ظفیر الدین مفتاحی
مولانا، مفتی ظفیر الدین مفتاحی | |
---|---|
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے دوسرے صدر | |
برسر منصب 2002 سے 31 مارچ 2011 تک | |
پیشرو | قاضی مجاہد الاسلام |
جانشین | نعمت اللہ اعظمی[1] |
ذاتی | |
پیدائش | 7 مارچ 1926 |
وفات | 31 مارچ 2011 | (عمر 85 سال)
مذہب | اسلام |
نسلیت | ہندوستانی |
فقہی مسلک | حنفی |
تحریک | دیوبندی |
قابل ذکر کام | عزیز الرحمن عثمانی کے فتاوی دار العلوم دیوبند کی ترتیب ، اسلام کا نظامِ مساجد |
مرتبہ | |
استاذ | حبیب الرحمٰن الاعظمی، مولانا حسین احمد مدنی، سلیمان ندوی، منت اللہ رحمانی، ابو الحسن علی ندوی، محمد طیب قاسمی |
ظفیر الدین مفتاحی (7 مارچ 1926ء - 31 مارچ 2011ء) ایک ہندوستانی مسلمان عالم اور فقیہ تھے، جنھوں نے دار العلوم دیوبند کے مفتی اور اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے دوسرے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ وہ عزیز الرحمن عثمانی کے 12 جلدوں پر مشتمل مجموعۂ فتاوی ("فتاوی دار العلوم دیوبند") کے مرتب، اسلام کا نظامِ مساجد، اسلام کا نظامِ عفت و عصمت اور تاریخِ مساجد جیسی کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کلیہ سنی دینیات میں بورڈ آف اسٹڈیز کے رکن بھی رہے۔
1926 میں دربھنگہ میں پیدا ہوئے۔ ان کی تعلیم جامعہ مفتاح العلوم مئو سے ہوئی تھی۔ انھوں نے تقریباً پچاس سال دارالعلوم دیوبند میں خدمات انجام دیے۔ انھوں نے تقریباً ایک لاکھ فتاوٰی جاری کیے۔ 31 مارچ 2011 کو ان کا انتقال ہو گیا۔
سوانح
[ترمیم]ظفیر الدین مفتاحی 7 مارچ 1926 (22 شعبان 1344 ہجری) کو دربھنگہ میں پیدا ہوئے۔[2] ان کی ابتدائی تعلیم گھر پر پھر مدرسہ محمودیہ راج پور، ترائی، نیپال میں ہوئی۔ انھوں نے 1933ء سے 1940ء تک مدرسہ وارث العلوم چھپرا، بہار میں عربی و فارسی کی درمیانی درجات کی تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے جامعہ مفتاح العلوم مئو سے تعلیم کی تکمیل کی، جہاں انھوں نے 1940 سے 1944 تک حبیب الرحمن محدث اعظمی اور عبد الطیف نعمانی سے تعلیم حاصل کی۔[3] ان کے دیگر اساتذہ میں حسین احمد مدنی ، سید سلیمان ندوی ، منت اللہ رحمانی ، ابوالحسن علی ندوی اور محمد طیب قاسمی شامل ہیں۔[4]
1944ء میں اپنے فارغ التحصیل ہونے کے بعد انھوں نے جامعہ مفتاح العلوم میں ایک سال درس دیا۔ پھر معدن العلوم لکھنؤ چلے گئے، جہاں انھوں نے ستمبر 1945ء سے جنوری 1948ء تک تین سال تک درس دیا۔[3] جنوری 1948 سے لے کر 1956 تک دار العلوم معینیہ بیگوسرائے میں مدرس رہے ، اسی عرصہ کے دوران آپ ایک سال جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل میں بھی استاذ رہے۔[3] شوال 1364 ہجری میں مفتی ظفیر الدین سید سلیمان ندوی کے مشورہ پر دار العلوم ندوۃ العلماء بھی گئے تھے، جہاں کچھ مہینوں تک انھوں نے تعلیم حاصل کی۔[3]
