دار الحدیث (دار العلوم دیوبند)
دار الحدیث | |
---|---|
عمومی معلومات | |
حیثیت | قائم و آباد |
معماری طرز | اسلامی طرز تعمیر |
مقام | دار العلوم دیوبند |
شہر یا قصبہ | دیوبند، ضلع سہارنپور |
ملک | بھارت |
آغاز تعمیر | 20 ربیع الآخر 1330ھ |
تکمیل | 1349ھ مطابق 1930ء |
دار الحدیث دار العلوم دیوبند کی ایک عمارت ہے جس میں حدیث کی تعلیم ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں "دار الحدیث" کے نام سے یہ پہلی عمارت ہے جو اس غرض کے لیے وجود میں آئی۔ اس میں شک نہیں کہ اسلامی عہد کے ہندوستان میں جابجا مدارس موجود تھے لیکن مدارس کی اس کثرت و بہتات کے باوصف ہندوستان میں کوئی عمارت اس نام سے اس سے پیشتر نہیں بنی۔ ہندوستان کی سرزمین پر یہ پہلا موقع تھا کہ دار الحدیث کے نام سے ایک بڑی عمارت بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔[1]
سنگ بنیاد
[ترمیم]دار العلوم میں دار الحدیث کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں 20 ربیع الآخر 1330ھ کو ایک عام جلسہ منعقد کیا گیا جس میں ملک کے مختلف مقامات کے لوگوں نے شرکت کی۔ طلبہ نے باصرار مزدوروں کی بجائے نہایت ذوق و شوق کے ساتھ والہانہ انداز میں خود بنیاد کھودی۔ محمود حسن دیوبندی، خلیل احمد سہارنپوری، اشرف علی تھانوی اور عبد الرحیم رائے پوری نے اس کی سنگ سنگ بنیاد رکھی۔ اشرف علی تھانوی نے اس موقع پر کہا :
” | سب صاحب ایک ایک، دو دو اینٹ اپنے ہاتھ سے رکھ دیں۔ نہ معلوم حق تعالیٰ کے یہاں کس کا خلوص قبول ہو جائے۔ | “ |
چنانچہ تمام شرکائے جلسہ نے دو دو اینٹیں رکھیں۔[2]
بنیاد میں طلبہ کی جانفشاں محنت
[ترمیم]دار الحدیث کی تعمیر اس وقت کے طلبہ نے جس مخلصانہ ہمت ، محبت اور جوش عمل کا مظاہرہ کیا اسے بھلایا نہیں جا سکتا ، دار العلوم کی روداد میں جو تفصیل درج ہے ، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ : سنگ بنیاد کے بعد ایک مرتبہ ایک طوفانی بارش ہوئی ، اس وقت کنکریٹ کٹوانے کا کام جاری تھا ، چونکہ اس قریب ہی تالاب تھا ،پانی بنیادوں میں بھر گیا ، مزدور بڑی مشکل سے دستیاب تھے ، کام بہت زیادہ تھا ، عمارتوں کی بنیاد کو خطرہ لاحق تھا ، بالآخر شام کے وقت طلبہ نے کمر ہمت باندھ لی اور بالٹیاں لے کر کھڑے ہو گئے ، ایک گھنٹہ میں تمام پانی نکال کر تالاب میں ڈال دیا ، پانی نکلنے کے بعد ایک سخٹ مرحلہ ابھی باقی تھا ، بنیاد میں نصف قد آدم دلدل ہوگیی تھی ، اس موقع پر مدرسین اور طلبہ کی محنت و جانفشانی کا منظر قابل دید تھا ، کیی سو طلبہ لگے ہویے تھے اور قطاریں بنا کر آنا فانا میں گارے کی بالٹیاں بھر بھر کر تالاب میں پہنچا رہے تھے ، رجزیہ اشعار پڑھتے جاتے ، جو کام مہینے بھر میں مزدوروں سے ہونا مشکل تھا وہ طلبہ نے دو دن میں کر دیا ، الغرض جیسی مقدس اور متبرک تعمیر تھی ویسے ہی مخلص ہاتھوں سے بنیاد تعمیر ہوئی اور طلبہ کی یہ آرزو کہ دار الحدیث کی بنیاد ہم کھودیں گے ، اب مع شیی زائد پوری ہوگیی ۔ عالم اسلام میں ماضی میں جو دار الحدیث بنایے گئے ان کے بنانے والے سلاطینا ور فرماں روا تھے ، اس دار الٓحدیث کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی تعمیر میں غریب عوام کا ہاتھ کار فرما رہا اور انھیں کی معمولی معمولی امدادوں سے یہ عظیم الشان عمارت عالم وجود میں آئی ہے ۔[3]
کیفیت اور خواص
[ترمیم]دار الحدیث ، دار العلوم دیوبند کی عمارتوں کا نقطہ آغاز ہونے کے علاوہ دار العلوم کی تمام عمارتوں میں اپنی بلندی ، وسعت اور شان و شکوہ کے لحاظ سے امتیازی حیثیت رکھتا ہے ، 1293ھ مطابق 1876ء میں اولا نودرہ کے نام سے اس کا آغاز ہوا ، نودرہ کی دو منزلہ عمارت شرق رویہ ہے ، اس کے نیچے والی منزل میں 36×25 مربع فٹ کے تین ہال ہیں ، جن کے سامنے نودرہ کا ایک طویل دالان ہے ، اوپر والی منزل میں ایک وسیع ہال ہے ، جس کا رقبہ 68×35 ہے ، یہاں دورہ حدیث شریف کے اسباق ہوتے تھے اور چونکہ بالایی منزل ہے ، اس لیے اسے دار الحدیث فوقانی کہتے ہیں ۔ نودرے کی پشت پر بجانب مغرب دار الحدیث کی عظیم الشان اور پرشکوہ عمارت ہے ، برصغیر کی سر زمین پر دار الحدیث کے نام کی یہ پہلی عمارت ہے ، دار الحدیث کا ہال کا طول 68 فٹ ہے اور عرض 35 فٹ ہے ، اس کے گرد و پیش 13 کمرے ہیں جو درسگاہوں کے طور پر کام آتے ہیں ، نودرہ کا رخ مشرق کی جانب اور دار الحدیث کا رخ مغرب کی جانب ہے ، اس رخ پر پتھر کے ستونوں کا دالان ہے ، دار الحدیث کے سامنے ایک وسیع میدان ہے ، جس میں چمن بندی کی گیی ہے ـ[4]
تکمیل
[ترمیم]اس عمارت کی تکمیل 1349ھ مطابق 1930ء میں ہوئی ۔[5]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ مورخہ 2018-09-03 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-08-29
- ↑ تاریخ دار العلوم دیوبند جلد 1 صفحہ 227
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ مورخہ 2018-09-03 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-08-29
- ↑ تاریخ دار العلوم دیوبند جلد 2 صفحہ 335
- ↑ تاریخ دار العلوم دیوبند جلد 2 صفحہ 336