مندرجات کا رخ کریں

ایمان بالقدر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ایمان
ایمان باللہ ایمان بالملائکہ
ایمان بالکتب ایمان بالرسالت
ایمان بالقدر ایمان بالآخرت



یہ عقیدہ کہ انسان کے تمام اعمال و افعال خدا کی طرف سے پہلے سے طے کردہ ہوتے ہیں بہت قدیم ہے۔ اس عقیدے کے آثار سمیری، مصری اور اشوری تہذیبوں میں بھی ملتے ہیں۔ ان قوموں کے عقیدہ کے مطابق انسان بالکل مجبور ہے اور خدا نے نیکی، بدی، خوش حالی، مفلسی پہلے سے انسان کے لیے طے کر رکھی ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔

اسلام میں عقیدۂ تقدیر

[ترمیم]

اسلام میں تقدیر بارے 3 قسم کے نظریات پائے جاتے ہیں :

1. جبریہ کا عقیدہ

[ترمیم]

واصل ابن عطا جبریہ فرقے کا بانی تھا۔ اس کے عقیدہ کے مطابق انسان اپنے ہر عمل میں تقدیر کا پابند ہے اور وہ جو کچھ کرتا ہے اپنی تقدیر کی وجہ سے وہ سب کرنے پر مجبورِ محض ہے۔

نتیجہ: انسان اپنے کسی بھی عمل کا حساب دینے کا پابند نہیں، خواہ وہ اس نے کسی بھی وجہ سے کیا ہو۔

2. قدریہ کا عقیدہ

[ترمیم]

جہم بن صفوان قدریہ فرقے کا بانی تھا۔ اس کے عقیدہ کے مطابق انسان اپنے ہر عمل میں آزاد اور خود مختار ہے اور وہ جو کچھ کرتا ہے سب اپنی مرضی سے کرتا ہے۔

نتیجہ: انسان اپنے ہر عمل کا حساب دینے کا پابند ہے، خواہ وہ اس نے کسی بھی وجہ سے کیا ہو۔

3. معتدل عقیدہ

[ترمیم]

جبریہ اور قدریہ کے برخلاف اشاعرہ اور ماتریدیہ کا مسلک متوازن ہے۔ ان کے مطابق انسان اپنے بعض اعمال میں مجبور ہے اور بعض میں مختار ہے۔

نتیجہ: انسان اپنے انہی اعمال کا حساب دینے کا پابند ہوگا جو وہ اپنی رضا و رغبت سے کرتا ہے۔ مجبوری میں کیے جانے والے اعمال کی بابت اس سے باز پرس نہیں ہو گی۔

ایک مثال

[ترمیم]

سیدنا علی ابن ابی طالب سے کسی نے جبر و قدر بارے سوال کیا تو آپ نے بڑی سادہ مثال سے اسے واضح فرمایا۔ وہ آدمی کھڑا تھا۔ آپ نے اسے فرمایا: ’’اپنا دایاں پاؤں زمین سے اٹھاؤ‘‘۔ اس نے اٹھا لیا تو آپ نے فرمایا: ’’اب دوسرا پاؤں بھی اٹھاؤ‘‘۔ اس نے کہا اس طرح تو میں گر جاؤں گا۔ آپ نے فرمایا: ’’انسان ایک وقت میں ایک پاؤں اٹھانے پر مختار ہے اور ایک ساتھ دونوں پاؤں نہ اٹھا سکنے پر مجبور ہے۔ ‘‘ یہی راہِ اعتدال ہے۔

قضا کا مفہوم

[ترمیم]

قضا کا لغوی معنی فیصلہ کرنا، ادا کرنا اور انجام دینا ہے۔[1]

اس سے مراد وہ اصول اور قوانین فطرت ہیں، جن کے تحت یہ کارخانہ قدرت اپنے وقت پر معرض وجود میں لایا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ صادر فرما دیا کہ اگر کوئی شحص نیکی کرے گا تو اس کے نتائج بھی نیک ہوں گے اور برائی کے ثمرات بھی ویسے ہی برے ہوں گے، ارشاد باری تعالیٰ ہے :

لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ. [2]

’’اس نے جو نیکی کمائی اس کے لیے اس کا اجر ہے اور اس نے جو گناہ کمایا اس پر اس کا عذاب ہے۔‘‘

قدر کا مفہوم

[ترمیم]

قدر کا لغوی معنی اندازہ کرنا، طے کرنا اور مقرر کرنا ہے۔[3]

اس سے مراد کائنات اور بنی نوع انسان کے احوال کا وہ علم ہے، جو اللہ تعالیٰ کے پاس لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَكُلَّ شَيْءٍ أحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُبِينٍ [4]

’’اور ہر چیز کو ہم نے روشن کتاب (لوحِ محفوظ) میں احاطہ کر رکھا ہے۔‘‘

تقدیر حدیث کی رو سے

[ترمیم]

بہت سی احادیث میں بھی اس مسئلہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو سے مروی ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال قبل تمام مخلوقات کی تقدیریں لکھ دی تھیں، یہ تب کی بات ہے جب اس کی حکمرانی پانی پر تھی۔‘‘[5]

تقدیر کی اقسام

[ترمیم]

تقدیر قطعاً ایسی چیز نہیں جس میں تبدیلی نہ ہو سکے۔ تقدیر کی درج ذیل تین اقسام ہیں :

  1. تقدیر مبرم حقیقی
  2. تقدیر مبرم غیر حقیقی
  3. تقدیر معلق

1. تقدیر مبرم حقیقی

[ترمیم]