مفتی ظفیر الدین کو پہلے دار العلوم دیوبند میں ترتیبِ فتاوی کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔[5] 1962 سے 1972 کے درمیان انھوں نے عزیز الرحمن عثمانی کا مجموعۂ فتاوٰی بارہ جلدوں میں مرتب کیا۔[3] صفر 1385 ہجری میں دار العلوم دیوبند کی مجلس شورٰی نے انھیں "ماہنامہ دار العلوم" " کا اداریہ لکھنے کے لیے منتخب کیا، جو انھوں نے مسلسل سترہ سال تک لکھا۔[6][7] 1993 میں دار العلوم دیوبند کے دار الافتا میں مفتی کے عہدہ پر فائز کیے گئے۔ 21 اگست 2008 تک انھوں نے اس عہدہ پر رہ فتوی نویسی کے فرائض انجام دیے۔[6] انھوں نے پچاس سال دار العلوم دیوبند میں خدمات انجام دیں اور بہ قول سعید احمد پالنپوری مفتی صاحب نے تقریبا ایک لاکھ فتاوی لکھے ہیں۔[8] وہ 22 اگست 2008 کو دیوبند سے 2000 ₹ کی ماہانہ پنشن پر ریٹائر ہوئے، جو انھیں تازندگی وصول ہوتی رہی۔[6]
مفتی صاحب کی شخصیت اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے لیے ایک بانی شخصیت کی تھی اور قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کے بعد انھیں اس کا صدر بھی منتخب کیا گیا۔[9] وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کلیہ سنی دینیات میں بورڈ آف اسٹڈیز کے ایک ممبر بھی تھے۔[10]
31 مارچ 2011ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کی نماز جنازہ یکم اپریل 2011 کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں کلیہ سنی دینیات کے سابق ڈین سعود عالم قاسمی نے پڑھائی۔[11]
قلمی خدمات
[ترمیم]مفتی ظفیر الدین نے 1962 سے 1972 کے درمیان عزیز الرحمن عثمانی کے مجموعۂ فتاوٰی کو بارہ جلدوں میں مرتب کیا، جو "فتاوٰی دار العلوم دیوبند" کے نام سے معروف ہے۔[3][12]
تصانیف
[ترمیم]ان کی کچھ کتابوں کے نام درج ذیل ہیں:[7][13]
- کشف الاسرار اردو ترجمہ و تشریح الدر المختار (4 جلدوں میں)
- "اسلام کا نظامِ مساجد" یا "نظام المساجد" (اس کا انگریزی ترجمہ "موسک اِن اسلام" (Mosque in Islam) ظہیر النبی نے 1996 میں انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز ، نئی دہلی کے ذریعہ شائع کیا تھا)۔
- "اسلام کا نظامِ عفت و عصمت" اس کا انگریزی ترجمہ "موڈیسٹی اینڈ چیسٹیٹی اِن اسلام" (Modesty and chastity in Islam) پہلی بار کویت میں اور دوسری بار 1993 کے دوران قاضی پبلشرز کے ذریعہ نئی دہلی میں شائع کیا گیا تھا۔ تہران میں فارسی ترجمہ "حجاب و عفت از دیدگاہِ اسلام" کے نام سے شائع ہوا۔
- تاریخِ مساجد
- اسوۂ حسنہ: مصائبِ سرور کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مفصل بیان
- تعارفِ مخطوطات کتب خانہ دار العلوم دیوبند
- جماعتِ اسلامی کے دینی رجحانات
- مشاہیر علمائے دیوبند
- دار العلوم دیوبند: قیام و پسِ منظر
- دار العلوم: ایک عظیم مکتبِ فکر
- نظامِ تربیت (دار العلوم دیوبند نے اس کا عربی ترجمہ عناية الإسلام على تربية الإسلام شائع کیا ہے)۔
- اسلام کا نظامِ تعمیرِ سیرت
- مسائلِ حج و عمرہ
- اسلام کا نظامِ حیات
- درسِ قرآن (دس جلدیں)
- حکیم الاسلام اور ان کی مجالس [ا]۔
- جرم و سزا کتاب و سنت کی روشنی میں
- اسلامی حکومت کے نقش و نگار
- اسلام کا نظامِ امن
- حیاتِ مولانا گیلانی یا حیاتِ گیلانی
- حضرت نانوتوی ایک مثالی شخصیت
- تذکرہ مولانا عبد اللطیف نعمانی
- مشاہیر اکابر و معاصرین
- مشاہیر علمائے دیوبند کے علمی مراسلے
- تاریخی حقائق
- اسلامی نظام زندگی کے آثار و نقوش
- اسلامی نظامِ معیشت
- اسلام کا نظامِ تربیت
- امارت شرعیہ دینی جدوجہد کا روشن باب
