجمہ: غنیمت کی تقسیم مرضیٔ الہٰی کے خلاف ہوئی ہے۔

یہ کتنی سخت بات تھی؛ مگر آپ نے معاف کر دیا، کسی نے کہا: آپ نے عدل سے کام نہیں لیا، فرمایا: اگر میں عدل نہ کروں گا تواور کون کریگا؟ پھر کہنے والے سے کوئی باز پرس نہیں کہ، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اور ایک انصاری نے آپ کے سامنے کوئی معاملہ پیش کیا، آپ نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے حق میں فیصلہ کر دیا، انصاری نے غصہ میں کہا کہ اپنے پھوپھی زاد بھائی کے حق میں آپ نے فیصلہ کر دیا؛ لیکن آپ نے اس گستاخی سے درگزر کیا اور کچھ نہ فرمایا۔ ہارون کے سامنے جب یہ اُسوۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم آیا تو اس کا غصہ بالکل سرد ہو گیا اور اس شخص کو چھوڑ دینے کا حکم دیدیا۔

فیاضی اور شکر گزاری

[ترمیم]

بچپن سے فقروفاقہ کی زندگی تھی؛ مگر کبھی اس پر ناشکری کے کلمات زبان سے نہیں نکلے، فقر وفاقہ کے ساتھ ان کی شکر گزاری کا اندازہ اس واقعہ سے لگائیے، عبد اللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ ایک بار میں ان کے پاس گیا توانہوں نے مجھ سے معاشی تنگی کی شکایت کی میں نے تسلی دی جب ان کے پاس سے چلنے لگا تو دیکھا کہ مٹی کا ایک میلاسابرتن ان کے پاس رکھا ہوا ہے، وہ اتفاق سے میرے دامن سے لگ کرٹوٹ گیا اور اس کی وجہ سے ان کے چہرہ پرشکن آگئی اور رنگ فق ہو گیا؛ مگر زبان سے کچھ نہیں کہا، میں نے کہا: کیا بات ہے؟ فرمایا: یہی یہی ایک برتن تھا جس سے میں اور میری والدہ وضو کرتے تھے اور اسی سے پانی بھی پیتے تھے، عبد اللہ بن مبارک ان کا یہ حال سن کر بہت متاثر ہوئے اور کچھ رقم اُن کودی۔ [57] قاضی القضاۃ ہوئے تومال واسباب کی کافی فراوانی ہوئی اور اس منصب کے لحاظ سے بھی کچھ سازوسامان زیادہ ہو گیا؛ مگراس پرنہ وہ کبھی مغرور ہوئے اور نہ کبھی دروازہ پردربان بٹھایا؛ بلکہ آخر تک اپنی زندگی بالکل طالب علمانہ رکھی؛ پھر بھی اپنے ساتھ دنیاوی سازو سامان رکھنے کا ان کو افسوس رہا، آخر وقت میں فرماتے تھے: کاش میں فقر وفاقہ ہی کی حالت میں اس دنیا سے رخصت ہوجاتا اور یہ عہدۂ قضا قبول نہ کرتا! وہ قاضی القضاۃ ہوئے توان کودوہزار روپے سے زیادہ ماہوار تنخواہ ملتی تھی۔ [58] (اس وقت کے سکہ کے لحاظ سے دینار اور ایک ہزاردرہم تھی) پھر ہارون رشید کے دربار سے سال میں لاکھوں روپے کے انعامات ملتے تھے، اس لیے وفات کے وقت ان کے پاس کافی دولت موجود تھی؛ لیکن اس دارِ فانی سے رخصت ہونے لگے توسب کو غرباء پرتقسیم کرنے کی وصیت کرگئے؛ چنانچہ تقریباً چار لاکھ روپیے اہلِ مکہ، اہلِ مدینہ، اہلِ کوفہ اور اہلِ بغداد کو تقسیم کیا گیا۔ [59] ہارون نے ان کو کچھ خراجی زمین بھی دیدی تھی، جس پر کوئی ٹیکس نہیں لیا جاتا تھا، اس سے جو آمدنی ہوتی تھی وہ صدقہ کردیتے تھے۔ [60]

نرم خوئی اور احساسِ ذمہ داری

[ترمیم]

نہایت نرم خو اور فیاض تھے؛ مگران کی نرم خوئی اور فیاضی احساسِ ذمہ داری سے خالی نہیں تھی؛ گویہ دونوں صفتیں بہت کم جمع ہوتی ہیں؛ مگران میں یہ دونوں چیزیں جمع تھیں، ذیل کے واقعہ سے اس کا اندازہ ہو جائیگا : ایک بار ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے فلاں شخص سے آپ کی طرف سے ایک خط لکھ کر اتنے روپیے حاصل کرلیے تھے، اب وہ مجھ سے مانگتا ہے، اس سے مجھ کو چھٹکارا دلائیے، امام ابویوسف رحمہ اللہ نے اس کو قید کرنے کا حکم دیا او رکہا کہ جب تک روپیہ واپس نہ کروگے، اس وقت تک قید سے رہائی نہیں مل سکتی، اس نے کہا میں نے ایک بار اسی طرح آپ کے استاد امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی طرف سے بھی ایک فرضی خط ایک شخص کو لکھ کر روپیے حاصل کیے تھے؛ مگرجب میں نے ان کواس کی اطلاع دی توانہوں نے وہ روپیہ میری طرف سے ادا کر دیا اور فرمایا جس شخص کے بارے میں یہ خیال ہوکہ وہ میرا خط دیکھ کر تمھیں روپیہ دیدے گا توتم خط لکھ کر منگا لیا کرو، آپ بھی انہی کے اصحاب میں ہیں، آپ سے بھی مجھے یہی توقع تھی، امام ابویوسف رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میں امام ابوحنیفہ نہیں ہوں، وہ ایک جلیل القدر عالم اور فقیہ تھے، لوگ ان کا ان کے علم و فضل کی وجہ سے احترام واعزاز کرتے تھے اور اسی وجہ سے ان کے نام پر روپیہ دیدیتے تھے اور میں حکومت کا ایک ذمہ دار ہوں اس لیے اس بات کا امکان ہے جس کوتم نے لکا ہووہ روپیے دینا نہ چاہتا ہو؛ مگر میرے خوف سے اس نے دیدیا ہو، ایک دن تک اس کو مایوس رکھا؛ پھر دوسرے دن اس کواپنے پاس بلایا اور کہا جس سے تم نے روپیے لیے تھے، میں نے اس کوواپس کر دیے اور تم کورہا کرتا ہوں؛ اگروہ دوبارہ وہ رقم بطیب نفس بھی تمھیں واپس کرے تونہ لینا، جاؤ اور آئندہ ایسا نہ کرنا۔ [61]

حکومت کے تعلق اور اس کے ذمہ داروں کے نام سے عام طور پرجوفائدے حاصل کیے جاتے ہیں، امام ابویوسف نے اس کے سدباب کے لیے اس کوقید کر دیا؛ مگران کی طبعی فیاضی اور نرم خوئی کا اثر تھا کہ روپیہ بھی ادا کر دیا۔ تقویٰ اور خوفِ آخرت نہایت پاک دامن اور عفت مآب تھے، فرماتے تھے، بارالہٰا توجانتا ہے کہ میں نے کبھی کوئی حرام فعل نہیں کیا اور نہ حرام کا ایک پیشہ کھایا۔ [62] فرماتے تھے بارالہٰا! توجانتا ہے کہ جب دوآدمی میرے پاس کوئی معاملہ لاتے تومیں نے کبھی کوئی جانبداری نہیں کی او رنہ میری یہ کبھی خواہش ہوئی کہ فلاں کے حق میں فیصلہ ہو [63] خواہ وہ خلیفۂ وقت ہی کیوں نہ ہو، بارِالہٰا! اس کے بدلہ تومجھے معاف کر دے۔ ابوحفص ان روایتوں کے راوی ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ یہ نہ سمجھا جائے کہ انھوں نے آخروقت میں ایسی بات کہی ہے جس پرزندی میں ان کا عمل نہیں تھا؛ بلکہ ان کی ساری زندگی اس کی آئینہ دار تھی۔ علی بن عیسیٰ کہتے ہیں کہ میں ایک بار ایسے وقت میں امام ابویوسف رحمہ اللہ کے پاس آیا کہ مجھے گمان تھا کہ وہ آرام گاہ میں ہوں گے اور ملاقات نہ ہو سکے گی، میں نے اطلاع کرائی توفوراً اندر بلالیا، دیکھا کہ ایک علاحدہ کمرے میں لنگی باندھے ہوئے بیٹھے ہیں اور ان کے گرد کتابوں کا انبار ہے، میں نے کہا میں توسمجھتا تھا کہ آپ سے ملاقات نہ ہو سکے گی، امام ابویوسف رحمہ اللہ نے فرمایا کہ دیکھو اس کمرے کے چاروں طرف یہ الماریاں ہیں، ان میں کتابیں اور کاغذات کے بہت سے پوٹ رکھے ہوئے ہیں، یہ تمام میرے فیصلوں کی نظیریں ہیں، قیامت کے دن جب مجھ سے باز پرس ہوگی کہ تم نے فیصلے کس طرح کیے توخدا کے حضور اس کے جواب میں یہی پیش کردوں گا۔ [64] قرآن مجید کا احترام اور عبادت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے درس کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ وہ حفظِ قرآن کے بغیر اپنے درس میں کسی کوشریک ہونے کی اجازت نہیں دیتے تھے، امام محمدصاحب پہلی بار ان کی خدمت میں آئے تواُن کوپورا قرآن مستحضر نہیں تھا، اس لیے ان کوواپس کر دیا، جب پورا قرآن ان کومستحضر ہو گیا توپھر ان کودرس میں شریک ہونے کی اجازت دی، قرآن کے احترام اور اس کی تلاوت میں بھی وہ ضرب المثل تھے، امام ابویوسف بھی حافظِ قرآن تھے، قرآن کا اعزاز واحترام بھی انھوں نے استاذ سے سیکھا تھا، ایک بار کہیں جا رہے تھے، راستہ میں دوآدمی خرید وفروخت میں جھگڑا کر رہے تھے، ان میں سے ایک شخص نے اپنے ساتھی سے کہا کہ میری اور تمھاری مثال توقرآن کی اس آیت کے مطابق ہے، اس کے بعد اس نے سورۂ ص کی یہ آیت پڑھی: إِنَّ هَذَا أَخِي لَهُ تِسْعٌ وَتِسْعُونَ نَعْجَةً وَلِيَ نَعْجَةٌ وَاحِدَةٌ فَقَالَ أَكْفِلْنِيهَا۔ [65] ترجمہ:یہ میرا بھائی ہے جس کے پاس 99/دنبیاں ہیں او رمیرے پاس صر ف ایک دنبی ہے، یہ کہتا ہے کہ یہ ایک بھی مجھے دیدو۔ امام ابویوسف نے یہ سنا توان پرغصہ اور افسوس سے ایک عجیب کیفیت طاری ہو گئی، قریب تھا کہ بے ہوش ہوجائیں، جب ذرہ یہ کیفیت دور ہوئی تواس شخص سے بڑے درشت لہجہ میں کہا کہ: تواللہ سے ذرابھی ڈرتا نہیں، کلام الہٰی کوتونے معمولی بات چیت بنالی ہے، قرآن کے پڑھنے والے کوچاہیے کہ وہ اس کونہایت خشوع وخضوع اور خوف وہیبت کے ساتھ پڑھے ایسا نہ ہو کہ وہ ناراضی کا سبب بن جائے، میں تجھ میں یہ کیفیت بالکل نہیں پاتا، کیا تیری عقل جاتی رہی ہے کہ تونے کلام الہٰی کولہوولعب بنالیا ہے۔ [66] اسی طرح ایک بار ایک شخص کو سورۂ طٰہٰ کی کوئی آیت پڑھتے ہوئے سنا تو اس کوبھی بہت ڈانٹا، محمد بن فضل فرماتے ہیں کہ میں امام ابویوسف کو اس لیے ناپسند کرتا تھا کہ یہ حکومت کے ارکان سے اختلاط رکھتے ہیں؛ لیکن جس روز سے ان کویہ تنبیہ کرتے ہوئے میں نے دیکھا اس روز سے ان سے محبت کرنے لگا۔ کرردی نے لکھا ہ کہ دین کے تمام کاموں میں وہ بڑا اہتمام کرتے تھے [67] دعا کرتے تھے تودونوں ہاتھ چادر کے اندر نہیں رکھتے تھے؛ بلکہ باہر نکال کردعا کرتے تھے (اس میں سنت کی موافقت بھی مقصود رہی ہوگی اور اس صورت میں تضرع کی کیفیت بھی زیادہ پیدا ہوتی ہے)۔ موفق اور قرشی دونوں حضرات نے لکھا ہے کہ عہدۂ قضا کے قبول کرلینے کے بعد وہ سورکعت روزانہ نماز پڑھتے تھے، روزہ کا بھی بڑا اہتمام کرتے تھے؛ خصوصیت سے رجب وشعبان میں پورے مہینہ روزہ رکھتے تھے۔ [68]

احسان شناسی

[ترمیم]

امام ابویوسف، امام ابوحنیفہ اور ابن ابی لیلی دونوں حضرات کے خاص شاگرد تھے، ان دونوں اساتذہ کی احسان شناسی سے وہ پوری زندگی گرانبار رہے، ہمیشہ دونوں کے لیے دعائے مغفرت کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ میں نے جب بھی کوئی نفل یافرض نماز پڑھی توان کے لیے دُعا ضرور کی، بعض روایتوں میں ہے کہ وہ اپنے والدین سے پہلے امام صاحب کے لیے دُعا کرتے تھے۔ حاضر جوابی امام ابویوسف نہایت ذکی اور ذہین تھے، اس لیے جب کوئی بات یامسئلہ سامنے آتا تواس کا وہ فوراً جواب دیتے، ایک بار ہارون کے ساتھ حج کوتشریف لے گئے، ظہریاعصر کے وقت انھوں نے امامت کی؛ چونکہ یہ مسافر تھے، اس لیے قصر کیا یعنی دورکعت کے بعد سلام پھیر کرنمازیوں سے کہا کہ اپنی نمازیں پوری کرلو میں مسافر ہوں (حسن التقاضی:17۔ کردری:2/141) اہلِ مکہ میں سے ایک شخص نے نماز ہی میں کہا: ہم لوگ یہ مسئلہ تم سے اور جس نے ت کو سکھایا ہے، اس سے بہتر جانتے ہیں، امام ابویوسف نے کہا یہ توٹھیک ہے؛ لیکن اگرتم کویہ مسئلہ معلوم ہوتا تو نماز میں بات چیت نہ شروع کر دیتے، اس جواب پر ہارون رشید بہت خوش ہوا اور اس نے کہا کہ اگرنصف سلطنت کے بدلہ مجھے یہ جواب مل جاتا توبھی میں پسند کرتا (یہی مسنون طریقہ ہے)۔ ایک بار ہارون رشید نے اُن سے کہا کہ آپ میرے پاس بہت کم آتے ہیں میں آپ کی صحبت وزیارت کا مشتاق رہتا ہوں، امام ابویوسف رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ اشتیاق اسی وقت تک ہے جب تک کہ میں کم آتا ہوں، جب زیادہ آنے لگوں گا تویہ اشتیاق واعزاز باقی نہیں رہے گا، ہارون نے اس جواب کی تحسین کی۔ [69]

ایک لطیفہ

[ترمیم]

ایک صاحب امام ابویوسف کی خدمت میں ہمیشہ خاموش بیٹھے رہتے تھے، ایک بار ان سے فرمایا کہ تم کچھ بولتے نہیں؟ کہا کہ بہت اچھا، کچھ دیر کے بعد بولے روزہ کب افطار کرنا چاہیے، فرمایا جب آفتاب غروب ہوجائے، بولے اگرآفتاب آدھی رات تک غروب نہ ہوتو؟ یہ سن کرامام ابویوسف ہنس پڑے اور کہا کہ تمھارا خاموش رہنا ہی اچھا تھا، تمھاری زبان کھلوا کرمیں نے خطا کی۔ [70]

قوتِ حافظہ

[ترمیم]

نہایت قوی الحفظ تھے، امام ذہبی رحمہ اللہ نے انھیں حفاظ حدیث میں شمار کیا ہے، ابن جوزی رحمہ اللہ نے ان کوامت کے ان سوقوی الحفاظ لوگوں میں شمار کیا ہے، جوضرب المثل تھے؛ انھوں نے لکھا ہے کہ اپنے شیوخ حدیث سے جب وہ سماع حدیث کرتے تھے تو بسااوقات ایک ہی مجلس میں انھیں پچاس ساٹھ حدیثیں مع سند زبانی یاد ہوجاتی تھیں، ابن عبدالبر کے بیان سے بھی اسی کی تائید ہوئی ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حسن بن زیادہ کے واسطہ سے نقل کیا ہے کہ وہ ایک بار بیمار تھے؛ اسی حالت میں سفیان بن عیینہ نے چالیس حدیثیں سنائیں اور وہ سب ان کواسی وقت یاد ہوگئیں اور ان کے جانے کے بعد اپنے رفقا کووہ تمام حدیثیں مع سند سنادیں، رفقا کوان کی قوتِ حفظ پرسخت تعجب ہوا۔ ابومعاویہ کہتے ہیں کہ میں اور ابویوسف دونوں سماع حدیث کے لیے جاتے تھے، میں توشیخ سے سنی ہوئی تمام حدیثیں لکھ لیا کرتا تھا اور انھیں بغیر لکھے زبانی یاد ہوجاتی تھیں، خلیفہ ہارون رشید بھی ان کا ہم سبق رہ چکا تھا، اس سے ایک بار لوگوں نے امام ابویوسف رحمہ اللہ کی شکایت کی تواس نے کہا میں ان کے علم و فضل کوبچپن سے جانتا ہوں، یہ درس میں حدیثیں لکھتے نہیں تھے؛ مگرحافظہ ایسا قوی تھا کہ ان کوسب حدیثیں زبانی یاد ہوجاتی تھیں اور درس کے بعد لکھنے والے ان کے حفظ سے اپنی مکتوبہ احادیث کی تصحیح کرتے تھے۔ [71]

علم و فضل

[ترمیم]