پہلی قسم تقدیر مبرم حقیقی ہے۔ یہ آخری فیصلہ ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے لوح محفوظ پر لکھ دیا جاتا ہے اور اس میں تبدیلی نا ممکن ہے اسی لیے جب فرشتے قوم لوط علیہ السلام پر عذاب کا حکم لے کر آئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بارگاہ خداوند میں عرض کے باوجود اﷲتعالیٰ نے عذاب نازل کرنے کا حکم دیا اور فرمایا :

يَا إِبْرَاهِيمُ أَعْرِضْ عَنْ هَذَا إِنَّهُ قَدْ جَاءَ أَمْرُ رَبِّكَ وَإِنَّهُمْ آتِيهِمْ عَذَابٌ غَيْرُ مَرْدُودٍ[6]

’’(فرشتوں نے کہا:) اے ابراہیم! اس (بات) سے درگزر کیجئے، بیشک اب تو آپ کے رب کا حکمِ (عذاب) آچکا ہے اور انھیں عذاب پہنچنے ہی والا ہے جو پلٹایا نہیں جا سکتا۔‘‘

چونکہ یہ عذاب قضائے مبرم حقیقی تھا اس لیے نہ ٹل سکا۔

2. تقدیر مبرم غیر حقیقی

[ترمیم]

دوسری قسم تقدیر مبرم غیر حقیقی ہے، جو عام حالات میں تو طے شدہ ہوتی ہے مگر خاص حالات میں اکابر اولیاء و صالحین کی دعا سے اس میں تبدیلی ممکن ہے۔ اسی نسبت احادیث میں ارشاد ہوتا ہے :

لَا يُرَدُّ الْقَضَاءِ إِلاَّ الدُّعَاءَ [7]

’’صرف دعا ہی قضا کو ٹالتی ہے۔‘‘

اِنَّ الدُّعَا يَرُدُّ الْقَضَآءَ الْمُبْرَمَ [8]

’’بے شک دعا قضائے مبرم کو ٹال دیتی ہے۔‘‘

3. تقدیر معلق

[ترمیم]

تیسری اور آخری قسم قضائے معلق کی ہے، جس تک اللہ تعالیٰ کے اکثر صالح اور نیک بندوں کی رسائی ہو سکتی ہے، خواہ وہ اللہ تعالیٰ کی عطا سے ہو یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت سے ہو یا اولیاء کرام کی دعاؤں سے، والدین کی خدمت سے یا صدقہ و خیرات سے ہو۔ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے بھی یہ وعدہ ہے کہ اگر کوئی بندہ چاہے تو ہم اس کے بدلنے والے ارادے، نیت اور دعا کے ساتھ ہی اس کی تقدیر بھی بدل دیں گے۔ سورۃ الرعد میں ارشاد فرمایا:

يَمْحُوا اللّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ [9]

’’اﷲ جس (لکھے ہوئے) کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) ثبت فرما دیتا ہے اور اسی کے پاس اصل کتاب (لوحِ محفوظ) ہے۔‘‘

سیدنا عمر کا عمل

[ترمیم]

سیدنا عمر کے زمانے میں شام میں طاعون کی وبا پھیلی اور اس زمانے میں حضرت عمر بھی شام کے سفر پر تھے۔ وباء کی وجہ سے انھوں نے وہاں سے نکلنے میں جلدی کی تو حضرت ابوعبیدہ نے فرمایا:

أتَفِرُّ مِنْ قَدْرِ اﷲِ؟

’’کیا آپ تقدیر سے بھاگتے ہیں؟‘‘

حضرت عمر نے اس کا جواب دیا:

أفِرُّ مِنْ قَضَاء اﷲ اِلٰی قَدْرِ اﷲِ[10]

’’میں اﷲ کی قضا سے اس کی قدر کی طرف بھاگتا ہوں۔‘‘

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر طاعون جیسا مرض کسی علاقے میں وباء کی صورت میں پھیل جائے اور میں کسی دوسرے علاقے میں پہنچ کر اس مرض سے بچ جاؤں تو میرا بچ جانا خدا کی تقدیر یعنی علم میں ہوگا۔

خلاصہ

[ترمیم]

اللہ رب العزت جب چاہتا ہے اپنے علم کے مطابق موقع بہ موقع تقدیر میں رد و بدل کرتا رہتا ہے اور یہ رد و بدل قضائے معلق کی صورت میں ہوتا ہے لیکن جو خدا کے علم میں آخری فیصلہ ہوتا ہے وہی ہو کر رہتا ہے۔[11]

مزید دیکھیے

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. راغب اصفہانی، المفردات، 406، 407
  2. القرآن، البقرہ، 2 : 286
  3. راغب اصفہانی، المفردات: 395
  4. القرآن، یسین: 36، 12
  5. مسلم، الصحيح، 4 : 2044، کتاب القدر، باب حجاج آدم و موسیٰ، رقم : 2653
  6. القرآن، ھود، 11 : 76
  7. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب القدر، باب ماجاء لا يرد القدر الا الدعاء، رقم : 2139
  8. ديلمي، الفردوس بما ثور الخطاب، 5 : 364، رقم : 8448
  9. القرآن، الرعد : 13، 39
  10. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 3 : 283
  11. کیا تقدیر کا فیصلہ اٹل ہوتا ہے یا بدل بھی سکتا ہے؟ دی فتویٰ ڈاٹ کوم