عمر مختار
عمر مختار | |
---|---|
(عربی میں: عمر المختار) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 20 اگست 1858ء [1][2] برقہ |
وفات | 16 ستمبر 1931ء (73 سال)[2] لیبیا |
وجہ وفات | پھانسی |
طرز وفات | قتل |
شہریت | لیبیا |
تعداد اولاد | 2 |
عملی زندگی | |
پیشہ | مزاحمتی لڑاکا |
دستخط | |
درستی - ترمیم |
عمر مختار (عربی: عمر المختار) لیبیا پر اطالوی قبضے کے خلاف تحریک مزاحمت کے معروف رہنما تھے۔ وہ 1858ء میں جنزور نامی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے 1912ء میں لیبیا پر اٹلی کے قبضے کے خلاف اگلے 20 سال تک تحریک مزاحمت کی قیادت کی۔
اطالوی حملہ
[ترمیم]اکتوبر 1911ء میں اٹلی کے بحری جہاز لیبیا کے ساحلوں پر پہنچے۔ اطالوی بیڑے کے سربراہ فارافیلی نے مطالبہ کیا کہ لیبیا ہتھیار ڈال دے بصورت دیگر شہر تباہ کر دیا جائے گا۔ حالانکہ لیبیائی باشندوں نے شہر خالی کر دیا لیکن اٹلی کو ہر صورت میں حملہ کرنا تھا اور انھوں نے تین دن تک طرابلس پر بمباری کی اور اس پر قبضہ کر لیا۔ یہیں سے اطالوی قابضوں اور عمر مختیار کی زیر قیادت لیبیائی فوجوں کے درمیان میں جنگوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
گوریلا جنگ
[ترمیم]عمر مختار جو معلم قرآن تھے صحرائی علاقوں سے بخوبی واقف تھے اور وہاں لڑنے کی حکمت عملیوں کو بھی خوب سمجھتے تھے۔ انھوں نے علاقائی جغرافیہ کے بارے میں اپنی معلومات کا اطالوی فوجوں کے خلاف بھرپور استعمال کیا۔ وہ اکثر و بیشتر چھوٹی ٹولیوں میں اطالویوں پر حملے کرتے اور پھر صحرائی علاقے میں غائب ہوجاتے۔ ان کی افواج چوکیوں، فوجی قافلوں کو نشانہ بناتی اور رسد اور مواصلات کی گذرگاہوں کو کاٹتی۔
عقوبت گاہیں
[ترمیم]عمر مختار کی زیر قیادت مزاحمتی تحریک کو کمزور کرنے کے لیے اطالویوں نے نئی چال چلی اور مردوں، عورتوں اور بچوں کو عقوبت گاہوں میں بند کر دیا۔ ان عقوبت گاہوں کا مقصد یہ تھا کہ مزید لیبیائی باشندوں کو عمر مختار کی مزاحمتی تحریک میں شامل ہونے سے روکا جائے۔ ان کیمپوں میں ایک لاکھ 25 ہزار باشندے قید تھے جن میں سے دو تہائی شہید ہو گئے۔
اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو قید کرنے کے باوجود عمر مختار کی تحریک رکی نہیں بلکہ انھوں نے اپنے ملک اور عوام کی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد جاری رکھی۔
گرفتاری و شہادت
[ترمیم]عمر مختار کی 20 سالہ جدوجہد اس وقت خاتمے کو پہنچی جب وہ ایک جنگ میں زخمی ہوکر اطالویوں کے ہاتھوں گرفتار ہو گئے۔
اس وقت ان کی عمر 73 سال سے زیادہ تھی اور اس کے باوجود انھیں بھاری زنجیروں سے باندھا گیا اور پیروں میں بیڑیاں ڈال دی گئیں۔ ان پر تشدد کرنے والے فوجیوں نے بعد ازاں بتایا کہ جب انھیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا یا تفتیش کی جاتی تو وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر قرآن مجید کی آیتیں تلاوت کرتے۔
ان پر اٹلی کی قائم کردہ ایک فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا اور سزائے موت سنادی گئی۔ تاریخ دان اور دانشور ان پر عائد مقدمے اور عدالت کی غیر جانبداری کو شکوک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان سے جب آخری خواہش پوچھی گئی تو انھوں نے "انا للہ و انا الیہ راجعون" پڑھا۔
انھیں 16 ستمبر 1931ء کو سرعام پھانسی دے دی گئی کیونکہ اطالوی عدالت کا حکم تھا کہ عمر مختار کو پیروکاروں کے سامنے سزائے موت دی جائے۔
صحرا کا شیر
[ترمیم]آج کل ان کی شکل لیبیا کے 10 دینار کے نوٹ پر چھپی ہوئی ہے جبکہ دنیا کی سب سے بڑی فلمی صنعت ہالی ووڈ نے 1981ء میں ان کی زندگی پر ایک فلم "The Lion of Desert" یعنی "صحرا کا شیر" بنائی۔ اس فلم کے ڈائریکٹر مصطفٰی العقاد تھے۔ فلم میں عمر مختار کا کردار انتھونی کوئن نے ادا کیا۔
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ https://pantheon.world/profile/person/Omar_Mukhtar — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب عنوان : Store norske leksikon — ایس این ایل آئی ڈی: https://wikidata-externalid-url.toolforge.org/?p=4342&url_prefix=https://snl.no/&id=Umar_al-Mukhtar — بنام: Umar al-Mukhtar
- 1858ء کی پیدائشیں
- 20 اگست کی پیدائشیں
- 1931ء کی وفیات
- 16 ستمبر کی وفیات
- لیبیا میں موت
- اشاعرہ
- اسلام ناؤ خانے
- 1862ء کی پیدائشیں
- اطالوی لیبیا
- اطالیہ سے سزائے موت بذریعہ پھانسی پانے والے
- اطالیہ لیبیا تعلقات
- بنو ہلال
- پھانسی لگائے گئے لوگ
- سزائے موت بذریعہ پھانسی پانے والے لیبیائی
- سزائے موت یافتہ لیبیائی شخصیات
- سنی مسلم شخصیات
- فعالیت پسند آزادی
- گوریلا جنگ نظریہ ساز
- لیبیائی انقلابی
- لیبیائی باغی
- لیبیائی سنی مسلم
- لیبیائی مسلم
- لیبیائی معلمین
- مسلم جوامع
- حفاظ قرآن