امام ابویوسف رحمہ اللہ کے صحیفۂ زندگی کا سب سے جلی عنوان یہی ہے، امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ ائمہ تابعین اور تبع تابعین کے اُس دور میں تھے، جس میں علم وفن کا چرچا گھرگھر تھا، دینی علوم تفسیر وحدیث وفقہ، وسیرت، رجال وطبقات اور مذاہب اربعہ کے ائمہ اور اعاظم رجال علما اسی دور میں تھے؟ مثلاً امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ، امام مالک رحمہ اللہ، سفیان ثوری رحمہ اللہ، امام اوزاعی رحمہ اللہ، عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ، سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ، امام شافعی رحمہ اللہ، محمد بن اسحاق رحمہ اللہ، یحییٰ بن معین رحمہ اللہ، وکیع بن جراح رحمہ اللہ وغیرہ ان ائمہ کبار کی موجودگی میں کسی دوسرے کے علم و فضل کا چراغ اس وقت تک نہیں جل سکتا تھا، جب تک وہ غیر معمولی حیثیت کا مالک نہ ہوا، ان میں سے متعدد ائمہ امام ابویوسف کے استاذ تھے اور متعدد شاگرد تھے اور ان میں سے ہرایک نے ان کے علم و فضل کا جن الفاظ میں اعتراف کیا ہے، ان سے امام ابویوسف کی علمی عظمت اور بلند پائیگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ جوآسمانِ علم کے مہردرخشان تھے اور جن کے فیض صحبت سے ابویوسف، امام ابویوسف ہوئے تھے، وہ بھی ان کے مداح تھے، ایک بار امام ابویوسف رحمہ اللہ بیمار پڑے، امام صاحب رحمہ اللہ عیادت کے لیے گئے، جب وہ باہر نکلے توبہت متفکر نظر آئے، کسی نے سبب پوچھا توفرمایا: یہ جوان مرگیا تو زمین کا سب سے بڑا عالم اُٹھ جائے گا۔ [72]

علی بن صالح جو امام شعبہ اور ابن ابی ذہئب جیسے ائمہ کی صحبت میں رہ چکے تھے، جب امام ابویوسف سے روایت کرتے تھے تو فرماتے تھے، سیدالعلماء فقہ الفقہاء علما کے سردار سب سے بڑے فقیہ یعنی ابویوسف نے یہ روایت کی ہے۔ [73] علی بن جعد درس دے رہے تھے، اثنائے درس میں امام ابویوسف کا تذکرہ آگیا، کسی نے کہا کہ آپ جیسا آدمی بھی درس میں امام ابویوسف کا تذکرہ کرتا ہے؟ اُن کوبڑا رنج ہوا اور اُس شخص سے مخاطب ہوکر کہا کہ امام ابویوسف کا نام لینے سے پہلے چاہیے تھا کہ تم اپنا منہ اشنان (ایک گھاس) اور گرم پانی سے صاف کرلیتے؛ پھرفرمایا کہ مارأیت مثلہ میں نے اُن کے جیسا کوئی صاحب علم نہیں دیکھا، یہ علی بن جعد، امام مالک، سفیان ثوری، لیث بن سعد، شعبہ بن حجاج وغیرہ ائمہ فقہ وحدیث کے فیض یافتہ تھے، اس لیے ان کی یہ رائے بہت ہی اہمیت رکھتی ہے۔ [74] بشر بن ولید نے ایک شخص سے کہا کہ تم امام ابویوسف کی تعظیم نہیں کرتے میں نے ان کے مثل کسی کونہیں پایا۔ [75] ہلال الرائے کہتے تھے کہ امام ابویوسف تمام علوم کے جامع تھے، فقہ ان کے علوم میں اقل العلوم تھی۔ [76] طلحہ بن جعفر فرماتے تھے کہ امام ابویوسف مشہور و معروف تھے، ان کا علم و فضل بلند درجہ کا تھا، ان سے بڑھ کر ان کے زمانے میں کوئی نہیں تھا، علم وحکمت اور ریاست وقدر میں انتہا کوپہنچے ہوئے تھے، وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے امام ابوحنیفہ کا علم تمام عالم میں پھیلایا (مقصد یہ ہے کہ عملاً امام صاحب کے مستنبط مسائل کوسب سے زیادہ اشاعت انہی کے ذریعہ ہوئی)۔ امام صاحب کے پوتے اسماعیل بن حماد فرماتے ہیں کہ میرے دادا (ابوحنیفہ) کے خاص اصحاب دس تھے؛ لیکن ان میں امام ابویوسف سے بڑھ کرکوئی نہیں تھا، احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین، علی بن المدینی جیسے ائمہ جرح و تعدیل نے بھی ان کے علوم و فضل کا اعتراف کیا ہے اور ان کی توثیق کی ہے، ان ائمہ کے اقوال آگے آئیں گے۔ اِن اقوال سے ان کے علم و فضل کا بخوبی اندازہ ہو گیا ہوگا، اس لیے کہ معاصرین اور ائمہ رجال کے اقوال وآراء کے آئینہ میں بھی اسلاف کی زندگی کے حسن وقبح اور خط وخال بڑی حد تک نظر آجاتے ہیں؛ لیکن یہ ان کے علم و فضل کا بہرحال ایک اجمالی ہی خاکہ کہا جاےئ گا، تفصیل کے لیے ضرورت ہے کہ ان تمام فنون پربحث کی جن میں انھوں نے اپنے اجتہاد کے نقوش چھوڑے ہیں، خصوصیت سے قرآن اور حدیث و آثار کے سلسلہ میں۔

قرآن

[ترمیم]

اوپر ذکر آچکا ہے کہ وہ قرآن کے حافظ تھے، قرآن سے ان کواتنا انس وشغف تھا کہ بغیر خشوع وخضوع اور توجہ الی اللہ کے کسی کو پڑھتے ہوئے دیکھتے تھے تواس کوسخت تنبیہ کرتے تھے، اوپر یہ بھی ذکر آچکا ہے کہ امام صاحب کے عام درس میں تونہیں مگر ان کا جوخاص شورائی درس ہوتا تھا اس کی شرکت کے لیے حفظِ قرآن پہلی شرط تھی؛ چنانچہ ان کے مخصوص تلامذہ میں امام محمد، امام زفر، حسن بن زیاد، داؤد طائی، فضیل بن عیاض سب حافظِ قرآن تھے۔ امام صاحب نے یہ شرط ایک بڑے مقصد کی خاطر لگائی تھی، وہ یہ کہ امام صاحب کا طریقہ استنباط یہ تھا کہ ہرمعاملہ میں وہ پہلے کتاب اللہ کی طرف رجوع کرتے تھے، اس کے بعد آثار واحادیث کی طرف اور اسی طریقہ پروہ اپنے تلامذہ کی بھی تربیت کرتے تھے؛ پھروہ اپنے اجتہاد واستنباط کواپنے تلامذہ پرتھوپتے یاان کی صرف املا نہیں کراتے تھے؛ بلکہ وہ ہرمجتہد فیہ اور مستنبط مسئلہ کواپنی مجلس علمی میں پیش کرتے تھے اس کے بعد سب کوقرآن وسنت میں غور کرکے رائے دینے کا اختیار دیتے تھے، ظاہر ہے کہ ایسی صور تمیں کسی ایسے شاگرد کا اس مجلس میں گذر نہیں ہو سکتا تھا جوحافظِ قرآن نہ ہو اور پھراسی کے ساتھ اس میں قرآن سے اجتہاد اور استنباطِ مسائل کی پوری پوری صلاحیت موجود نہ ہو۔ امام صاحب کی ا س مجلسِ درس میں امام ابویوسف کی جوحیثیت تھی، اس کا ذکر خود امام کی زبانی اوپرآچکا ہے، اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان کوقرآن میں غور وخوض اور اس سے تخریج مسائل کا کتنا ملکہ رہا ہوگا، فرماتے تھے کہ میں نے جن مسائل میں فتوے دیے تھے، ان میں جوکتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موافق تھے، ا نہیں توباقی رکھا اور جوخلاف تھے ان سب سے رجوع کر لیا [77] یعنی امام صاحب کی مجلسِ درس میں جوکچھ حاصل کیا تھا اس کودوبارہ کتاب وسنت کے معیار پرپرکھا؛ پھراس کواختیار کیا یاچھوڑا، قرآن پرغوروخوض اور اس سے نتائج اخذ کرنے کے لیے حدیث وآثار کے علاوہ لغت عرب اور بعض دوسرے علوم سے واقفیت بھی ضروری ہے؛ چنانچہ امام ابویوسف ان تمام علوم کے جامع تھے، جن کی ضرورت ایک مجتہد کے لیے ضروری ہے، قرآن سے ان کے استدلال اور استنباط کی دوچار مثالیں یہاں پیش کی جاتی ہیں، مصارفِ زکوٰۃ کے سلسلہ میں قرآن کی یہ آیت: إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا۔ [78] ترجمہ:زکوٰۃ، فقراء مساکین اور ان کے وصول کرنے والوں کا حق ہے۔

کوآخر تک نقل کرنے کے بعد اس کی مجتہدانہ تفسیر وتفصیل کرتے ہیں۔ انھوں نے تفسیر میں آیت کی ترتیب بدل دی ہے، یعنی پہلے انھوں نے مولفۃ القلوب کولیا ہے، ان کے بارے میں عام ائمہ کی طرح ان کی بھی رائے یہی ہے کہ اب یہ مصرف باقی نہیں رہا (امام شافعی رحمہ اللہ، امام داؤد رحمہ اللہ اور دوسرے ائمہ کی رائے ہے کہ یہ اب بھی باقی ہے) پھر عاملینِ زکوٰۃ کا تذکرہ کرتے ہیں، اس میں انھوں نے ایک خاص بات یہ لکھی ہے، ان کواتنا معاوضہ دینا چاہیے کہ ان کی ضروریاتِ زندگی پوری ہوسکیں، اس میں نہتواسراف کیا جائے اور نہ بخل سے کام لیا جائے؛ اگرچہ معاوضہ اس کے اصل حصہ سے زیادہ ہی کیوں نہ ہوجائے (یعنی صدقہ میں 8/مصارف ہیں، ان میں مؤلفۃ القلوب کونکال دیا جائے تو عاملین کا حصہ 1/7 ہوا اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ خواہ ان کواصل حصہ یعنی 1/7 سے زیادہ ہی کیوں نہ مل جائے؛ مگرمیرا حال ان کی ضروریات پوری کی جائیں)۔ [79] پھرفقرأ، مساکین اور غار میں کاذکر کرنے کے بعد ابن السبیل (مسافر) کی تشریح کی ہے؛ انھوں نے یہ اجتہاد کیا ہے کہ اس میں مسافروں کی ذاتی مدد کے علاوہ ان کی راحت رسانی کے سامان کی تیاری، مثلاً راستوں کی درستی، پلوں اور مسافر خانوں کی تعمیر وغیرہ بھی داخل ہو سکتی ہے، ان کی اصل عبارت یہ ہے: وفي أبناء السبيل المنقطع بهم سهم يحملون به ويعانون۔ [80] ترجمہ:ایک حصہ مسافروں کا ہے جس کے ذریعہ ان کے لیے سواری اور راحت رسانی کا سامان کیا جائے۔ اس کے بعد رقاب (گردن چھڑانا) کا تذکرہ کیا ہے؛ پھرفی سبیل اللہ کے مصرف کی تفصیل کی ہے، اس سلسلہ میں ان کا رحجان فی سبیل اللہ میں وسعت کی طرف معلوم ہوتا ہے، ان کے الفاظ یہ ہیں: وسهم فِي إصلاح طرق المسلمي۔ [81] ترجمہ:ایک حصہ مسلمانوں کے عام اصلاح وترقی کے لیے مخصوص ہونا چاہیے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ فقراء ومساکین کا حصہ توخود اس بستی یاشہر کے مستحقین میں تقسیم کر دیا جائے؛ مگردوسرے مصارف یں امام وقت کواختیار ہے؛ خواہ اسی جگہ صرف کر دے یادوسری جگہ بھیج دے؛ اسی طرح غنیمت وفی کا جہاں تذکرہ کیا ہے، وہاں قرآن کی تمام آیات کوجمع کرکے بہت سے لطیف نکتے پیدا کیے ہیں؛ ہم یہاں ان کی پوری عبارت نقل کرتے ہیں؛ تاکہ ان کی وسعت نظر کا اندازہ کیاجاسکے: وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ۔ [82] ترجمہ:جان لوکہ بیشک جوتم مالِ غنیمت حاصل کرو اس میں پانچواں حصہ اللہ اور رسول اور ذوالقربیٰ کا ہے۔ یہ آیت غنیمت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ اس میں 1/5 تو ان کا حصہ ہے جن کا ذکر قرآن میں موجود ہے اور 4/5 فوج کا ہے اور فوج میں وہی لوگ شامل نہیں ہیں جوباقاعدہ حکومت کے ملازم ہیں یاان کوحکومت نے مقرر کیا ہو؛ بلکہ اس میں وہ لوگ بھی حصہ دار ہوں گے جو ڑضاکارانہ شریک جہاد ہوئے ہیں (یہ بات راقم کو کسی اور جگہ نظر نہیں آئی)۔

اس سلسلہ میں ایک بحث یہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس مختلف قسم کی سواریاں ہیں ان میں سے کس کوکتنا حصہ ملنا چاہیے، مثلاً کسی کے پاس اچھے قسم کا گھوڑا ہے، دوسرے کے پاس ذرا گھٹیا قسم کا؛ اسی طرح دوسری سواریاں ہیں توکیا ان سب کوبرابر حصہ ملے گا، یاسب کوان کی سواری کی حیثیت کے مطابق ملے گا، بعض لوگ اس میں حیثیت کا لحاظ کرتے ہیں مگرامام ابویوسف رحمہ اللہ کی رائے ہے کہ : ولايفضل الخيل بعضها عَلَى بعض۔ ترجمہ: اور بعض گھوڑٰں کوبعض پرترجیح نہیں ہوگی۔ [83] استدلال میں وہ قرآن کی یہ آیت پیش کرتے ہیں: وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا۔ [84] ترجمہ اور بعض گھوڑوں کوبعض پرترجیح نہیں ہوگی۔ دوسری جگہ قرآن میں ہے: وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَااسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ۔ [85] ترجمہ:اپنی طاقت پھرتیار کرواسلحہ اور پہلے ہوئے گھوڑوں؛ تاکہ ان کے ذریعہ رعب ڈال سکو خدا کے اور اپنے دشمنوں پر۔ مقصد یہ ہے کہ ان آیات میں کوئی تخصیص نہیں ہے؛ بلکہ فائدہ کے لحاظ سے سب کوایک ہی صف میں رکھا گیا ہے، مزید استدلال کے لیے وہ عربوں کے استعمالات سے بحث کرتے ہیں: والعرب تقول هذه الخيل، وفعلت الخيل، لايعنون بذلك الفرس دون البرذون۔ [86] ترجمہ:عرب بولتے ہیں کہ یہ گھوڑے ہیں یاگھوڑوں نے یہ کیا ہے تواس سے صرف اعلیٰ درجہ کے گھوڑے ہی مراد نہیں لیتے ہیں بلکہ کم ترجہ کے گھوڑے بھی مراد لیتے ہیں۔ اس استدلال کے بعد اس پردیگر مسائل کوقیاس کرتے ہیں: ولايفضل الفرس القوي عَلَى الفرس الضعيف ولايفضل الرجل الشجاع التام السلاح عَلَى الرجل الجبان الذي لاسلاح معه إلاسيفه۔ [87] ترجمہ:اس سلسلہ میں کسی تندرست گھوڑے کوکمزور پرترجیح نہیں ہوگی اور نہ کسی بہادر آدمی کوجواسلحہ سے پورے طور پر لیس ہواس شخص پرترجیح ہوگی جس کے پاس ایک تلوار کے علاوہ کچھ نہ ہو۔ ان مثالوں سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ وہ قرآن میں کس قدر غوروخوض کرتے تھے اور اس سے نتائج کے اخذ کرنے میں کتنی وسعتِ نظر سے کام لیتے تھے اور اجتہاد واستنباط میں شریعت کی روح کوکس قدر سمجھنے کی کوشش کرتے تھے۔ ان کے ان اجتہادات سے دوباتیں خاص طور پرواضح ہوتی ہیں (1)ایک یہ کہ حکومت کی فوج کے افراد اور وہ مجاہدین جورضا کارانہ طور پرشریکِ جہاد ہوں دونوں کے ساتھ یکساں معاملہ کیا جائے گا (2)دوسرے یہ کہ صرف سامان کی فراوانی کوئی چیز نہیں ہے؛ بلکہ اصل چیز نیت اور وہ جذبہ ہے جواسے اس خدمت پرکھینچ کرلایا ہے؛ ممکن ہے ایک ہوائی جہاز سوار کے دل کے اندر کوئی جذبۂ خیرموجود نہ ہو اور ایک خالی ہاتھ مجاہد جومجاہدین کی معمولی خدمت میں لگایا ہو اس میں طیارہ سوار سے زیادہ جذبہ موجود ہو اس کا اندازہ توبہرحال لگایا نہیں جا سکتا، اس لیے صرف سامان کی زیادتی کی بنا پرکسی کوزیادہ سے حصہ دینا اور کسی کوکم دینا مناسب نہیں ہے؛ بلکہ جب باطن کا حال معلوم نہیں ہے توحکم ظاہری پرہونا چاہیے، یعنی جوبھی ایک طرح کے کام میں لگا ہوا ہے اس کوبرابر حصہ ملنا چاہیے اور پھرجن کی مصلحت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ایک ہی طرح کے کام کرنے والوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے؛ ورنہ معمولی کاموں کولوگ دلچسپی کے ساتھ انجام نہ دیں گے۔

حدیث و آثار

[ترمیم]