- امارت شرعیہ کتاب و سنت کی روشنی میں
- درس قرآن
- "تفسیر حل القرآن" پر عنوانات کا اضافہ
- "ہندوستان میں نظام تعلیم و تربیت" پر عنوانات کا اضافہ
- زندگی کا علمی سفر
مقالات
[ترمیم]نور عالم خلیل امینی اپنی کتاب رفتگانِ نارفتہ میں رقم طراز ہیں:
اس کے علاوہ 134 مقالات کی فہرست، تاریخ اشاعت اور ان رسالوں کی نشان دہی کے ساتھ جن میں یہ مقالے چھپے تھے، مفتی صاحب نے اپنی کتاب زندگی کا علمی سفر کے آخر میں درج کی ہے اور تحریر فرمایا ہے کہ اتنے ہی مقالات اور ہوں گے جنھیں میں نہیں جمع کرسکا۔[13]
ملاحظہ
[ترمیم]- ↑ حکیم الاسلام؛ دیوبندیوں کی طرف سے محمد طیب قاسمی کے لیے استعمال کردہ ایک اعزازی لقب ہے۔
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ "مولانا نعمت اللہ اعظمی اسلامی فقہ اکیڈمی کے صدر منتخب ہوئے"۔ ٹو سرکلز۔ 31 مئی 2011۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-10-07
- ↑ امینی، نور عالم خلیل، پسِ مَرگِ زندہ، ص 929
- ^ ا ب پ ت ٹ ث امینی، نور عالم خلیل، پسِ مَرگِ زندہ، ص 930
- ↑ امینی، نور عالم خلیل، پسِ مَرگِ زندہ، ص 922
- ↑ قاسمی، محمد سعود عالم (مدیر)۔ "مولانا مفتی ظفیر الدین مفتاحی کا علمی امتیاز"۔ حیاتِ ظفیر (ستمبر 2011 اشاعت)۔ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا: اسلامک فقہ اکیڈمی پبلیکیشنز۔ ص 132
- ^ ا ب پ امینی، نور عالم خلیل، پسِ مَرگِ زندہ، ص 931
- ^ ا ب احمد سجاد قاسمی، "مولانا مفتی ظفیر الدین کی تصانیف ایک نظر میں"، بہ قاسمی، محمد سعود عالم (مدیر)، حیات ظفیر، ص 219–223
- ↑ قاسمی، محمد سعود عالم (مدیر)، "مولانا مفتی ظفیر الدین مفتاحی نے ایک لاکھ فتاوی تحریر فرمائے از سعید احمد پالن پوری"، حیات ظفیر، ص 31-32
- ↑ قاسمی، محمد سعود عالم (مدیر)، "مولانا مفتی ظفیر الدین مفتاحی کی علمی و دینی خدمات از عتیق احمد بستوی"، حیات ظفیر، ص 153-154
- ↑ قاسمی، محمد سعود عالم (مدیر)، "مولانا مفتی ظفیر الدین صاحب اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی از شمیم اختر قاسمی"، حیات ظفیر، ص 363
- ↑ قاسمی، محمد سعود عالم (مدیر)، "ابا جان - دار العلوم دیوبند سے خدا کے حضور تک از احمد سجاد قاسمی"، حیات ظفیر، ص 130
- ↑ جولیا اسٹیفنز (21 جون 2018 بزبان انگریزی)۔ Governing Islam: Law, Empire, and Secularism in Modern South Asia۔ کیمبرج یونیورسٹی پریس۔ ص 77۔ ISBN:9781107173910۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 اکتوبر 2020
{{حوالہ کتاب}}
: تحقق من التاريخ في:|date=
(معاونت) - ^ ا ب رفتگانِ نارفتہ: مولانا مفتی ظفیر الدین مفتاحی دربھنگوی، نور عالم خلیل امینی_سن طباعت: شعبان 1442ھ/ مارچ 2021ء، پہلا ایڈیشن، صفحہ: 260-261۔
کتابیات
[ترمیم]- نایاب حسن قاسمی۔ "مفتی ظفیر الدین مفتاحی"۔ دار العلوم دیوبند کا صحافتی منظرنامہ (2013 اشاعت)۔ دیوبند: ادارہ تحقیق اسلامی۔ ص 214–216
- قاسمی، محمد سعود عالم (مدیر)۔ حیاتِ ظفیر (ستمبر 2011 اشاعت)۔ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا: اسلامک فقہ اکیڈمی پبلیکیشنز
- امینی، نور عالم خلیل۔ "حضرت مولانا مفتی محمد ظفیر الدین مفتاحی صاحب"۔ پسِ مَرگِ زندہ۔ دیوبند: ادارہ علم و ادب۔ ص 913–932