حدیث و آثار میں ان کی حیثیت امام کی تھی اوپر ذکر آچکا ہے کہ سماع حدیث کا اتنا شوق تھا کہ ایک طرف امام صاحب کی مجلس درس میں فقہ کی تحصیل کرتے تھے پھر وہاں سے فرصت پانے کے بعد ان شیوخ کی حدمت میں حاضر ہوتے تھے، جن کے یہاں صرف حدیث کا املا وسماع کرایا جاتا تھا، بعض روایتوں میں ہے کہ یہ جس وقت امام صاحب کے درس میں شرکت کے لیے گئے تھے اس وقت ان کا شمار حفاظِ حدیث میں ہوتا تھا [88] یہ بات تعجب خیز اس لیے نہیں ہے کہ ان کے حافظہ کا حال یہ تھا کہ وہ ایک مجلس میں جتنی حدیثیں سنتے تھے وہ ان کو مع سند زبانی یاد ہوجاتی تھیں (یعنی راویوں کے ساتھ حدیث کا حفظ بہت غیر معمولی بات ہے)۔ ابومعاویہ ایک محدث ہیں، جو بغداد میں درس حدیث دیتے تھے، ان کے پاس مشہور محدث حجاج بن آرطاۃ کی مرویات کا ذخیرہ بہت تھا؛ انھوں نے اپنے تلامذہ سے فرمایا کہ امام ابویوسف کی موجودگی میں میرے پاس آنے کی کیا ضرورت ہے، حجاج کی روایت کا ذخیرہ ان کے پاس ہم سے زیادہ ہے، ان کا حال تویہ تھا کہ ہم درس حدیث میں جوحدیثیں سنتے تھے؛ انھیں لکھ لیتے تھے او ران کوبغیر لکھے ہوئے زبانی یاد ہوجاتی تھیں اور یاد بھی اس صحت کے ساتھ ہوجاتی تھیں کہ ہم اپنی مکتوبہ احادیث کی ان سے صحت کرتے تھے [89] اسی طرح ہارون اور دوسرے ائمہ حدیث نے بھی ان کے حفظ حدیث کی توثیق کی ہے۔ امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کوحفاظِ حدیث کے چھٹے طبقہ میں شمار کیا ہے، جس میں یحییٰ بن معین، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، عبداللہ بن مبارک، سفیان بن عیینہ رحمہم اللہ وغیرہ ہیں، امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام ابویوسف رحمہ اللہ کے حالات پرایک الگ رسالہ لکھا ہے، جواب احیاء المعارف النعمانیہ، حیدرآباد کی طرف سے شائع ہو گیا ہے۔ امام مزنی رحمہ اللہ سے کسی نے ائمہ عراق کے بارے میں پوچھا توانہوں نے امام صاحب کے بارے میں کہا: سیدہم، سب کے سردار، امام ابویوسف رحمہ اللہ کے متعلق کہا: اتبعہم للحدیث، ترجمہ ان میں سب سے زیادہ حدیث کی پیروی کرنیوالے۔

امام محمد کی بابت کہا: سب سے زیادہ مسائل اخذ کرنے والے اور امام زفر رحمہ اللہ کے بارے میں کہا: قیاس میں سب سے بہتر [90] یحییٰ بن معین فرماتے تھے میں نے ائمہ مجتہدین میں ان سے زیادہ ثبوت اور حفظ فی الحدیث اور صحیح روایت کرنے والا نہیں پایا؛ انہی کا قول ہے کہ امام ابویوسف، صاحب حدیث اور صاحب سنت تھے، وہ اصحاب حدیث کی طرف مائل تھے۔ امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ اوّل جب مجھ کوحدیث کی تحصیل کا خیال پیدا ہوا توامام ابویوسف کی خدمت میں گیا (امام احمد بن حنبل کا یہ جملہ بڑا معنی خیز ہے، اس دور میں بیشمار محدثین تھے؛ مگرحدیث کے سلسلہ میں منصفانہ مزاج رکھنے والے بہت کم تھے،ایک طرف کچھ لوگ محض روایت پرستی میں مبتلا تھے، دوسری طرف کچھ اس سے بے نیاز ہو گئے تھے، تفصیل آگئے آتی ہے) اور انھی کا قول ہے کان منصفانی الحدیث، ترجمہ:حدیث میں انصاف پسند تھے۔ علی المدینی فرماتے تھے کہ ابویوسف صدوق حددرجہ سچے تھے۔ حدیث وآثار کے بارے میں یحییٰ بن معین، احمد بن حنبل اور ابن المدینی کی رائے بہت قیمتی سمجھی جاتی ہے، ان تینوں بزرگوں کی متفقہ رائے ہے کہ امام ابویوسف حدیث میں غیر معمولی مہارت رکھتے تھے؛ لیکن اگران ائمہ میں کسی کی رائے ہم کونہ بھی معلوم ہوتی تب بھی حدیث وآثار میں ان کا جوکارنامہ اور ان کی جوقلمی یادگاریں ہیں وہ خود حدیث میں ان کی مہارت اور غیر معمولی درک کا پتہ دیتی ہیں، حدیث وآثار کے سلسلہ میں ان کی دوکتابیں ہیں ایک کتاب الآثار جس کے راوی ان کے صاحبزادے یوسف ہیں، دوسری کتاب الخراج جس کوخود انھوں نے مرتب کیا ہے، کتاب الآثار میں احادیث وآثار کی تعددا ایک ہزار سے زائد ہے، کتاب الخراج کا موضوع گوخالص فقہی ہے؛ مگراس میں مشکل سے کوئی مسئلہ ایسا ہوگا جس کے لیے قرآن یاحدیث یاآثار نبوی یاآثار صحابہ سے دلیل نہ لائی گئی ہو۔ امام ابویوسف کے زمانہ میں عام طور پر درس کا طریقہ یہ تھا کہ شیوخ حدیث اپنے تلامذکوحدیث کا املاکرادیتے تھے اور ائمہ فقہ صرف فقہ کا درس دیدیتے تھے؛ لیکن امام ابویوسف کے در سکی یہ خاص خصوصیت تھی کہ وہ دونوں کا مجمع البحرین ہوتا تھا وہ درس میں نہ توصرف اخبرنا وحدثنا ہی پراکتفا کرتے تھے اور نہ قال اقوال ہی پربلکہ اگرایک حدیث سناتے تھے تواسی کے ساتھ اس سے اخد کیے ہوئے نتائج ومجتہدات کوبھی طلبہ کے سامنے رکھتے جاتے تھے۔ علی مدینی فرماتے ہیں کہ جب امام ابویوسف رحمہ اللہ سنہ180ھ میں بصرہ آئے توہم لوگ ان کی خدمت میں استفادہ کے لیے پہنچے ان کا طریقہ درس یہ تھا کہ اگروہ دس حدیثیں بیان کرتے تودس فقہی رائیں بھی اُن کے ساتھ پیش کرتے تھے۔ [91] حدیث والی صرف اس کا نام نہیں ہے کہ جوروایت اپنے شیخ سے سنی اس کوطلبہ کے سامنے رکھ دیا یااملا کرادیا بلکہ اس کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ اس سے مسائل اخد کیے جائیں اس سے اجتہاد واستنباط کیا جائے؛ تاکہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے زندگی کے ہمہ گیرنظام کے لیے زائد سے زائد روشنی حاصل کی جاسکے؛ چنانچہ حدیث کے سلسلہ میں انھوں نے بھی دونوں طرح کی خدمتیں انجام دیں؛ مگران کا اصلی کارنامہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استخراج مسائل ہے، اعمش مشہو رامام حدیث (اِن کے شیوخ میں ہیں) نے ایک مرتبہ امام ابویوسف سے کوئی مسئلہ پوچھا: جواب سن کرفرمایا: کہ یہ کہاں سے اخذ کیا؟ کہا کہ فلاں حدیث سے اعمش نے ہنس کرکہا کہ یہ حدیث مجھ کو اس وقت سے یاد ہے، جب تمھارے والد کی شادی بھی نہیں ہوئی تھی؛ مگرمیں اس سے یہ مسئلہ مستنبط نہ کرسکا تھا۔ خراج کے موضوع پرخود ان کے زمانہ میں اور اس کے بعد بھی بہت سی کتابیں لکھی گئیں؛ مگرسب کی سب بغیراستثنا نقل وروایت کا مجموعہ ہیں، اجتہاد واستنباط کی کوئی علامت ان میں نہیں پائی جاتی؛ مزید تفصیل تصانیف اور اجتہاد و استنباط کے عنوان کے تحت آئے گی؛ یہاں صرف ان کا ایک قول نقل کر دیا جاتا ہے، فرماتے تھے کہ بارِالہٰا! میں نے کتاب اللہ سے اس کے بعد سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ مسائل کیا ہے؛ لیکن جہاں مجھے سنتِ نبوی نہیں ملی، وہاں میں نے امام صاحب کے قول پرعمل کیا۔ مختصر طور سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ امام ابویوسف، امام صاحب کے اصحاب میں سب سے زیادہ حدیث والے تھے؛ لیکن ان کا یہ اصول تھا کہ وہ تحدیث روایت کوبغیر روایت کے صحیح نہیں سمجھتے تھے، فرماتے تھے کہ جومحض کثرتِ روایت کے ساتھ جوحدیث طلب کریگا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرکچھ نہ کچھ ضرور جھوٹی تہمت لگادے گا ان کا دوسرا بیان ہے کہ جو مشہور و معروف احادیث کو چھوڑ کرشوادہ کے پیچھے دوڑے گا وہ آپ پرجھوٹ باندھے گا۔ [92]

فقہ

[ترمیم]

ان کے علم و فضل کا سب سے وسیع میدان یہی ہے کہ اس میں انھوں نے تمام علوم سے زیادہ اپنی جودت طبع اور جولانی فکر کا ثبوت دیا ہے اور فقیہ ہی کی حیثیت سے دنیا ان کوجانتی ہے، امام صاحب ان کو افاقہ اصحابی میرے اصحاب میں سب سے زیادہ فقیہ فرماتے تھے، علی بن صالح ان کوافقہ الفقہاء اور سیدالفقہا کہتے تھے، یحییٰ بن معین فرماتے تھے: افقہم، اہلِ عراق میں سب سے زیادہ افقہ تھے، فقہ میں ان کی متعدد یادگاریں ہیں، جن کا تذکرہ آگے آئے گا، ان کی صرف ایک کتاب اختلاف ابن ابی لیلیٰ وابی حنیفہ ان کے تفقہ کے ثبوت کے لیے کافی ہے، تفصیل آگے آئے گی۔ ان کا دوسرا بڑا کارنامہ اصولِ فقہ کی تدوین ہے، باقاعدہ (باقاعدہ کی قید اس لیے لگائی گئی ہے کہ یہ فن امام ابویوسف کا ایجاد کردہ نہیں ہے؛ بلکہ قرآن وسنت کے کلیات کوسامنے رکھ کرصحابہ اور تابعین نے بہت سے مسائل مستنبط کیے تھے؛ انہی اصول وکلیات اور صحابہ کے مستنبط مسائل کی روشنی میں انھوں نے اصولِ فقہ مرتب کیا، امام ابویوسف سے پہلے اس موضوع پرایک کتاب خود امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے بھی لکھی تھی، جوکتاب الرائے کے نام سے مشہور ہے) اصولِ فقہ کی تدوین اس سے پہلے نہیں ہوئی تھی، امام ابویوسف پہلے شخص تھے؛ جنھوں نے اس فن کوباقاعدہ مدون کیا، افسوس ہے کہ یہ کتاب ناپید ہے، تذکرون میں صرف اس کا تذکرہ ملتا ہے، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں بھی منقول ہے کہ وہ اصولِ فقہ کے سب سے پہلے مؤلف ہیں، یہ دونوں باتیں اپنی جگہ پرصحیح ہیں، اس لیے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فقہ کی طرح اصولِ فقہ کی بھی تجدید کی اور ان کی تجدید صرف فروع تک نہیں بلکہ اصول میں بھی تھی، اس لحاظ سے ان کواس فن کا پہلا مؤلف قرار دے سکتے ہیں؛ مگرحقیقتاً تقدم، امام صاحب اور ان کے تلامذہ ہی کوحاصل ہے، فقہ حنفی کی جس کتاب کو بھی اُٹھا کر دیکھیے اس میں امام ابویوسف کے اقول، مجتہدات اور استنباطات ملیں گے؛ لیکن پھر بھی ان کا فقہی کارنامہ امام محمد کے مقابلہ میں کم ہے؛ گوامام محمد کی کتابیں ان سے استفادہ کی بہت زیادہ مرہونِ منت ہیں۔

فرائض

[ترمیم]

فرائض یعنی وہ فن جس میں وصیت اور وراثت کی تقسیم کے مسائل بیان کیے جاتے ہیں، یہ فقہ ہی کا ایک شعبہ ہے؛ مگر اہمیت کے لحاظ سے یہ مستقل ایک فن ہو گیا ہے، اس فن کے لیے سب سے زیادہ ضرورت حساب ذاتی کی ہے، امام صاحب کے تلامذہ میں امام ابویوسف اور امام محمد دونوں اس حیثیت سے ممتاز تھے، امام ابویوسف فرماتے تھے کہ میں نے فرائض کے مسائل ایک مجلس میں امام صاحب سے سیکھ لیے تھے، امام ابویوسف اس سے صرف واقف ہی نہیں تھے؛ بلکہ اس میں مجتہدانہ نظر رکھتے تھے، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں اس فن کے جاننے والے متعدد حضرات تھے؛ مگران میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ خاص طور پر ممتاز تھے؛ چنانچہ امام ابویوسف رحمہ اللہ اس میں اکثر انہی کا اتباع کرتے تھے، کہتے تھے کہ جہاں ان دونوں بزرگوں میں اختلاف ہوجاتا ہے وہاں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رائے کو ترجیح دیتا ہوں [93]اس کی وجہ یہ بیان کرتے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت زید رضی اللہ عنہ سے زیادہ قوتِ فیصلہ رکھتے تھے؛ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ اقضاکم علی، تم میں سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے علی ہیں، ان علوم کے علاوہ دوسرے دینی علوم جوقرآن وسنت کے لیے ذریعہ کی حیثیت رکھتے ہیں مثلاً تاریخ، سیرت، ادب ونحو اور ایام عرب وغیرہ سے بھی واقف تھے؛ اسی بناپرامام صاحب فرماتے تھے کہ میرے اصحاب میں یہ سب سے زیادہ جامع العلم ہیں ان کی مہارت کا اندازہ ان کی کتابوں سے ہوتا ہے، خصوصیت سے کتاب الخراج میں اس کی مثالیں بکثرت ملیں گی۔ [94] اُوپرذکر آچکا ہے کہ سیرت ومغازی میں انھوں نے محمد بن اسحاق سے استفادہ کیا تھا، جو اس وقت اس فن کے امام تھے، عربی ادب ولغت کا بصرہ کے بعد دوسرا مرکز کوفہ کا تھا وہی ان کامولد ہے؛ پھرامام ابویوسف خالص عرب النسل تھے، اس لیے ان علوم کی تحصیل کی ان کوقطعاً ضرورت نہیں تھی؛ اسی طرح نحو یعنی قواعد عرب کے سیکھنے کی بھی ضرورت ان کونہیں تھی؛ مگر پھر بھی وہ ایک فن بن گیا تھا، اس لیے اس کوبقدرِ ضرورت حاصل کیا، خود فرماتے ہیں کہ میں نے ایک ماہرنحوی سے نحو کے مسائل کوایک مجلس میں حاصل کر لیا؛ ممکن ہے اس سے مراد کسائی یاسیبویہ ہوں۔ علم تاریخ سے ان کی واقفیت کا اندازہ لگانے کے لیے ان کی کتاب الخراج کا مطالعہ کافی ہے، ان کا طریقہ یہ ہے کہ جوباتیں تاریخ سے متعلق ہوتی ہیں ان کی مختصر تاریخی حیثیت واضح کرنے کے بعد پھرشرعی حیثیت بیان کرتے ہیں، مثلاً اہلِ سواد کا تذکرہ کرتے ہوئے انھوں نے خراسان، مصر، افریقہ اور سندھ وغیرہ پربڑی جامع گفتگو کی ہے؛ پھراسی طرح جزیہ کے بیان کے سلسلہ میں بعض مقامات اور قبائل کی تاریخی حیثیت واضح کی ہے؛ اگرکسی جگہ کے بارے میں ان کوخود علم نہ ہوتا تھا تووہ جاننے والوں سے دریافت کرکے لکھتے تھے؛ چنانچہ جب ہارون نے ان سے اہلِ شام اور اہلِ جزیرہ کے بارے میں دریافت کیا توامام ابویوسف کوچونکہ ان کی تاریخی حیثیت معلوم نہیں تھی، اس لیے انھوں نے حیرہ کے کسی صاحب نظرواقف کارکولکھا؛ چنانچہ ان کا جو جواب آیا، امام ابویوسف نے اسی کو کتاب میں نقل کر دیا، اس کے چند ابتدائی الفاظ یہاں نقل کیے جاتے ہیں: جزیرہ قبل اسلام دوحصوں میں منقسم تھا، ایک رومی عیسائیوں کے قبضہ میں تھا، دوسرا ایرانیوں کے اور ان میں سے ہرایک حکومت اپنی فوج رکھتی تھی اور محصل مقرر کرتی تھی، راس العین سے فرات تک کا علاقہ حکومتِ روم کے قبضہ میں تھا اور نصیبین اور اس کی پشت کا علاقہ دجلہ تک حکومت ایران کے ماتحت تھا؛ اسی طرح سیل ماردین اور دارا سے سنجارتک کا حصہ اہلِ فارس کا مقبوضہ تھا اور جیل ماردیں وداراوطور وعبدین اہلِ روم کا، اِن حکومتوں کی سرحدوں پرایک سرحدی چوکی کے طور پرایک قلعہ تھا، جوحصن سرجا کے نام سے مشہور تھا، قبل از اسلام کی تاریخ بیان کرنے کے بعد اسلام کے بعد کی تاریخ بیان کی ہے، خط وتردوتین صفحہ کا ہے؛ مگراس میں پچاسوں صفحے کے مضمون کوانہوں نے سمیٹ لیا ہے۔ بہرنوع امام ابویوسف کے اندروہ تمام صلاحیتیں اور علم و فضل کی وہ تمام لیاقتیں موجود تھیں جوایک مجتہد کے لیے ضروری ہیں، اب ہم ان کے اجتہاد واستنباط پرمفصل بحث کرتے ہیں۔

اجتہاد و استنباط

[ترمیم]

عموماً مجتہدین کی دوقسم مانی جاتی ہے، ایک مجتہد مطلق غیر منتسب (اگرمجتہد مطلق غیر منتسب کا مطلب یہ ہے کہ ان کا اجتہاد کسی کے فیض ترتیب کا امرہوں منسب بھی ہے توپھراسی لحاظ سے مجتہد مطلق غیر منتسب توسوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا، مجتہد مطلق منتسب کی تعریف میں ائمہ اربعہ داخل ہو سکتے ہیں؛ مگرعام طور پرائمہ اربعہ کو پہلی قسم میں شمار کیا گیا ہے؛ حالانکہ ان ائمہ میں سے ہرایک کسی نہ کسی صحابی یاتابعی کی طرف منتسب ہے) دوسرے مجتہد منتسب مطلق یا مجتہد مطلق مقید بمذہب، متاخرین علمائے احناف کی کتابوں میں ائمہ مجتہدین اور اصحاب فتاویٰ کے درجات کی جوتقسیم کی گئی ہے اس میں یہ کہا گیا ہے کہ امام ابویوسف امام محمد وغیرہ مجتہد مطلق نہیں؛ بلکہ مجتہد فی المذہب تھے، مجتہد مطلق سے مراد یہ ہے کہ جن لوگوں نے کتاب وسنت سے براہِ راست اجتہاد کے اصول مرتب کیے اور اس سے تفریع مسائل کی، جیسے ائمہ اربعہ تھے، مجتہد فی المذہب یامجتہد منتسب ان کوکہتے ہیں کہ جنھوں نے ان ائمہ کے مرتب کردہ اصول کی روشنی مسائل کی تخریج کی، جیسے امام ابویوسف رحمہ اللہ، امام محمد اور دوسرے ائمہ کے مشہور تلامذہ؛ بعض فقہ وتذکرہ کی کتابوں میں یہ بھی درج ہے کہ صاحبین فرماتے تھے کہ ہم نے امام صاحب سے جہاں اختلاف کیا ہے اور ان کے قول کومرجوع قرار دیا ہے، وہ بھی امام صاحب ہی کا قدیم قول تھا، جسے انھوں نے مرجوح سمجھ کرترک کر دیا تھا؛ اِسی طرح کے اور بھی اقوال منقول ہیں، جن سے ان کا مجتہدمقید بہ مذہب ہونا معلوم ہوتا ہے؛ مگریہ کہنا بڑا ظلم ہے کہ صاحبین امام صاحب کے مقلد محض تھے؛ حالانکہ وہ خود امام اور مجتہد مطلق تھے، یہ ان کی احسان شناسی ہے کہ انھوں نے اپنی ذا تاپنے اساتذہ سے بے نیاز کرکے دنیا کے سامنے پیش نہیں کیا؛ حالانکہ وہ کرسکتے تھے؛ پھرامام ابویوسف کواور امام محمد کواجتہاد واستنباط میں ائمہ ثلاثہ امام مالک، امام شافعی اور امام احمد سے گھٹانا اورکم رتبہ قرار دینا بھی بڑی زیادتی ہے، جب کہ خود ان ائمہ اور ان کے مشہور تلامذہ نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ یہ لوگ اجتہاد واستنباط میں ان سے کسی طرح کم نہ تھے، اس کی تفصیل توہم ائندہ کریں گے، ہم پہلے مختصراً اجتہاد واستنباط کی تعریف اس کے اصول وشرائط پربحث کرتے ہیں؛ تاکہ اندازہ ہوجائے کہ یہ ائمہ فقہ خصوصیت سے امام ابویوسف مجتہد مطلق تھے یامجتہد منتسب، اجتہاد کی تعریف علما نے یہ کی ہے: ہواستفراغ المجہود فی استنباط الحکم الفرعی عن دلیلہ۔ ترجمہ:اصل سے کسی فروعی سلسلہ کے استنباط میں اپنی وسعت بھرکوشش کرنے کا نام اجتہاد ہے۔

(اصول فقہ کی کتابوں میں اس کی متعدد تعریفیں کی ہیں، یہ تعریف بڑی جامع اور مانع ہے، تفصیل کے لیے ارشادالفحول امام شوکانی اور المستصفیٰ امام غزالی اور الاحکام آمدی کی طرف رجوع کرنا چاہیے)۔ اجتہاد کے اصول وشرائط کیا ہونے چاہیں، اس میں مختلف رائیں ہیں، جوچیزیں سب میں مشترک ہیں وہ حسب ذیل ہیں: (1)کتاب اللہ کا عالم ہو، یعنی قرآن کے لغوی اور شرعی معانی سے واقف ہو، اس کے طرزِ کلام کوجانتا ہو، افراد وترکیب اور ناسخ ومنسوخ پراس کی نظر ہو۔ (2)سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اسے درک ہو، یعنی روایات کی سند اور ان کی متون سے واقف ہو، بعض لوگوں نے قراان کی آیات اور احادیث کی تعداد پربھی بحث کی ہے، یعنی یہ کہ مجتہد کے لیے کتنی آیتوں اور حدیثوں میں بصیرت پیدا کرنا ضروری ہے؛ مگریہ بحث فضول ہے، مجتہد کے لیے پورے قرآن اور احادیث کے تمام متداول ذخیروں پرنظر رکھنی ضروری ہے۔ (3)اجماع کے موارد اور مواقع سے واقف ہو۔ (4)قیاس کے شرعی طریقوں سے وافق ہو۔ ان شرائط کوسامنے رکھیے اور پھرامام ابویوسف کے علم و فضل اور کتاب وسنت آثارصحابہ اور تعدیل صحابہ سے ان کی واقفیت کا جوذکر اوپر کیا گیا ہے، اس پرایک نظر ڈالیے اور دیکھیے کہ کیا ان کے مجتہد مطلق قرار دینے کے لیے وہ کافی نہیں ہے؛ پھرامام صاحب کا طریقہ درس اس قدر مجتہدانہ ہوتا تھا کہ اس میں موارد اجماع اور وجود قیا سکی ہرروز مشق ہوتی تھی، اوپر امام صاحب کے طریقہ درس کا مختصراً تذکرہ آچکا ہے، اس لسلسہ میں چند اور باتیں پیش کی جاتی ہیں: امام صاحب کے سامنے جب کوئی نیا مسئلہ پیش ہوتا وہ اپنے ممتاز تلامذہ سے پوچھتے کہ تم لوگوں کے پاس اس بارے میں کوئی حدیث نبوی یااثر صحابہ موجود ہے، تلامذہ اپنی اپنی معلومات کے بقدر آثار واحادیث پیش کرتے اس کے بعد امام صاحب کوجومعلومات ہوتیں وہ سب کے سامنے رکھتے؛ پھروہ اس میں غور کرتے؛ اگرآثار مختلف ہوتے توجس قول کی تائید میں نقلی دلائل ان کوزیادہ ملجاتے تواسی کے مطابق فیصلہ کردیتے؛ اگرآثار تقریباً برابر ہوتے توپھرغور وخوص کرکے کوئی رائے قائم کرتے، ظاہر ہے کہ یہ مشق و تمرین اسی لیے توکرائی جاتی تھی کہ ان میں شانِ اجتہاد پیدا ہو؛ اسی بناپر امام صاحب کے مسلک کوشورائی مسلک کہا جاتا ہے، کردری کا بیان ہے: مذہبہ شوریٰ بینہم ولم یستبد فیہ بنفسہ دونہم اجتہاد امنہ فی الدین۔ ترجمہ:ان کا مسلک شورائی تھا، یعنی وہ اپنے تلامذہ سے ہرمسئلہ میں مشورہ کرتے تھے اور کسی دینی مسئلہ ہی اجتہاد کرتے وقت وہ نہ توخودر ائی سے کام لیتے تھے اور نہ اپنی رائے کوتلامذہ پرتھوپتے تھے۔ پھران کے طریقہ درس کے بارے میں لکھتے تھے: فکان یطرح مسئلہ مسئلہ لہم ثم یسئال مَاعندہم ویقول ماعندہ وہم نیاظرہم فی کل مسئلہ شہرا اوکثر ویاتی یدلائل ثم یثبتہا الامام ابویوسف فی الاصول۔ [95] ترجمہ:وہ ایک ایک مسئلہ کوباری باری تلامذہ کے سامنے رکھتے تھے؛ پھراس کے بارے میں ان سے سوال کرتے تھے اور اس بارے میں ان کی رائے اور دلائل سننے کے بعد اپنی رائے اور اپنی دلیل پیش کرتے تھے اور پھران سے مباحثہ کرتے تھے؛ یہاں تک کہ ایک ایک مسئلہ میں بحث ومباحثہ کرتے ایک مہینہ یااس سے بھی زیادہ دن لگ جاتے تھے؛ پھرا سکے بعد امام ابویوسف اس مسئلہ کواصولِ مذہب میں داخل کرلیتے تھے۔ اور نہ صر ان کا طریقہ درس ہی ایسا تھا کہ اس سے اجتہاد واستنباط کی صلاحیت پیدا ہوجاتی تھی؛ بلکہ تلامذہ کویہ عام ہدایت تھی کہ: لایحیل لاحد ان یقول بقولی مالم یعلم من این قلت۔ [96] ترجمہ: کسی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ میری کسی رائے کے مطابق کوئی فتویٰ دے جب تک کہ اس کویہ نہ معلوم ہوجائے کہ میں نے یہ رائے کسی دلیل کی بناپرقائم کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام صاحب کے جن مجتہدات کوان کے تلامذہ نے اپنی تحقیق میں کتاب وسنت کے مطابق نہیں پایا ان سے اختلاف کیا اور ان کے مقابلہ میں اپنے مجتہدات پیش کیے اور یہ اختلاف صرف دوچار مسائل میں نہیں ہے بلکہ بعض فقہا کے قول کے مطابق امام صاحب سے دوثلث مسائل میں صرف صاحبین یعنی امام ابویوسف اور امام محمد نے اختلاف کیا ہے، امام زفر کے اختلافات اس کے علاوہ ہیں، ان تصریحات سے آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ مجتہد مطلق تھے یامجتہد فی المذہب؟۔ عام فقہائے احناف نے اجتہاد واستنباط کے لحاظ سے مجتہدین کے درجات کی جوتقسیم کی ہے، اس موقع پراس کومختصراً پیش کرنے کے بعد اس کی تردید میں جوکچھ لکھا گیا ہے اس کا پیش کردینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے۔ مجتہدین کے درجات کی تفصیل ابن حجر مکی نے شن الغارہ میں جو کی ہے اسی کو شاہ ولی اللہ صاحب رحمہ اللہ اور مولانا عبد الحئی صاحب رحمہ اللہ وغیرہ نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے، ابن کمال بارہویں صدی کے مشہور علمائے دولت عثمانیہ میں گذرے ہیں، انھوں نے مجتہدین اور فقہائے کے طبقات پرایک رسالہ لکھا، متاخرین فقہا نے عام طور پراسی کواختیار کیا ہے، ہم یہاں اس کاتھوڑا سا خلاصہ نقل کرتے ہیں: أعلم أن الفقهاء على سبعۃ الطبقۃ الْأُولَى: طَبَقَةُ الْمُجْتَهِدِينَ فِي الشَّرْعِ كَالْأَئِمَّةِ الْأَرْبَعَةِ..... الثَّانِيَةُ: طَبَقَةُ الْمُجْتَهِدِينَ فِي الْمَذْهَبِ كَأَبِي يُوسُفَ وَمُحَمَّدٍ وَسَائِرِ أَصْحَابِ أَبِي حَنِيفَةَ..... فَإِنَّہُمْ وَإِنْ خَالَفُوهُ فِي بَعْضِ أَحْكَامِ الْفُرُوعِیۃ، لَكِنَّہُمْ يُقَلِّدُونَهُ فِي قَوَاعِدِ الْأُصُولِ۔ [97] ترجمہ:فقہا کے سات طبقے ہیں، طبقہ اولیٰ کے فقہا میں وہ ائمہ مجتہدین ہیں جومجتہدین فی الشرع کہے جاتے ہیں، جیسے ائمہ اربعہ...... دوسرا طبقہ مجتہدین فی المذہب کا ہے، جیسے امام ابویوسف امام محمد اور دوسرے اصحاب ابوحنیفہ..... ان لوگوں نے بعض فروعی احکام میں امام صاحب کی مخالفت کی ہے؛ لیکن اصول میں ان کے مقلد ہیں۔ اسی طرح انھوں نے سات درجات میں تمام فقہائے احناف کوتقسیم کیا ہے، ہم نے طوالت کے خیال سے اتنی ہی عبارت نق کی ہے، ابن کمال کے اس رسالہ کا بیشتر حصہ قابل تقلید ہے؛ چنانچہ خدا جزائے خیردے علامہ مرجانی متوفی سنہ1306ھ کوکہ انھوں نے بڑی تفصیل سے اس پربحث کی ہے، اس کا کوئی گوشہ تشنہ نہیں چھوڑا ہے، جتنا حصہ ہمارے موضوع سے متعلق ہے، ہم اسے یہاں نقل کرتے ہیں، ابنِ کمال کا پورا رسالہ نقل کرنے کے بعد وہ لکھتے ہیں: ہذا ماذکرہ وقداوردہ التیمی فی طبقاتہٖ بحروفہٖ ثم قال وہوتقسیم حسن جداواقول بل ہوبعید عن الصحۃ بمراحل فضلاً عن حسنہ جدا فانہ تحکمات باردۃ وخیالات فارعۃ وکلمات لاروح لہا والفاظ غیر محصلۃ المعنی..... فلیت شعری مامعنی قولہ ان ابایوسف ومحمد اوزفر وان خالفوا اباحنیفۃ فی الاحکام لکنہم یقلدونہ فی قواعد الاصول ماالذی یرید من الاصول؟ فان ارادمنہ الاحکام الاجمالیۃ التی یبحث عنہا فی کتب اصول الفقہ فہی قواعد عقیلۃ وضوابط برہانیۃ یعرفہا المرء من حیث انہ ذوعقل وصاحب فکرونظر سواء کان مجتہدا ولاتعلق لہا بالاجتہاد قط وشان الائمۃ الثلاثۃ ارفع واجل..... وحالہم فی الفقۃ ان لم یکن ارفع من مالک والشافعی وامثالہما فلیسوا بدونہما وجریٰ مجری الامثال قولہم (ابوحنیفۃ ابویوسف) بمعنی ان البالغ الی درجۃ القصویٰ فی الفقاہتہ ہوابویوسف وقولہم (ابویوسف ابوحنیفۃ) بمعنی ان ابایوسف بلغ الدرجۃ القصویٰ من الفقاہتہ۔ ترجمہ: ابن کمال نے جوکچھ لکھا ہے اس کا یہ خلاص ہے، اس تقسیم کوتیمی نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے اور اس کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ بہترین تقسیم ہے؛ لیکن میں کہتا ہوں کہ صحت اور حقیقت سے اس کوانتہائی بعد ہے؛ اسی تقسیم میں بے دلیل دعوے، بے کار خیالات آرائی، بے روح اور بے مغز باتیں ہیں، سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کے اس قول کے کیا معنی ہیں کہ امام ابویوسف، امام محمد اور امام زفر نے اگرچہ بعض احکام میں امام ابوحنیفہ کی مخالفت کی ہے مگراصولی تابوں میں ان کی تقلید کرتے ہیں، اصول سے ان کی کیا مراد ہے؟ اگراس سے مراد وہ اجمالی احکام ہیں جن سے اصول فقہ میں بحث کی جاتی ہے تویہ قواعد توعقل اور دلائل کی مدد سے مرتب کیے گئے ہیں جن کوہرصاحب عقل اور صاحب فکر ونظرجانتا ہے خواہ وہ مجتہد ہویاغیرمجتہد، اجتہاد سے اس کا قطعی تعلق نہیں ہے اور ان ائمہ ثلاثہ کی شان بہرحال اس سے بلند ہے کہ ان کواس درجہ میں رکھا جائے؛ حالانکہ فقہ واجتہاد میں امام ابویوسف اور امام محمد وغیرہ کامرتبہ امام مالک اور امام شافعی سے بلند نہیں ہے توان سے کم تربھی نہیں ہے اور یہ بات توضرب المثل بن گئی ہے کہ ابوحنیفہ توابویوسف ہیں یعنی فقاہت میں امام ابویوسف، امام صاحب کے رتبہ تک پہنچ گئے ہیں اور بعض لوگوں کا یہ قول بھی ہے کہ ابویوسف، ابوحنیفہ ہیں یعنی مرتبہ اجتہاد میں، امام صاحب اوران میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس کے بعد انھوں نے تمام ممتاز فقہا اور ائمہ کے وہ اقوال نقل کیے ہیں جن سے ان کے مجتہد مطلق ہونے کا ثبوت ملتا ہے؛ پھرلکھتے ہیں: وکفی بذالک شہادۃ لہ ولکل واحد منہم اصول مختصۃ بہ تفردوا بہا عن ابی حنیفۃ وخالفوا فیہا ومن ذٰلک ان الاصل فی تخفیف النجاسۃ تعارض الادلۃ عندھما عندابی حنیفۃ رحمہ اللہ واختلاف الائمۃ۔ ترجمہ:ان ائمہ کی یہ شہادتیں ان کے مجتہد مطلق ہونے کے لی کافی ہیں، ان میں سے ہرایک کے کچھ محصوص اصول تھے جن میں انھوں نے امام صاحب سے تفرد اخیار کیا تھا اور انھی میں ان سے اختلاف کرتے تھے؛ انہی اصول میں سے ایک یہ ہے کہ تخفیف نجاست میں اصول یہ ہے کہ اس کے دلائل میں تعارض ہے اور صاحبین کے نزدیک ائمہ کے اختلاف کی وجہ سے اس میں تخفیف سے کام لیا گیا ہے۔

اس کے بعد یہ امام غزالی اور امام الحرمین کے اقوال نقل کرتے ہیں: قال الغزالی اتہما خالفا اباحنیفۃ فی ثلثی مذہبہ ونقل النووی فی کتابہ تہذیب الاسماء واللغات عن ابی المعالی الجوینی ان کل مااختارۃ المزنی اری انہ تخریج ملتحق بالمذہب فانہ لایخالف اقوال الشافعی لاکابی یوسف ومحمد فانہما یخالفان اصول صاحبہما۔ ترجمہ:امام غزالی نے لکھا ہے کہ صاحبین نے دوتہائی مسائل میں امام صاحب سے اختلاف کیا ہے اور امام نووی نے تہذیب الاسمائ میں امام جوینی سے نقل کیا ہے کہ امام مزنی نے جن مسائل کوترجیح دی ہے وہ امام شافعی کے کسی قول ہی سے ماخوذ ہے؛ کیونکہ وہ امام شافعی کے اقوال کی اس طرح مخالفت نہیں کرتے جس طرح امام ابویوسف اور امام محمد، امام ابوحنیفہ سے اصول وفروع میں اختلاف کرتے ہیں۔ پھرانہوں نے امام ابوجعفر طبری کی یہ رائے نقل کی ہے کہ وہ امام احمد بن حنبل کومجتہدین میں شمار نہیں کرتے تھے؛ بلکہ ان کووہ صرف حفاظِ حدیث میں شمار کرتے تھے؛ اسی طرح ابنِ خلدون نے لکھا ہے کہ: فأما أحمد بن حنبل، فمقلدوه قليل لبعد مذهبه عن الاجتهاد۔ [98] ترجمہ:اور امام احمد بن حنبل توان کے مقلدین اس لیے بہت کم ہیں ان کے مسلک میں اجتہادی خصوصیت کم ہے۔ (اوپرذکر آچکا ہے کہ حدیث میں سب سے پہلے امام احمد نے ابویوسف سے استفادہ کیا، کسی نے فقہی مسائل کے بارے میں پوچھا کہ یہ مسائل آپ نے کہاں سے معلوم کیے توانہوں نے فرمایا کہ امام محمد کی کتابوں سے؛ انھوں نے یہ نہیں کہا کہ فقہی مسائل میں انھوں نے خود اجتہاد کیا ہے)۔ توامام احمد کومجتہدین مطلق میں شمار کیا جائے اور امام ابویوسف اور امام محمد جن کے اجتہادات سے امام احمد نے استفادہ کیا ہو ان کومقلد قرار دیا جائے یہ ایک طرح کا ظلم ہے، اس کے بعد انھوں نے اجتہاد کے مآخذ وشرائط یعنی کتاب وسنت، اجماع، قیاس اور آثار صحابہ پربحث کی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ ان میں سے کسی چیز میں بھی وہ امام صاحب کے مقلد نہیں تھے؛ بلکہ وہ براہِ راست ان مآخذ سے استنباط مسائل کرتے ہیں، یہ اتنی مفصل بحث ہے کہ اس کے بعد کسی اضافہ کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی، اب ہم ان کی کتابوں سے چند ایسے مسائل کا جوان کے اور امام صاحب کے درمیان مختلف فیہ ہیں تذکرہ کرتے ہیں، جن سے اندازہ ہوگا کہ وہ محض فروع میں نہیں بلکہ اصول میں بھی مخالفت کرتے ہیں؛ اس وقت امام ابویوسف کی تین کتابیں ہمارے پیشِ نظر ہیں، کتاب الآثار، کتاب الخراج اور اختلاف ابی الیلی وابی حنیفہ، انھی سے انتخاب کرکے چند مسائل کا ذکر کیا جاتا ہے: (1)دریا سے اگرزیورات اور بڑی مچھلیاں برآمد ہوں توان کا خمس لیا جائیگا یانہیں؟ اس بارے میں ان ائمہ کی رائیں ملاحظہ ہوں، امام صاحب کی رائے ہے کہ اس میں خمس نہیں لیا جائے گا اور اس کی اصولی دلیل یہ ہے جس طرح چھوٹی مچھلیوں پرکوئی ٹیکس نہیں لیا جاتا، اس میں بھی نہیں لیا جائے گا، امام ابویوسف نے ان سے اختلاف کیا ہے، ان کی رائے ہے کہ 1/5 توحکومت لے گی اور 4/5 اس شخص کا حصہ ہے، جس نے ان کونکالا ہے، امام صاحب سے ان کا اختلاف اس اصول پر ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا ہے؛ ظاہر ہے کہ یہ اختلاف فروعی نہیں، بالکل اصولی ہے وہ یہ ہے کہ دریا کے حاصلات میں حکومت کوٹیکس لینے کا حق ہے یانہیں اور ہے توکس حد تک اور نہیں ہے توکس حد تک۔ (2)حدود کے سلسلہ میں بحث ہے کہ مشکرین جودارالاسلام میں موجود ہوں ان پرحد ود جاری کیے جائیں گے یانہیں؟ امام صاحب کی رائے ہے کہ اہلِ شرک پرحدود جاری نہیں کیے جائیں گے، امام ابویوسف کی رائے ہے کہ ان پربھی حدود جاری کیے جائیں گے، سرخسی نے مبسوط میں تفصیل سے اس مئلہ پربحث کی ہے اور دونوں کے اصولی دلائل نقل کیے ہیں، اس مسئلہ میں امام محمد کی رائے دونوں بزرگوں سے مختلف ہے، کیا یہ اختلاف صرف فروع کا ہے یااصول کا؟ ہم زیادہ تفصیل میں جانا نہیں چاہتے؛ اگران ائمہ کے اصولی اور فروعی اختلافات دیکھنا ہوں تواختلاف ابی لیلی وابی حنیفہ کامطالعہ کرلینا چاہیے، اس بحث کوصرف اس لیے طول دیا گیا ہے؛ تاکہ یہ واضح طور پردکھایا جائے کہ امام صاحب کے کم از کم تین تلامذہ کے بارے میں یہ کہنا کسی طرح صحیح نہیں ہے کہ وہ مجتہد مطلق نہیں تھے یااپنے اجتہاد میں وہ ان اصولوں کے پابند تھے، جوامام صاحب نے مقرر کر دیے ہیں؛ جیسا کہ علامہ مرجانی نے لکھا ہے کہ یہ تومعلوم نہیں کہ وہ اصول ہیں کیا جن سے یہ ائمہ باہر نہیں گئے؛ اگران سے مراد وہ چار اصول کتاب اللہ، سنتِ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اجماع اور قیاس ہیں تو پھر اس حیثیت سے توامام صاحب بھی مجتہد مطلق نہیں ہیں کہ وہ خود اہلِ عراق کے متبع ہیں؛ پھریہ بھی ایک بڑی زیادتی ہے کہ بعض ان بزرگوں کوجن میں اجتہاد واستنباط کی اتنی بھی صلاحیت نہیں تھی، جتنی کہ ان بزرگوں میں تھی ان کو تو مستقل مجتہد تسلیم کیا جائے اور صاحبین کو مقلد فی الاجتہاد کا رتبہ دیا جائے۔

علم کلام

[ترمیم]

امام ابویوسف کے زمانہ میں علم کلام کے مسائل کاچرچا اور اس میں بحث ومباحثہ ایک عام چیز بن گئی تھی، اس بحث سے نہ توخلفاء وامرء کے دربار خالی تھے نہ فقہا ومحدثین کی مجالس درس اور نہ عوام اور بازاری لوگوں کے حلقے، خصوصیت سے ایمان کی کمی وزیادتی، قرآن کے مخلوق وغیرمخلوق کے مباحث کا تقریباً ذکر ہرمجلس اور ہرگھر میں تھا؛ یہی مسائل اس وقت کی ثقاہت وعدم ثقاہت، اس سے بھی بڑھ کرفسق وفجور، صلاح وتقویٰ بلکہ ایمان وکفر کا معیار بنے ہوئے تھے، جس نے کسی گروہ کے خیالات سے اختلاف کیا جھٹ دوسرے فریق نے اس کوزندگی، فاسق بلکہ کافر تک بنادیا۔ فقہا ومحدثین میں جوحضرات محتاط تھے؛ انھوں نے ہمیشہ ان مسائل پرگفتگو کرنے اور ان پررائے دینے سے احتراز کیا اور اپنی حد تک دوسروں کوبھی وہ اس سے روکتے رہے؛ مگرپھربھی بسااوقات انھیں اپنی رائے ظاہر ہی کرنی پڑتی تھی اب وہ رائے جن لوگوں کے خلاف پڑتی تھی وہ ان کومطعون کرتے تھے اور ان کے اثر سے بعض اوقات ہمارے فقہا محدثین بھی اس شخص کے بارے میں رائے قائم کرلیتے تھے اور اس کومطعون کرتے تھے؛ اسی اثر سے بعض خلفاء نے بڑے بڑے ائمہ سے وہ سلوک کیا، جوایک معمولی آدمی کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا، امام احمد اسی طرح کے ابتلا میں پڑے تھے، مثال کے طور پرارجاء کے مسئلہ کولیجئے یعنی یہ کہ آدمی کی نجات کے لیے عمل ضروری نہیں ہے؛ بلکہ اس کا ایمان کافی ہے، یہ مسئلہ اس خیال کا رد عمل ہے کہ آدمی اگرگناہِ کبیرہ کرلے تووہ مؤمن نہیں رہتا؛ ظاہر ہے کہ یہ کتاب وسنت کے خلاف بات تھی، اس لیے اس پربعض ائمہ نے اپنی زبان کھولی، خصوصیت سے امام صاحب نے؛ انھوں نے کہا کہ ایمان ایسی سیال چیز نہیں ہے جوکسی معمولی اشارہ سے بہ جائے؛ بلکہ وہ ٹھوس حقیقت ہے، اس کوبے عملی یاارتکاب معاصی زائل نہیں کرسکتا؛ لیکن اس سے ان کا یہ مقصد بالکل نہیں تھا کہ آدمی عمل کرنا چھوڑدے؛ مگربعض لوگوں کویہ غلط فہمی ہوئی یاپھیلائی گئی کہ امام صاحب اس معنی میں مرجۂ ہیں کہ وہ عمل کوکوئی ضروری چیز نہیں سمجھتے جس سے ہمارے سیدھے سادھے محدثین بھی متاثر ہو گئے؛ حالانکہ اگر کوئی امام صاحب کی زندگی ہی پرایک سرسری نظر ڈال لے تواسے معلوم ہوجائے گا کہ وہ تمام ائمہ بلکہ اپنے معاصرین میں سب سے زیادہ عامل بالسنۃ صحالح اور متقی تھے، کیا ان کے قول اور عمل میں کوئی تضاد تھا؟ نہیں بلکہ لوگوں نے ان کی بات سمجھنے میں سخت غلطی کی، امام صاحب سے چونکہ لوگوں نے یہ سوء ظن قائم کر لیا تھا، اس لیے اس جرم میں ان کے تلامذہ بھی شریک کرلیے گئے؛ اگرآپ صرف تاریخِ بغداد ہی کواُٹھاکر دیکھ لیجئے توآپ کو نظر آئے گا کہ خطیب تمام مناقب اور فضائل کے ذکر کے بعد ان ائمہ کے بارے میں یہ رائے دیتے ہیں کہ یہ مرحبۂ تھے، خلقِ قرآن کے قائل تھے، جہمیہ تھے؛ اسی طرح بعض دوسرے تذکرہ نگار بھی ان اقوال کونقل کرتے ہیں، چنانچہ امام ابویوسف کی طرف بھی یہ تمام جرائم منسوب کیے گئے ہیں؛ مگرہم خود امام ابویوسف کے اقوال نقل کردیتے ہیں، جس سے ان تمام الزامات کی تردید ہوجائے گی، جو ان پراس سلسلہ میں لگائے گئے ہیں۔

خلقِ قرآن

[ترمیم]

امام ابویوسف کے زمانہ میں اس مسئلہ کوبڑی اہمیت حاصل تھی (اس کی کچھ تفصیل امام احمد کے حالات میں ملے گی) ان سے بھی اس بارے میں سوال کیا گیا توانہوں نے فرمایا کہ: قرآن اللہ کا کلام ہے اور جوشخص کیوں اور کیسے کی شق نکالتا ہے اور اس کے بارے میں ردوکد کرتا ہے وہ قید وبند اور سخت تعزیز کا مستحق ہے۔ [99] یہ کہنے کے بعد وہ اپنے تلامذہ سے کہتے تھے کہ اس بات کواچھی طرح گرہ دے لو۔ ایک بار ایک شخص نے لوگوں میں یہ مشہور کیا کہ امام ابویوسف خلقِ قرآن کے قائل ہیں، ان کے تلامذہ نے سنا: تواُن کوبڑی تشویش ہوئی، وہ اُن کے پاس آئے اور کہا کہ آپ کے بارے میں یہ بات معلوم ہوئی ہے، آپ تواس سے پہلے برابر ہم لوگوں کواس مسئلہ میں پڑنے سے روکا کرتے تھے؛ انھوں نے سنا توبڑے غصہ میں فرمایا: اے کم عقلو! یہ لوگ جواللہ تعالیٰ پرجھوٹ باندھ سکتے ہیں، اُن کومیرے اُوپر کوئی بہتان تراش لینے میں کیا باک ہو سکتا ہے؛ پھرفرمایا: اہل بدع یحکون کلامہم ویکذبون علی الناس۔ (صفحہ:36) ترجمہ: اہلِ بدعت بات اپنی طرف سے کہتے ہیں اور لوگوں پرجھوٹ باندھتے ۔

جہمیت

[ترمیم]

ان کے خاص خاندان کے ایک نوجوان نے ایک بار جہمیت کا اظہار کیا (یہ فرقہ جہم بن صفوان کی طرف منسوب ہے، نفی صفات کے سلسلہ میں ان کا اور معتزلہ کا ایک ہی عقیدہ ہے، ان کے پانچ اصول ہیں، ایک یہ کہ جن صفات سے بندہ متصف ہے اس سے خدا کومتصف نہ ہونا چاہیے، مثلاً انسان میں علم وقدرت ہے توخدا تعالیٰ کوان صفات سے خالی ہونا چاہیے، نعوذ باللہ، دوسرے یہ کہ خدا تعالیٰ کوکسی چیز کے پیدا کرنے سے پہلے اس کا علم نہیں ہوتا، یعنی اس کا علم حادث ہے، جوخلق کے ساتھ پیدا ہوتا ہے، تیسرے یہ کہ انسان اور علم مخلوقات مجبورِ محض ہیں، چوتھے یہ کہ خلود کووہ ہمیشگی پرمحمول نہیں کرتے ہیں، پانچویں یہ جس شخص کوخدا کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے؛ اگروہ زبان سے کفر کا اظہار کرے جب بھی کافر نہیں ہوتا، ان اصولوں کی تمام اہلِ سنت نے تردید کی ہے، تفصیل کے لیے ملل والنحل دیکھی جائے) توانہوں نے 35/کوڑے کی سزادی، ایک شخص نے ان سے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ اس کی شہادت قبول کرتے ہیں جواس بات کا قائل ہے کہ اللہ کسی چیز کواس کے وقوع سے پہلے نہیں جانتا، فرمایا ایسا شخص اگر توبہ نہ کرے تومیں قتل کردوں گا نہ کہ اس کی شہادت قبول کروں گا؛ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قصداً ان ائمہ کے بارے میں بعض معاندین کیسی کیسی بے سروپا باتیں اُڑاتے رہتے تھے۔

ایمان

[ترمیم]

ایمان کے سلسلہ میں بھی امام ابویوسف کے بارے میں عجیب عجیب باتیں کہی جاتی تھیں؛ یہاں تک کہ بعض لوگوں نے کہا کہ وہ اپنا اور حضرت جبریل کا ایمان برابر سمجھتے ہیں، جب ان کومعلوم ہوا تواس کی تردید کی: من قال ایمانی کایمان جبریل فھو صاحب بدعۃ۔ [100] ترجمہ:جویہ کہتا ہے کہ میرا ایمان حضرت جبریل کے ایمان کی طرح ہے وہ بدعتی ہے۔ وہ فرماتے تھے کہ خراسان میں دوگروہ ہیں، جن سے برا دنیا میں کوئی نہیں ہے، ایک مجسمہ (یعنی وہ لوگ جوخدا کے لیے جسم واعضا ثابت کرتے ہیں، جبریہ جوانسان کومجبورِ محض رکھتے ہیں، گناہ ثواب کا اس کوذمہ دار نہیں سمجھتے) دوسرے جبریہ؛ انھوں نے ایک بہت جامع نصیحت تمام تلامذہ کوکی تھی جس کا خلاصہ یہاں نقل کردیتے ہیں: ذروا الخصومۃ فی الدین والمراء فیہ والجدال، فان الدین واضح بین قد فرض اللہ عزوجل فرائضہ وشرع سنتہ وجدودہ واحل حلالہ وحرم حرامہ فقال أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًافاحلوا حلال القرآن وحرموا حرمہ واعملوا بحکم وآمنوا بالمتشابہ منہ واعتبروا بالامثال فیہ۔ ترجمہ:دین کے بارے میں شک، لڑائی، کج بحثی اور جدال چھوڑدو، اس لیے کہ دین بالکل واضح ہے، خدا نے اس کے فرائض بھی مقرر کر دیے ہیں اور اس کی سنتیں بھی اور اس کے تمام حدود مقرر کر دیے ہیں اور حلال کوحلال اور حرام کوحرام کر دیا ہے، جیسا کہ اس نے خود فرمایا میں نے تمھارے لیے دین کومکمل کر دیا اور اپنی نعمت کوتمہارے اوپر تمام کر دیا اور تمھارے لیے دینِ اسلام کوپسند کر لیا، تواس کے حلال کوحلال سمجھو اور اس کے حرام کوحرام سمجھو، قرآن کی محکم یعنی واضح آیات پرعمل کرو اور متشابہ آیات ہیں ان پرایمان ویقین رکھو اور اس کے اندر جوامثال ہیں یعنی مثالیں ان سے عبرت حاصل کرو۔ فلو کانت الخصومۃ فی الدین تقویٰ عنداللہ بسق الیہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واصحابہ بعدہ فہل اختصموا فی الدین تنازعو فیہ وقد اختصموا فی الفقہ وتکلموا فیہ واختصموا فی الفرائص والصلاۃ والحج والطلاق والحلال والحرام ولم یختصموا فی الدین ولم یتنازعوا فیہ فاقتصروا علی تقویٰ اللہ وطاعتہ والزموا ماحرت السنۃ وزعوا مااحدث المحدثون من التنازع فی الدین۔ ترجمہ: اگردین کے مسائل میں کج بحثی کوئی تقویٰ کی بات ہوتی تواس کی طرف سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کے بعد آپ کے اصحاب اس کی طرف سبقت کرتے، توکیا انھوں نے کبھی عقائد کے مسائل میں بھی کج بحثی کی؟ انھوں نے اگر اختلاف اور بحث ومباحثہ کیا توفقہی مسائل میں جن کا تعلق عمل سے ہے؛ انھوں نے اگرگفتگو کی توفرائض، نماز، حج، طلاق جیسے مسائل میں اور حلال وحرام میں انھوں نے ایمانیات میں کبھی قیل وقال نہیں کیا؛ انھوں نے خدا کے تقویٰ اور اس کی اطاعت پریس کیا اور انھوں نے سنتِ متواترہ کومضبوط پکڑ لیا تھا اور جو ان مبتدعین نے نئے نئے مسائل پیدا کر دیے ہیں اُن کو انھوں نے کبھی ہاتھ نہیں لگایا۔ وقد انزل اللہ عزوجل فی کتابۃ إِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ ولوشاء انزل فی ذالک جدالاً وحجاجًا ولکنہ ابی ذالک وقال فَلاَتَقْعُدُواْ مَعَهُمْ وقال فَإنْ حَآجُّوكَ فَقُلْ أَسْلَمْتُ وَجْهِيَ لِلّهِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ ولم یقل وحاجہم۔ ترجمہ:اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کہا ہے کہ جب دیکھو کہ وہ ہماری آیات میں کرید کر رہے ہیں توان سے الگ ہوجاؤ؛ اگراللہ تعالیٰ چاہتا تواپنی کتاب میں جدال اور قیل وقال کا طریقہ بھی نازل فرماسکتا تھا؛ مگراس سے اس نے گریز کیا اور یہ حکم دیا کہ ان کے ساتھ نہ بیٹھو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اگروہ تم سے حجت کریں توکہہ دوکہ میں نے اور جن لوگوں نے میری اتباع کی ہے اپنی پوری توجہ خدا کی طرف مبذول کرلی ہے، آپ سے یہ نہیں کہا گیا کہ آپ بھی ان سے بحث مباحثہ اور قیل وقال کیجئے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ امام ابویوسف کا دامن ان الزامات سے پاک ہے، جو ان پربعض لوگوں نے عائد کرنے کی کوشش کی ہے ان کا یہ قول آج تک زبان زد خاص وعام ہے جس نے دین علم (مقصود وہ مباحث ہیں جن میں خصوصیت سے خدا کی ذات وصفات کی بحث ہوتی ہے؛ چونکہ انسانی دسترس سے باہر ہیں اس لیے انسان ان کے بارے میں اٹکل پچو تیر چلاتا ہے) کلام کے ذریعہ حاصل کرنے کی کوشش کی اس نے بے دینی کوراہ دی۔

جرح و تعدیل

[ترمیم]

وہ ائمہ اور بزرگانِ دین جوصدیوں سے کروڑوں آدمیوں کے متبوع چلے آ رہے ہیں اور جن کی جلالت او رامامت پرسب کا اتفاق ہے، ان کی عدالت وثقاہت پرکسی بحث کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ان کے بارے میں کوئی جرح قابل اعتنا ہے؛ مگرپھربھی ایک سوانح نگار کا کام ہے کہ وہ جس کی سوانح عمری لکھ رہا ہے، اس کی زندگی کے ہرگوشہ کواجاگر کرے اور اس کے بارے میں اگلوں نے جورائے دی ہے، اسے بھی من وعن نقل کر دے، اس لیے یہاں میں اگلوں نے جورائے دی ہے، اسے بھی من وعن نقل کر دے، اس لیے یہاں مختصراً اس سے بحث کی جاتی ہے۔ امام احمد، یحییٰ بن معین، ابن مدینی اور امام مزی جوجرح و تعدیل کے امام ہیں ان سب نے ان کی توثیق کی ہے، اوپر ذکر آچکا ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے تذکرۃ الحفاظ میں ان کا مختصر تذکرہ لکھا ہے اور اس کے بعد الگ ایک رسالہ ان کے حالات میں لکھا ہے، جواب چھپ کربازار میں آگیا ہے، اس میں لکھتے ہیں: ان کے علم و فضل میں کسی کوشبہ کرنے کی گنجائش نہیں ہے، جن لوگوں نے ان پرجرح کی ہے وہ ناقابل اعتبار ہے۔ [101] ابن جوزی رحمہ اللہ نے ان کوان سوحفاظ میں شمار کیا ہے جوپوری اُمت میں ممتاز ہیں؛ اسی طرح ابن حبان، ابن عبدالبر نے بھی ان کی ثقاہت وعدالت کی توثیق کی ہے، ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ حفظ حدیث میں مشہور و معروف ہیں۔ ابنِ ابی حاتم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الجرح والتعدیل میں امام بخاری سے نقل کیا ہے کہ ابوزرعہ اور ابوحاتم ان سے حدیث کی روایت نہیں کرتے تھے؛ لیکن ابوزرعہ اور ابن ابی حاتم کی رائے یحییٰ بن معین، ابن مدینی کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی؛ پھرابن حاتم نے توامام بخاری رحمہ اللہ پربھی جرح کی ہے، ظاہر ہے کہ ان کی رائے زیادہ محتاط نہیں کہی جا سکتی۔ خطیب نے عقیلی اور ابن ثابت کی جرح بھی نقل کی ہے، امام ذہبی رحمہ اللہ اس جرح کے بارے میں لکھتے ہیں: واخبار فی الخط علیہ بعضہا لیس بصحیح اوردہاالعقیلی وابن ثابت فی تاریخ بغداد وغیرہا۔ ترجمہ: ابویوسف کوگرانے کے لیے جوباتیں عقیلی اور ابن ثابت کے ذریعہ تاریخ بغداد اور غیر ہ میں منقول ہیں ان میں بعض بالکل صحیح ہیں۔ ایک جرح خطیب نے نقل کی ہے اس میں ہے کہ عبد اللہ بن مبارک ان کا ذکر اچھے الفاظ سے نہیں کرتے تھے، ان کی وفات کے بعد کسی نے ان کے موت کی اطلاع دی توانہوں نے مسکین یعقوب (یعنی دُنیا سے خالی گئے) کے الفاظ فرمائے۔ ظاہر ہے کہ اس روایت کی غلطی دووجہوں سے ثابت ہے، ایک تویہ کہ عبد اللہ مبارک، امام ابویوسف سے دوسال پہلے وفات پاچکے تھے؛ مگریہاں ان کوزندہ اور امام ابویوسف کومردہ دکھایا جارہا ہے، دوسری یہ کہ اس روایت میں کئی راوی غیر ثقہ ہیں؛ اسی طرح دارِ قطنی کی جرح بھی نقل کی گئی ہے؛ مگردارِقطنی نے اپنی کتاب غرائب مالک میں امام محمد کوثقہ قرار دیا ہے؛ پھرخطیب نے ان سے یہ نقل کیا ہے کہ امام ابویوسف کے بارے میں وہ کہتے تھے کہ: ہواقویٰ من محمد بن حسن۔ ترجمہ: وہ محمد بن حسن سے زیادہ قابل اعتماد تھے۔ ظاہر ہے کہ امام محمد سے زیادہ ثقہ قرار دینے کے معنی توان کی تعدیل ہوتی، اب اگرکوئی جرح ان سے ثابت بھی ہوجائے توتعدیل کوجرح پرترجیح ہونی چاہیے؛ ایک جرح یہ نقل کی ہ کہ اُس حدیث میں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کا ذکر ہے، یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غابہ سے ثنیۃ الوداع تک گئے، خطیب نے لکھا ہے کہ امام ابویوسف کوغابہ کا تلفظ تک معلوم نہیں تھا اور وہ غابہ (ب) کی بجائے غایہ (ی) کہتے تھے؛ ظاہر ہے جس نے بارہا حج کیا ہو اور اُن مقامات کوخود دیکھا ہو اور مغازی وسیر محمد بن اسحاق سے پڑھی ہو، امام اوزاعی کی سیرت پرنقد کیا ہو، اس کے بارے میں اس قسم کی باتیں کس طرح قابل اعتبار ہو سکتی ہیں؛ غرض یہ ہے کہ امام ابویوسف پرجتنی جرحیں کی گئی ہیں، وہ زیادہ تریاتوسوءظنی کی بناپر ہیں، یاامام صاحب کے تلمذ کی وجہ سے، اس لیے کہ اس وقت امام صاحب اور اُن کے تلامذہ کے بارے میں عام طور پر یہ غلط فہمی اور سوء ظنی قائم تھی کہ یہ لوگ حدیث وآثار کے مقابلہ میں قیاس ورائے کوترجیح دیتے ہیں؛ لیکن ظاہر ہے کہ یہ صرف سوء ظنی اور غلط فہمی ہے؛ ممکن ہے اس وقت سوء ظنی کسی حد تک صحیح رہی ہو؛ مگراس وقت جب کہ امام صاحب کی مجلس مشاورت اور ان کے تلامذہ کے اجتہادات سے جوبنابنایا مسلک ہمارے سامنے موجود ہے، اس کے بارے میں کیا یہ شبہ کیا جا سکتا ہے کہ اس کوکتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے کوئی نسبت نہیں ہے اور وہ صرف رائے واجتہاد کا مجموعہ ہے؟ پھراس میں امام صاحب اور ان کے تلامذہ کوجوقبول عام حاصل ہوا وہ بھی بہت سے معاصرین کے لیے وجہ خلش تھی۔

حیل

[ترمیم]

امام ابویوسف اور امام محمد کی طرف تذکرہ میں بہت سے حیل منقول ہیں، ان کی کوئی اصلیت نہیں ہے؛ لیکن اس سلسلہ میں یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ کوئی ایسی لطیف تدبیر کرنا جس سے نہ توشریعت کا حکم بدلنتا ہو نہ وہ کسی نص صریح سے ٹکراتی ہو نہ اس سے کسی کا حق مارا جاتا ہو اور نہ اس سے کسی باطل کوثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہو، کوئی ممنوع چیز نہیں ہے؛ بلکہ وہ مباح ہے، مثال کے طور پرہجرت کے واقعہ کوسامنے رکھیے جب کسی نے راستہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھا توانہوں نے فرمایا کہ: رجل یھدینی السبیل۔ ترجمہ:ایک شخص ہیں جومجھے راستہ بتا رہے ہیں۔ غور کیجئے کہ آپ نے کتنے لطیف انداز سے سائل کا جواب بھی دیدیا اور خطرہ سے آپ کوبچابھی لیا اور واقعیت میں بھی کوئی فرق نہیں آنے دیا، جن ائمہ نے حیلوں سے کام لیا ہے یاان کومباح قرار دیا ہے، ان کے سامنے بھی یہی مثال تھی نہ کہ مکروفریب کوحیلہ سمجھتے تھے، حاشا وکلا۔ امام ابویوسف رحمہ اللہ نے ایک بار ایک شخص کواس کا مال بچانے کی ایک جائز تدبیر بتائی جس پر ان کے شاگرد ابویقظان نے ان سے کہا کہ یہ تووہی بات ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے لیے چربی حرام کردی تھی؛ توانہوں نے یہ کیا کہ اس کوپگھلاکر فروخت کردیتے اور اس کی قیمت اپنے مصرف میں لاتے، امام ابویوسف نے فرمایا کہ انھوں نے ایک حرام کوحلال کرنے کے لیے ایسا کیا تھا؛ مگرہم کوئی تدبیر اگرکرتے ہیں تواس لیے کہ حلال کوحرام نہ ہونے دیں۔ [102]

مثال کے لیے ایک اور واقعہ نقل کیا جاتا ہے ایک بار امام ابویوسف کے یہاں خلیفہ ہادی کے خلاف ایک باغ کا مقدمہ پیش ہوا، ظاہری طور پرحق خلیفہ کامعلوم ہوتا تھا، شہادت وغیرہ بھی اسی کی طرف سے گذری تھی؛ مگرامام ابویوسف نے تحقیق کی توحق اس غریب دعویٰ کرنے والے ہی کا معلوم ہوا، جس کے خلاف شہادت گذرچکی تھی، امام ابویوسف رحمہ اللہ نے مقدمہ اس وقت ملتوی کر دیا، ھادی سے ملاقات ہوئی توا سنے پوچھا کہ میرے معاملہ میں کیا فیصلہ ہوا، فرمایا مدعی آپ سے قسم لینا چاہتا ہے، پوچھا: کیا آپ اس کوصحیح سمجھتے ہیں؟ امام ابویوسف کا اپنا ذاتی مسلک یہ نہیں تھا؛ اس لیے انھوں نے اپنی کوئی رائے نہیں دی؛ بلکہ یوں کہا کہ ابن ابی لیلی اس کوصحیح سمجھتے تھے؛ ہادی نے کہا: اچھا توپھرآپ باغ اس کوواپس کردیجئے، ظاہر ہے کہ یہ تدبیر شرعی نقطہ نظر سے کوئی قابل اعتراض نہیں ہے، اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان ائمہ کوبہت سے مظلوموں کی جان بچانے اور کتنے لوگوں کے حق واپس کرنے کے لیے بھی اس قسم کی تدبیریں کرنی پڑتی تھی؛ اگراسی کا نام حیلہ ہے توپھرشرعی نقطہ نظر سے اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ خطیب بغدادی اور دوسرے بعض سوانح نگاروں نے امام ابویوسف رحمہ اللہ کی طرف بہت سے ایسے حیلے منسوب کیے ہیں جوانہوں نے ہارون رشید کے لیے کیے تھے؛ مگروہ اس لیے ناقابل اعتبار ہیں کہ ان کی پوری زندگی جس کا نقشہ اوپر کھینچا گیا ہے اس سے ان کی تردید ہوتی ہے، امام ابویوسف رحمہ اللہ کی طرف منسوب کتاب المخارج والحیل کے نام سے ایک مستقل کتاب مصر کے متعدد کتب خانوں میں موجود ہے، ایک جرمن مستشرق جوزف شخت نے طبع کرادیا ہے؛ مگر اس پرنام امام محمد رحمہ اللہ کا درج ہے۔ کتاب الحیل کے بارے میں مزید تفصیل امام محمد کے حالات میں ملے گی۔

زریں اقوال

[ترمیم]

امام ابویوسف کے بہت سے حکیمانہ مقولے اور زرین اقوال کتابوں میں درج ہیں، ان میں سے چند کاترجمہ یہاں نقل کیا جاتا ہے، فرماتے تھے کہ : بارِالہٰا! میرے سامنے جب کوئی مسئلہ پیش آیا توپہلے میں نے کتاب اللہ میں غور کرکے اس کا جواب معلوم کرنے کی کوشش کی؛ اگرکتاب اللہ میں اس کا جواب نہیں ملا توپھرسنت رسول اللہ کی طرف رجوع کیا؛ اگراس میں بھی جواب نہ ملا توآثارِ صحابہ اور ان کے تعامل پرغور کیا؛ اگراس میں بھی جواب نہ ملا تومیں نے امام صاحب کواور اپنے آپ کے درمیان واسطہ بنایا (یعنی ان کے قول پرعمل کیا)۔ اے اللہ توجانتا ہے کہ جب میرے پاس دوفریق آئے اور ان میں سے ایک ضعیف اور دوسرا قوی تھا تومیں نے دونوں میں ہمیشہ مساوات رکھی، میں نے اس بارے میں خلیفہ اور ایک بازاری آدمی کویکساں سمجھا، میرا قلب کبھی کسی کی وجاہت وقوت کی طرف مائل نہیں ہوا، اے اللہ! اگرمیں نے ایسا کیا ہے تومیری مغفرت کر دے۔

فرماتے تھے کہ بسااوقات مجھ سے کسی مسئلہ کے بارے میں سوال کیا گیا اور اس کی علت بھی میری سمجھ میں آگئی مگرزبان سے اس کے اظہار پرقادر نہیں تھا، اس وقت میری مثال اس شخص کی سی ہوتی تھی، جس کے سامنے ایک درہم رکھا جائے اور اس سے پوچھا جائے کہ یہ کھرا ہے یاکھوٹا، توجواب میں کھرایا کھوٹا کہے؛ مگرجب اس سے اس کی علت اور وجہ دریافت کی جائے تووہ کوئی جواب نہ دے سکے؛ حالانکہ وہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا جاتنا ہے اور اس کا قلب اس پرمطمئن ہے؛ مگرزبان سے اس کا اظہار نہیں کرسکتا، فرماتے ت ہے کہ بعض اوقات میں نے دومسئلوں میں بال برابر فرق کیا ہے اور بعض اوقات پہاڑ کے برابر اور بعض وقت فرق کودل میں محسوس کر لیا؛ مگرزبان سے یارائے اظہار نہیں تھا۔ تلامذہ سے فرماتے تھے کہ اے لوگو! صرف رضائے الہٰی کے لیے علم حاصل کرو، اس میں کوئی دوسری غرض شامل نہ ہو، میرا خود اپنا حال یہ تھا جس مجلس میں متواضع ہوکر شریک ہوا، اس سے بلند ہوکر اُٹھا اور جس مجلس میں علم کے غرور وپندار کے ساتھ گیا، اس میں میری ذلت وفضیحت ہوئی؛ پس خبردار اللہ ہی کے لیے علم حاصل کرو، فرمایا اس شخص کی صحبت سے بچو! جوقیامت کی ذلت اور رسوائی سے نہیں ڈرتا، فرماتے تھے کہ تین نعمتیں اصل ہیں، ایک اسلام کہ دنیا کی کوئی نعمت اس کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی، دوسری صحت کہ اس کے بغیر کوئی راحت خوشگوار نہیں ہو سکتی، تیسری فارغ البالی کہ اس کے بغیر زندگی پرسکون نہیں ہوتی۔ فرماتے تھے کہ علم ایسی چیز ہے کہ جب تم اپنی پوری زندگی اس کودیدوگے تب جاکر اس کا کچھ حصہ تم کوملے گا، جب تم کواس کا بعض حصہ ملے تواس پرتکیہ نہ کرو؛ بلکہ برابر اس میں لگے رہو، فرماتے تھے کہ حکومت کے ذمہ داروں کا پھٹے حال رہنا اور موٹی جھوٹی زندگی اختیار کرنا ذلت کا باعث ہے اور قضاۃ اور علما کے لیے سادہ زدنگی قابل فخر ہے۔ فرماتے تھے کہ جوشاذونادر حدیث کے پیچھے پڑے گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پربہتان تراشی میں ضرور مبتلا ہوجائے گا اور جوعلم کلام کے ذریعہ دین حاصل کرنے کی کوشش کریگا وہ گمراہی میں پڑجائے گا اور جوکیمیا سازی کے ذریعہ مال ودولت کمانے کی کوشش کرے گا وہ مفلس ہی رہے گا۔

تصانیف

[ترمیم]

امام ابویوسف رحمہ اللہ ان بزرگوں میں ہیں جنھوں نے ابتدائی صدیوں میں علوم دینیہ کی تدوین میں حصہ لیا تھا؛ بلکہ بعض فنون کی تدوین میں انھیں اولیت حاصل ہے اس کا شمار کثیر التصانیف علما میں ہوتا ہے، کشف الظنون میں ہے کہ: ان الامالی لابی یوسف فی ثلثمائۃ محلد۔ ترجمہ: امام ابویوسف کی امالی تین سوجلدوں میں تھیں۔ ابن ندیم نے متداول کتابوں کے علاوہ ان کی ایک امالی کا ذکر کیا ہے، جو36/مباحث پرمشتمل تھی اور دوسری کتاب، کتاب الجوامع کا ذکر بھی کیا ہے، جس کے 40/حصے تھے اس کے اندر علما کے فقہی اختلافات وآراء کا مفصل تذکرہ ہے، یہ کتاب انھوں نے یحییٰ بن برمکی کی فرمائش پرلکھی تھی۔ ابنِ ندیم نے ایک کتاب اختلاف (علما) الامصار کے نام سے بھی ان کی تصانیف میں شمار کی ہے؛ لیکن یہ تمام کتابیں زمانہ کی دستبرد کی نذر ہوگئیں، ایک کتاب انھوں نے امام مالک رحمہ اللہ کے رد میں لکھی تھی، جس میں ان کے بعض فقہی مسائل پرتنقید تھی، ان کی سب سے اہم کتاب اصولِ فقہ پرتھی، جس کی تدوین میں ان کواوّلیت کا شرف حاصل ہے، اس کتاب کے بارے میں محمد بن جعفر کہتے ہیں: واوّل من وضع الکتاب فی اصول الفقہ علی مذہب ابی حنیفۃ۔ [103] ترجمہ:وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مسلک کے مطابق اصول فقہ کی تدوین کی۔ لیکن تاتاریوں کے حملوں او رمصر کے آئے دن کے انقلابات میں نہ جانے اس طرح کے کتنے گنجہائے گرانمایہ خاک کی نذر ہو گئے، انھیں میں یہ کتاب بھی تلف ہوگئیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے بارے میں بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ سب سے پہلے اصولِ فقہ پرانہوں نے الرسالہ کے نام سے ایک کتاب لکھی جواہلِ علم کے ہاتھوں میں موجود ہے؛ مگران دونوں رایوں میں کوئی تعارض نہیں ہے، امام ابویوسف نے حنفی مسلک پراصول فقہ کی تدوین کی تھی اور امام شافعی نے خود اپنے مسلک کے اصول متعین کیے تھے، اس لیے دونوں کی اوّلیت کی حیثیت جداگانہ ہے؛ پھرامام شافعی کی اوّلیت اس لحاظ سے بھی ہو سکتی ہے کہ ان کی کتاب آج بھی موجود ہے اور امام ابویوسف کی کتاب کا سراغ نہیں ملتا؛ لیکن اس کے باوجود زمانہ کے اعتبار سے امام ابویوسف متقدم ہیں۔ امام ابویوسف کی جوکتابیں اس وقت مطبوعہ یامخطوطہ موجود ہیں، وہ حسب ذیل ہیں: (1)کتاب الآثار اس میں وہ آحادیث وآثار جمع کر دیے ہیں جوحنفی مسلک کے مآخذ ہیں، اس میں انھوں نے زیادہ ترامام ابوحنیفہ ہی سے روایتیں کی ہیں اور دوسرے شیوخ کی بہت کم روایتیں اس میں ہیں، بعض جگہ اپنی مرویات کااضافہ بھی کر دیا ہے، اس کومسند ابویوسف بھی کہا جاتا ہے، اس میں ایک ہزار سے زیادہ احادیث وآثار ہیں، کتاب کے راوی امام ابویوسف کے صاحبزادے یوسف ہیں، جن کا تذکرہ اوپر آچکا ہے، اس کتاب کولجنۃ احیاء المعارف النعمانیہ حیدرآباد نے شائع کیا ہے، اس پرمولانا ابوالوفا افغانی مدظلہٗ صدرمجلس کے بہت سے مفید حواشی بھی ہیں۔

(2)اختلاف ابی حنیفہ وابن ابی لیلی کا ذکر آچکا ہے کہ امام ابویوسف پہلے ابن ابی لیلی کے یہاں تحصیلِ علم کرتے تھے (ابن ابی لیلیٰ کا خانوادہ علم اور دین کے لحاظ سے ممتاز تھا، ان کے والد ممتاز تابعین میں تھے، یہ خود اپن ے وقت کے امام تھے، کوفہ میں امام صاحب کا اگرکوئی ہمسر تھا تویہی تھے) اس کے بعد امام صاحب کی خدمت میں گئے، امام صاحب اور ابن ابی لیلیٰ میں بہت سے فقہی مسائل میں اختلاف تھا، امام ابویوسف نے اپنے ان دونوں اساتذہ کے اختلافات کوکتابی شکل میں جمع کر دیا ہے، اس کتاب میں ایک دوجگہ نہیں بلکہ بیسیوں جگہ امام ابویوس نے امام صاحب کی رائے سے اختلاف کیا ہے اور ابن ابی لیلی کی رائے کوترجیح دی ہے اور بعض جگہ اپنے دونوں اساتذہ سے اختلافِ رائے کیا ہے، یہ کتاب ان دونوں اماموں کے مجتہدات کے ساتھ امام ابویوسف رحمہ اللہ کے مجتہدات اور استنباطات کا بھی بہترین نمونہ ہے، کتاب کے راوی یامؤلف امام محمد ہیں، اس کا کچھ حصہ امام سرخسی نے مبسوط میں بھی نقل کیا ہے [104] اس کتاب کو بھی لجنۃ المعارف نے شائع کیا ہے، کتاب کی افادیت کوعلامہ ابولوفاء کے حواشی نے کئی گونہ زیادہ کر دیا ہے؛ بلکہ وہ خود ایک کتاب کی حیثیت رکھتے ہیں۔

(3)الرد علی سیرالاوزاعی امام ابوحنیفہ نے سیر و مغازی پراپنے تلامذہ کوجوکچھ املا کرایا تھا اس کوانہوں نے مدون کر دیا تھا؛ چنانچہ امام محمد نے خاص طور پر اس کے لیے السیرالصغیر مرتب کی، جب یہ کتاب امام اوزاعی کے سامنے جواس وقت اہلِ شام کے مرجع وماویٰ تھے، آئی توانہوں نے کہا کہ اہلِ عراق سیر و مغازی کیا جانیں اور اس کی تردید میں اس موضوع پرایک کتاب لکھی، امام محمد کوجب معلوم ہوا توانوہں نے اس کتاب کے جواب میں السیرالکبیر لکھی اور امام ابویوسف نے بھی اس کا جواب دیا، امام ابویوسف کی کتاب الرد علی السیر الاوزاعی کے نام سے حیدرآباد میں چھپ گئی ہے، اس کے دیکھنے سے حدیث وآثار پرامام ابویوسف کی دقت نظری اور امام صاحب کی سیر و مغازی سے پوری واقفیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ (4)کتاب الخراج، امام ابویوسف کی سب سے اہم کتاب یہی ہے، خراج اسلامی ریاست کا ایک شعبہ آمدنی ہے؛ مگریہ لفظ امام ابویوسف نے تقریباً اسلامی مالیات کے ان تمام مداخل ومخارج کے لیے استعمال کیا ہے، جن کا تعلق حکومت یامسلمانوں کی اجتماعی زندگی سے ہے، امام ابویوسف کے معاصرین اور ان کے بعد کے بہت سے علما نے اس موضوع پرکتابیں لکھی ہیں، خصوصیت سے یحییٰ بن آدم کی کتاب الخراج، ابن عبید کی کتاب الاموال، ابن رجب کی استخراج احکام الخراج وغیرہ بہت مشہور ہیں؛ مگران میں سے کوئی کتاب ان خصوصیات کی حامل نہیں ہے، جن کی امام ابویوسف رحمہ اللہ کی کتاب حامل ہے، ابن عبید کی کتاب اس موضوع پرسب سے زیادہ مفصل اور ضحیم ہے؛ مگرکیفیت کے لحاظ سے وہ امام ابویوسف کی کتاب سے کم درجہ کی ہے، اس موضوع کے دوسرے مصنفین خصوصیت سے ابن عبید نے یہ کیا ہے کہ اس موضوع پرجو قرآن کی جوآیات، احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، آثار صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور اقوال تابعین ملے ہیں، وہ سب جمع کر دیے ہیں، استخراج احکام انھوں نے بہت کم کیا ہے؛ لیکن امام ابویوسف صرف نقل، روایات ہی پراکتفا نہیں کرتے؛ بلکہ جہاں تاریخی مباحث آجاتے ہیں ان پربھی روشنی ڈالتے ہیں، قرآن وحدیث کے معانی کی تشریح اور تعیین میں لغتِ عرب اور استعمالاتِ ادیار سے بھی بحث کرتے ہیں؛ پھرسب سے زیادہ اس کی افادیت اس حیثیت سے ہے کہ وہ حکومت اور عامۃ مسلمین کی نئی نئی ضروریات ومشکلات کا قرآن وحدیث اور آثار صحابہ سے یاان کی روشنی میں اجتہاد کرکے حل پیش کرتے ہیں۔ اس کتاب کا طریقہ بیان یہ ہے کہ جب کوئی بحث شروع کرتے ہیں، توپہلے قرآن کی آیت پیش کرتے ہیں؛ پھرحدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہ کے بعد ضرورت ہوتی ہے توامام صاحب یادیگر ائمہ کے اقوال سے استدلال کرتے ہیں، اس کے بعد بھی اگرضرورت مقتضی ہوتی ہے تووہ خود اجتہاد کرتے ہیں، یہ کتاب ہارون رشید کی فرمایش سے انھوں نے لکھی تھی، عموماً امرا وسلاطین کی فرمایش پرجو کتابیں علما نے لکھی ہیں، ان میں بہت کم ایسی کتابیں ملیں گی، جن میں موقع کے لحاظ سے جرأت وحق گوئی کے ساتھ کی ہیں، اس کی اہمیت کا اندازہ اسی وقت ہو سکتا ہے، جب عباسی خلفاء اور خصوصیت سے ہارون رشید کی خود رائی اور اس کے استبداد کی تاریخ کوبھی سامنے رکھا جائے اوپر اس کا کچھ حصہ ہم نقل کرآئے ہیں، تطویل کا خیال نہ ہوتا تواس کا پورا خلاصہ یہاں نقل کیا جاتا۔ یہ کتاب کئی بار چھپی ہے، سب سے پہلے مطبوعہ بولاق سے سنہ 1302ھ م سنہ1891ء میں شائع ہوئی، اس کتاب کوایک فرانسیسی مستشرق نے فرنچ میں بھی ترجمہ کیا ہے جوسنہ1949ء میں پیرس سے شائع ہو چکا ہے۔ (5)کتاب المخارج والحیل، امام ابویوسف کی طرف یہ کتاب بھی منسوب ہے، یہ کتاب آستانہ سے شائع ہو چکی ہے، جس کوایک جرمن عالم نے ایڈٹ کیا ہے اور اس نے اس کوامام محمد کی تصنیف بتایا ہے؛ مگراس کے بارے میں علامہ زاہد الکوثری نے لکھا ہ کہ مصر کے متعدد کتب خانوں میں اس کتاب کے قلمی نسخے موجود ہیں اور یہ امام ابویوسف کی تصنیف ہے۔

مرجوع مسائل

[ترمیم]

اجتہاد واستنباط کا تعلق اس دینی بصیرت سے ہے، جوعلومِ دینیہ میں غور کرتے رہے اور اس سے غیر معمولی شغف وانہماک رکھنے کی وجہ سے حاصل ہوجاتی ہے، ظاہر ہے کہ یہ بصیرت علم وتجربہ کی زیادتی کے لحاظ سے روز بروز بڑھتی رہتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ائمہ کرام کے بہت سے مجتہدات جن پرابتداء میں ان کوپورا وثوق اور اعتماد تھا، علم دین اور فہم وبصیرت کی زیادتی کے بعد ان میں ان کوتبدیلی کرنی پڑی، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے سیکڑوں مسائل اور استنباطات ایسے ملیں گے جن کوانہوں نے ترک کر دیا، یاان میں ترمیم کردی؛ اسی طرح امام مالک اور امام شافعی وغیرہ کا حال بھی ہے، خصوصیت سے امام شافعی نے تو امام محمد کے تلمذ کے بعد تقریباً اپنے تمام مسائل پرنظرثانی کرکے انھیں بدل ڈالا؛ چنانچہ شافعی فقیہ کے لیے ان کے قدیم و جدید اقوال میں فرق کرنے میں بڑی دقت پیش آتی ہے۔ امام ابویوسف بھی مجتہد تھے، اس لیے انھوں نے بھی اپنے بہت سے استنباطات میں جزوی ترمیم کی ہے اور بہت سے مسائل سے بالکلیہ رجوع کر لیا ہے، ائمہ کے مرجوع مسائل کوذہن میں نہ رکھنے کی وجہ سے بسااوقات ان کے اور ان کے مسلک کے بارے میں بہت شدید غلط فہمی پیدا ہوجاتی ہے، غالباً اسی ضرورت کوپیشِ نظر رکھ کرمفتی مہدی حسن صاحب (دیوبند) نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ، امام محمد رحمہ اللہ اور امام ابویوسف رحمہ اللہ کے جتنے مرجوع مسائل ہیں، ان کوایک کتابی شکل میں جمع کر دیا ہے، یہ رسالہ عربی میں ہے، اس لیے اردودان اصحاب کے لیے توبیکار ہے؛ مگرعربی خواں اس سے فائدہ اُٹھاسکتے ہیں۔

امام صاحب کی وصیت

[ترمیم]

امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ کی وہ مشہور وصیت جس میں انھوں نے اہلِ سنت والجماعت کے تمام عقائد تفصیل سے بیان کر دیے ہیں، اس سے اہلِ علم توعام طور پرواقف ہیں؛ مگراس کے علاوہ ایک اور وصیت بھی ہے جوانہوں نے خاص طور سے امام ابویوسف کولکھ کردی تھی، جس میں اخلاق، معاملات، معاشرت، سیاست کے متعلق بہت سی قیمتی ہدایتیں اور زریں اقوال ہیں، جن سے ہرخاص وعام فائدہ اُٹھاسکتا ہے، اس لیے ہم اس کا خلاصہ ذیلی عنوانات کے تحت یہاں نقل کرتے ہیں۔

حکومت واہلِ حکومت سے تعلقات

[ترمیم]

سلاطین کے پاس بہت کم آمد ورفت رکھنا، ان سے ہروقت اس طرح پرخطررہنا جس طرح آدمی آگ سے پرخطر رہتا ہے (اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس وقت اسلامی نقطۂ نظر سے حکومت اور ارکانِ حکومت کی اخلاقی حالت کیا تھی، امام صاحب نے ہرجگہ سلطان کا لفظ استعمال کیا ہے؛ حالانکہ اس وقت صاحب امر، امیر المومنین اور خلیفۃ المسلمین کے لقب سے یاد کیے جاتے تھے، خلفاء کے لیے سلطان کا لفظ بہت بعد میں مستعمل ہوا ہے اس لفظ سے غالباً انھوں نے تغلب انفراد بالمجد اور ڈکٹیٹری کی طرف اشارہ کیا ہے) جب تک کوئی خاص ضرورت نہ ہو دربار شاہی میں نہ جانا، اس لیے کہ اس سے اپنا اعزاز واکرام قائم رہتا ہے اور اس لیے بھی کہ سلطان اپنے مقابلہ میں کسی کی کوئی حقیقت نہیں سمجھتا اور جب وہ اپنے حاشیہ نشینوں میں ہوتا ہے تواس وقت اس سے زیادہ گفتگو نہ کرنی چاہیے، اس لیے کہ اس موقع پراس کی خواہش یہ ہوگی کہ ان کے سامنے اپنے کوتم سے زیادہ عالم اور صاحب فضل ظاہر کرے؛ توخواہ مخواہ تمھیں نیچا دکھانے کی کوشش کریگا اور اس سے لوگوں میں تمھاری ذلت ہوگی؛ اگرسلطان تم کوعہدۂ قضاپرمقرر کرنا چاہے توپہلے دریافت کرلو کہ وہ تمھارے فقہی مسلک اور طریقہ اجتہاد سے واقف ہے یانہیں، ایسا نہ ہوکہ حکومت کے دباؤ سے تم کواپنے فیصلہ کے خلاف عمل کرنے پرمجبورہونا پڑے (اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام صاحب شروع میں عہدۂ قضا قبول نہ کرنے پرجس قدر مصر تھے اب ان کا اتنا اصرار باقی نہیں تھا، جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے کہ امام صاحب نے حکومت سے استغنا دکھاکر اب عہدۂ قضا کی اہمیت کوکافی بڑھادیا تھا؛ اسی وجہ سے چند شروط کے ساتھ اس کے قبول کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے، ان شروط کی تفصیل آگے آتی ہے) اور پھریہ بھی سوچ لینا کہ اگرتم نہیں قبول کرتے ہوتواس جگہ پرکوئی ایسا آدمی تومقرر نہیں کیا جائے گا، جواس کا اہل نہیں ہے اور اس سے عام لوگوں کوتکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہے؛ پھریہ بھی معلوم کرلو کہ تمھارا یہ تقرر علم و فضل کی وجہ سے کیا جارہا ہے (یعنی یہ تونہیں ہے کہ وہ کہیں اپنے اغراض کے استعمال کے لیے انتخاب کر رہے ہیں) سلطان کے وزراء اور اس کے حاشیہ نشینوں سے تعلقات قائم کرنے کی کوشش نہ کرنا، صرف سلطان سے تعلقات قائم کرنا، اس میں بھی خود پیش قدمی نہ کرنا، اس لیے کہ جب خود پیش قدمی کروگے تووہ اپنے اغراض تمھارے سامنے رکھیں گے؛ اگرتم انھیں پورا کروگے توپھروہ تمھاری توہین کریں گے اور اگرپورا نہ کروگے تووہ تمھاری عیب چینی کریں گے۔

اظہارِ حق اور امربالمعروف

[ترمیم]

اظہارِ حق میں کسی کی پروا نہ کرنا؛ خواہ وہ سلطان ہی کیوں نہ ہو؛اگرکوئی شخص دین میں کسی بدعت کا موجود ہورہا ہوتوعلانیہ اس کی غلطی کوظاہر کردینا؛ اگرچہ وہ شخص صاحب وجاہت وصاحب حکومت ہی کیوں نہ ہو؛ کیونکہ اظہارِ حق میں خدا تعالیٰ تمھارا معین اور مددگار ہوگا اور اپنے دین کا محافظ وحامی ہے؛ اگرتم ایسا کروگے تولوگوں کودین میں رخنہ اندازی کی جرأت نہ ہوگی اور وہ تمھارے اظہارِ حق سے بھی خائف رہیں گے، خود بادشاہ سے اگرکوئی نامناسب اور دین کے خلاف حرکت صادر ہوتو صاف کہہ دینا کہ عہدۂ قضا کے لحاظ سے میں آپ کا مطیع ہوں؛ لیکن کسی غلطی پرآپ کومطلع کردینا میرا فرض ہے، خصوصیت سے جس کا تعلق علم دین سے ہو؛ اگراس کے بعد بھی وہ نہ مانے توتنہائی میں اس طرح سمجھانے کی کوشش کرنا کہ آپ کا یہ فعل کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہے؛ اگروہ سمجھ جائے توخیر؛ ورنہ خدا سے دُعا کرنا کہ وہ تم کواس کے شرسے محفوظ رکھے، اس میں اتنا زیادہ اصرار نہ کرنا کہ وہ زچ ہوجائے اور تمھارا قلع قمع کر دے، اس سے دین کونقصان ہوگا، اس حد تک اظہار حق کرو، جس سے وہ تمھاری دینی جدوجہد اور امربالمعروف سے واقف ہوجائے (بڑی حکیمانہ بات ہے، اس لیے کہ جب اس جذبہ کا اظہار ہوجائیگا تووہ خود ہی بے راہ روی سے پرہیز کریگا)۔

علم اور اہلِ علم سے تعلق

[ترمیم]

تحصیلِ علم کوسب پرمقدم رکھنا، جب اس سے فراغت ہو چکے تواس کے بعد جائز ذرائع سے مال حاصل کرنے کی کوشش کرنا؛ کیونکہ ایک وقت میں علم ودولت دونون حاصل نہیں ہو سکتے؛ کسی شہر میں جاؤ تووہاں کے علما وفضلاء سے اس طرح ملو کہ ان کورقابت کا خیال نہ ہو، کسی علمی گفتگو کا موقع آئے توجوبات کہو خوب سوچ سمجھ کرکہو اور وہی بات کہو جس کا کافی ثبوت تمھارے پاس موجود ہو؛ اگرکبھی علمی مباحثہ کا موقع آجائے تونہایت جرأت اور استقلال کے ساتھ اس میں حصہ لو، دل میں ذرہ برابر بھی خوف وہراس رہے گا توخیالات منتشر ہوجائیں گے اور زبان میں لغزش آجائے گی، جولوگ علمی مجالس کے آداب سے واقف نہ ہوں؛ بلکہ مکابرہ یعنی بحث وجدال کرنا چاہتے ہوں ان سے ہرگز گفتگو نہ کرو، اپنے اساتذہ کوبرابھلا نہ کہو؛ ورنہ تمھارے تلامذہ بھی تم کوبرا بھلا کہیں گے اپنے اساتذہ اور جن لوگوں سے تم نے استفادہ کیا ہے، ان کے لیے دُعائے مغفرت کرتے رہا کرو، اپنے شاگردوں کے ساتھ ایسے خلوص ومحبت سے پیش آؤ کہ دوسرا دیکھے توسمجھے کہ یہ تمھاری اولاد ہیں، شاگردوں میں سے اگرکسی کودرس کی اجازت دوتو خود بھی اس کی مجلسِ درس میں شریک ہوکر اس کی صلاحیت کا اندازہ کرو؛ اگراس سے کبھی کوئی غلطی ہوجائے توبتادو؛ ورنہ تمھارے چپ رہنے سے لوگوں کوگمان ہوگا کہ اس نے جوکچھ کہا ہے، صحیح کہا ہے، جب تم سے کوئی مسئلہ پوچھا جائے توبقدرِ ضرورت اس کا جواب دو، اپنی طرف سے اس میں کچھ اضافہ نہ کرو، علمی مجالس میں خصوصیت سے غصہ نہ کرو۔

مہمات امورِ دین مہمات دین اور عقائد کے اختلافی مسائل میں عوام سے کوئی گفتگونہ کرو، ہربات میں تقویٰ اور امانت کوپیشِ نظررکھو، ظاہر وباطن ایک رکھو، خدا کے ساتھ وہی معاملہ رکھو جولوگوں کے سامنے ظاہر کرتے ہو، دنیا کا نظام اس وقت تک درست نہیں ہو سکتا، جب تک کہ اس کا ظاہر وباطن ایک نہ کر دیا جائے (دعوتِ دین اور اقامتِ دین کے نقطۂ نظر سے یہ بڑی اہم ہدایت ہے)۔ اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہو، علم کی نگہداشت رکھو، دنیا کوبالکل حقیر سمجھو، دنیا کے کسی کام میں مطمئن ہوکر نہ لگ جاؤ، خدا تعالیٰ کے یہاں تمام باتوں کی بازپرس ہوگی، اللہ کا ذکر کثرت سے کرتے رہو؛ اتنی ہی عبادت پراکتفا نہ کرو، جتنی عام لوگ کرتے ہیں، جس وقت اذان کی آواز آئے فوراً نماز کی تیاری اور مسجد میں پہنچنے کی کوشش کرو، ہرنماز کے بعد کچھ دیر قرآن کی تلاوت اور ذکرِالہٰی میں مشغول رہو، اس بات پراللہ کا شکر ادا کرو کہ اس نے دین پرجمے رہنے کی توفیق دی اور طرح طرح کی نعمتیں عطا کیں، تلاوتِ قرآن پرمداومت رکھو، جب تک لوگ تم کوخود امام نہ بنائیں آگے نہ بڑھو، ہرمہینہ میں دوچار دن روزہ کے لی مقرر کرلو، زیارتِ قبر کی عادت ڈالو، موت کوہمیشہ یاد رکھو۔

معاشرت وآدابِ معاشرت

[ترمیم]

جولوگ اپنی خواہشات کے بندے ہو چکے ہیں، ان سے ربط ضبط نہ رکھو؛ مگرتبلیغ اور دعوتِ دین کی غرض سے ان سے ملنا یاتعلق قائم کرنا مناقب ہے، کسی پرلعن نہ کرو؛ اگرکسی انسان میں اپنی طرف سے برائی دیکھو تواس کے لیے بھلائی چاہو اور بھلائی کے ساتھ اس کا تذکرہ کرو؛ مگریہ برائی اگر دین کے بارے میں ہے تولوگوں سے اس کا تذکرہ کرو؛ تاکہ لوگ اس کی اتباع نہ کریں اور اس برائی سے محفوظ رہ سکیں، تجارت اور کاروباری معاملات کے بارے میں زیادہ گفتگو نہ کرو؛ ورنہ لوگوں کوخیال ہوگا کہ تم مال کے حریص ہو، یہ بھی گمان ہوگا کہ تم رشوت لیتے ہو، عام آدمیوں اور خصوصیت سے دولتمندوں سے کم میل جول رکھنا؛ ورنہ ان کوگمان ہوگا کہ تم ان سے کچھ توقع رکھتے ہو؛ اگرتم دس برس بھی کسی ذریعہ معاش کے بغیر رہو توعلم دین سے گریز نہ کرنا؛ اگرگریز کروگے تواس آیت کے مصداق ہوگے: وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا۔ [105] ترجمہ:جس نے ہماری یاد سے منہ موڑا اس کے لیے معاشی تنگی ہے۔ اس وقت شادی کرنا جب یہ یقین ہوجائے کہ اہل و عیال کی تمام ذمہ داریاں اُٹھاسکوگے؛ حتی الامکان ایسی عورت سے نکاح نہ کرنا جودوسرے شوہر سے اولاد رکھتی ہو، عام لوگوں کوذلیل نہ سمجھو؛ بلکہ ان کی توقیر کرو، جب تک یہ لوگ خود تعلقات قائم نہ کریں، خود اس کی کوشش نہ کرو (اوپر ذکر آچکا ہے کہ دعوتِ دین کے سلسلہ میں ان سے ملنا جلنا اور تعلق قائم کرنا چاہیے، یہ ہدایت عام ہے)۔ زیادہ نہ ہنسا کرو، اس سے قلب مردہ ہوجاتا ہے، جوکام کرو اطمینان اور وقار کے ساتھ کرو، جلدی نہ کرو، کوئی شخص پیچھے سے پکارے توجواب نہ دو، اس لیے کہ پیچھے سے پکارنا جانوروں کے لیے مخصوص ہے، راستہ چلو تودائیں بائیں نہ دیکھو؛ بلکہ نیچی نظریں کرکے چلو، بازار میں زیادہ نہ جایا کرو؛ گفتگو میں نہ سختی ودرشتی ہو اور نہ آواز بلند ہو؛ بلکہ متانت ووقار پیشِ نظر رہے، لہوولعب سے پرہیز کرو، لوگوں کے راز کوافشا نہ کرو، جوتم سے مشورہ کرے، تواپنی معلومات کے بقدر بتانے میں کوتاہی نہ کرو، اس سے اللہ کا تقرب حاصل ہوگا، اپنے ہمسایہ کی کوئی برائی دیکھو توپردہ پوشی کرو، اس لیے کہ یہ امانت ہے، بخل سے پرہیزکرو، حریص نہ بنو اور نہ کبھی جھوٹ بولو، بازاری لوگوں کی صحبت نہ اختیار کو، ہرمعاملہ میں اپنی عزت اور وقار کا خیال رکھو، ہمیشہ قلب میں استغناء رکھو، دنیا کی طمع ورغبت بالکل نہ کرو، اپنی طرف سے ہمیشہ استغنا کا ظہار کرو؛ خواہ تم مفلس ہی کیوں نہ ہو۔ ہرمعاملہ میں ہمت وجرأت سے کام لو، اس لیے جس کی ہمت کمزور ہوجاتی ہے، اس کا رتبہ بھی گرجاتا ہے، عام عورتوں سے بات چیت نہ کرو اور نہ ان کے ساتھ اُٹھو بیٹھو، اس سے قلب مردہ ہوجاتا ہے، بیوی کے ساتھ بھی بہت زیادہ بیت چیت میں مشغول نہ رہو، بقدرِ ضرورت خلاملا رکھو اور اس اثنا میں ذکرِالہٰی سے غافل نہ ہو، اپنی بیوی کے سامنے دوسری عورتوں کا تذکرہ نہ کرو؛ اس لیے کہ پھروہ بھی غیر مردوں کا تذکرہ شروع کر دیں گی؛ اِس لیے آپس میں اختلاف ہوگا۔ نوخیز لڑکوں سے بات چیت نہ کرو، اس لیے کہ اس سے فتنہ میں پڑجانے کا اندیشہ ہے، چھوٹے بچوں سے پیار کنے اور ان کے سرپردستِ شفقت پھیرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، بازار میں زیادہ نہ جایا کرو، راسہت میں نہ بیٹھا کرو؛ اگرراستے میں بیٹھنے کی ضرورت آجائے توپھرمسجد میں چلے جایا کرو۔ میں نے مختصر طور سے پوری وصیت کا ترجمہ کر دیا ہے، اس میں، میں نے اتنی تبدیلی ضرور کی ہے کہ بعض جملوں کومقدم اور بعض کومؤخر کر دیا ہے اور ان پرسرخیاں قائم کردی ہیں؛ تاکہ ایک مضمن سے متعلق تمام بتایں یکجا ہوجائیں۔ اس وصیت کوسامنے رکھ کراگرامام ابویوسف کے صحیفہ زندگی کا مطالعہ کیا جائے تومعلوم ہوگا کہ انھوں نے استاد کی اس نصیحت کواپنی زندگی کا لائحہ عمل بنالیا تھا؛ گویہ وصیت امام صاحب نے خاص طور پرامام ابویوسف کے لیے کی تھی؛ مگراس میں ہرشخص کی زندگی کے لیے بہترین مشورے اور نہایت قیمتی ہدایتیں موجود ہیں، جوانسان بننا چاہتا ہو۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کواس پرعمل کی توفیق دے، آمین۔

تالیفات

[ترمیم]

1- كتاب الآثار ابوحنیفہ نعمان ؒ - بروایت ، ابویوسف قاضی ؒ

[ترمیم]

یہ حدیث کی مشہور کتاب ہے جو امام ابوحنیفہؒ کی تصنیف ہے ۔ جس کو اُن سے بے شمار تلامذہ نے روایت کیا ہے ، جن میں امام ابویوسف ؒ بھی ہیں ۔

امام ابو یوسفؒ نے چند احادیث کا اس میں اضافہ بھی کیا ہے۔یہ نسخہ مولانا ابو الوفاء افغانی ؒ کی تحقیق سے طبع ہے ۔

مطبوعہ کتب :

[ترمیم]

1- كتاب الخراج

2- اختلاف ابی حنیفہ و ابن ابی لیلیٰؒ

3- الرد على سير الأوزاعیؒ

مخطوط کتب :

[ترمیم]

4- الامالي فِي الْفِقْہ

یہ فقہ اور حدیث کی عظیم و ضخیم کتاب ہے ۔ جو امام ابویوسفؒ کے کئی شاگردوں کی روایت سے ہے ، جن کو کتب فقہ میں اصحاب امالی کہا جاتا ہے ۔

علامہ محمد زاہد الکوثری ؒ کے پاس اس کا کچھ حصہ موجود تھا۔ امید ہے کہ دنیا میں اس کے مخطوطات موجود ہوں گے۔

وہ کتب جو شایدمفقود ہیں،اور ہم تک نہ پہنچ سکیں :

[ترمیم]
  • 5- كتاب النَّوَادِر۔
  • 6- اخْتِلَاف الْأَمْصَار۔
  • 7- أدب القَاضِي۔
  • 8- الرَّد على مَالك بن أنس۔
  • 9- الْفَرَائِض۔
  • 10- الْوَصَايَا۔
  • 11- الْوكَالَة۔
  • 12- الْبيُوع۔
  • 13- الصَّيْد والذبائح۔
  • 14- الْغَصْب والاستبراء۔
  • 15- كتاب الْجَوَامِع [106]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. عنوان : Абу Йусуф
  2. عنوان : Шейбани Мухаммад ибн Хасан
  3. عنوان : Ахмад ибн Ханбал
  4. عنوان : Identifiants et Référentiels — ایس یو ڈی او سی اتھارٹیز: https://www.idref.fr/076617440 — اخذ شدہ بتاریخ: 22 مئی 2020
  5. علامہ زید الکوثری (2012ء)۔ قاضی ابو یوسف حیات اور علمی کارنامے۔ کراچی: دار النعمان۔ ص 15۔ مورخہ 2018-12-24 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2017-05-08 {{حوالہ کتاب}}: الوسيط |pages= و|page= تكرر أكثر من مرة (معاونت)
  6. ابن عبد البر، الاستیعاب، جلد 2، صفحہ 884، تذکرہ 923
  7. (مناقب موفق اور تاریخِ بغداد میں
  8. (مناقب موفق:2/216)
  9. (ترجمہ ابی یوسف، مناقب موفق:2/214)
  10. (جلد:30، صفحہ نمبر:128)
  11. (مناقب مکی:2/213)
  12. (حسن التقاضی)
  13. (حسن التقاضی، بحوالہ کردری)
  14. (مبسوط:30/128)
  15. (حسن التقاضی:2/215)
  16. (مناقب کردی:2/415)
  17. (مناقب کردی:2/415)
  18. (مناقب کردی:2/215)
  19. (مناقب کردی:2/215)
  20. (حسن التقاضی:40)
  21. ((مناقب:2/232)
  22. (تاریخ بغداد، تہذیب اور حسن التقاضی:40)
  23. (حسن التقاضی)
  24. (مناقب کردی:2/232)
  25. (حسن التقاضی:19)
  26. (رسائل ابن جوزی، تذکرہ امام ابویوسف:42)
  27. (مناقب کردری:2/134)
  28. (البدایہ والنہایہ:10/196، شاملہ،موقع يعسوب۔ دیگرنسخہ:10/184)
  29. (ھامش سيرأعلام النبلاء:10/78، شاملہ،موقع يعسوب۔ توالی التاسیس:71)
  30. (مغیث الحق:18)
  31. (المقاصد الحسنة:1/249، شاملہ، موقع الوراق۔ دیگرمطبوعہ:222)
  32. (امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی سیاسی زندگی:35)
  33. (مرآة الجنان وعبرة اليقظان في معرفة حوادث الزمان:1/104، شاملہ، موقع الوراق،المؤلف: أبومحمد عبد الله بن أسعد بن علي بن سليمان اليافعي)
  34. (مرآة الجنان وعبرة اليقظان في معرفة حوادث الزمان:1/104، شاملہ، موقع الوراق،المؤلف: أبومحمد عبد الله بن أسعد بن علي بن سليمان اليافعي)
  35. (مفتاح الأفكار للتأهب لدار القرار:3/238، شاملہ، موقع مكتبة المسجد النبوي الشريف،المؤلف : أبومحمد عبد العزيز بن محمد بن عبد الرحمن)
  36. (امام صاحب کی سیاسی زندگی:357۔ مولانا مناظراحسن صاحب نے حوالہ نہیں نقل کیا ہے)
  37. (تاریخ بغدد:14۔ مناقب وموفق:2/246)
  38. (مناقب موفق:1/215)
  39. (مناقب موفق:2/217)
  40. (مناقب:2/244)
  41. (موفق:2/239)
  42. (مقریزی:4/181)
  43. (جواہرمضیہ:2/221)
  44. (موفق:2/239)
  45. (مناقب موفق:2/232)
  46. (موفق:2/232)
  47. (تاریخ خطیب بغدادی:8/453)
  48. (کردری:2/119)
  49. (موفق:2/242)
  50. (موفق:2/242۔ تاریخ بغداد)
  51. (تاریخ بغداد:14)
  52. (تاریخ بغداد:14۔ شذرات الذہب۔ کردری:2/50)
  53. (تاریخ بغداد:14)
  54. (کردری:2/126)
  55. (موفق:2/10)
  56. (حسن النقاضی:50)
  57. (کردی:27/143)
  58. (کردی:27/143)
  59. (جواہرمضیہ:2/52)
  60. (جواہرمضیہ:2/140)
  61. (موفق:2/225)
  62. (موفق:2/242)
  63. (موفق:2/242)
  64. (موفق:2/244)
  65. (ص:23)
  66. (موفق:2/244)
  67. (موفق:2/140)
  68. (موفق:2/231)
  69. (مفتاح العادہ:2/104)
  70. (مفتاح العادہ:2/106)
  71. (تاریخ بغداد:14)
  72. (موفق:2/)
  73. (کردری:2/127)
  74. (حسن التقاضی:30)
  75. (حسن التقاضی:30)
  76. (حسن التقاضی:29)
  77. (موفق:2/31)
  78. (التوبۃ:60)
  79. (کتاب الخراج:46)
  80. (الخراج:1/81، أبويوسف يعقوب بن إبراهيم،شاملہ، الناشر:المطبعةالسلفية ومكتبتها القاهرة۔ دیگرمطبوعہ:46)
  81. (الخراج:1/81، أبويوسف يعقوب بن إبراهيم،شاملہ، الناشر:المطبعةالسلفية ومكتبتها القاهرة۔ دیگرمطبوعہ:46)
  82. (الأنفال:41)
  83. (الخراج:1/18، أبويوسف يعقوب بن إبراهيم،شاملہ، الناشر:المطبعةالسلفية ومكتبتها القاهرة۔ دیگرمطبوعہ:46)
  84. (النحل:8)
  85. (الأنفال:60)
  86. (الخراج:1/18، أبويوسف يعقوب بن إبراهيم،شاملہ، الناشر:المطبعةالسلفية ومكتبتها القاهرة۔ دیگرمطبوعہ:46)
  87. (الخراج:1/18، أبويوسف يعقوب بن إبراهيم،شاملہ، الناشر:المطبعةالسلفية ومكتبتها القاهرة۔ دیگرمطبوعہ:10)
  88. (کردری:2/126)
  89. (تاریخ بغداد:14۔ تذکرۃ الحفاظ:1/261)
  90. (جزءالذہبی:40)
  91. (جزء الذہبی:142)
  92. (کردری:330۔ موفق:2/233)
  93. (کردری:2/137)
  94. (کردری:2/126)
  95. (کردری:1/50)
  96. (حسن التقاضی:62)
  97. (حسن التقاضی:25)
  98. (مقدمہ ابن خلدون:1/257، شاملہ، موقع الوراق)
  99. (حسن التقاضی:35)
  100. (کردری:2)
  101. (جزء الذہبی:46)
  102. (مناقب موفق:2/221)
  103. (مفتاح السعادۃ۔ کردری۔ موفق وغیرہ)
  104. (مبسوط:30/128)
  105. (طٰہٰ:124)
  106. الخراج مؤلف : ابو يوسف يعقوب بن ابراہيم بن حبيب بن سعد بن حبتۃ الانصاری ناشر : المكتبۃ الازہریۃ للتراث القاہرہ