مندرجات کا رخ کریں

جمعیت اقوام

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
فائل:180px-League of nations symbol.gif
لیگ آف نیشنز

پہلی جنگ عظیم ختم ہوئی تو اس کے فوراً بعد انگلستان، فرانس، جرمنی، ڈنمارک ناروے اور سویڈن میں ایسی انجمنیں معرض وجود میں آئیں جن کا مقصد جنگ کی روک تھام کرنا اور لوگوں کو امن کی اہمیت کا احساس دلانا تھا۔ ساتھ ہی ایک ایسی عالمی تنظیم کے قیام کی تحریک کا شروع ہوئی جو بقائے امن کے لیے مربوط کوشش کر سکے۔ چنانچہ ورسائی کے معاہدہ امن کی بنیاد پر یکم جنوری 1920ء کو جمعیتِ اقوام یا جمعیت الاقوام (ترکی: Milletler Cemiyeti یا Cemiyet-i Akvam، انگریزی: League of Nations)قائم ہوئی۔ ابتدا میں اس ادارے میں 28 اتحادی اور 14 غیر جانبدار ممالک شامل ہوئے۔ بعد میں ارکان کی تعداد 60 تک پہنچ گئی۔ 1935ء میں جاپان اور جرمنی اس انجمن سے نکل گئے۔ 1937ء میں اٹلی نے بھی اس سے قطع تعلق کر لیا۔ روس اور افغانستان 1934ء میں اس کے رکن بنے۔

فائل:1920assemb.jpg
انجمن کا پہلا اجلاس 1920 میں

جمعیت اقوام میں ہر وہ خود مختار ملک اور مقبوضہ علاقہ شامل ہو سکتا تھا جو بین الاقوامی ذمہ داری قبول کرنے اور فوجی امور و معاملات میں انجمن کے فیصلوں کی پابندی کرنے کی اہلیت رکھتا تھا۔ انجمن اقوام کا مقصد دنیا بھر کے ملکوں میں انصاف اور احترام کوفروغ دینا اور اس طرح آئندہ جنگوں کا سدباب کرنا تھا۔ انجمن کا صدر مقام جینوا میں تھا۔ اس کی دو سرکاری زبانیں تھیں۔ انگریزی اور فرانسیسی۔ منشور کے مطابق ہر رکن ملک حلف لیتا تھا کہ وہ کسی دوسرے رکن ملک سے تنازع کی صورت میں پر امن ذ رائع سے مفاہمت کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔ اور مصالحت اور مفاہمت کے تمام امکانات مسدود ہونے کے بعد ’’نو ماہ کے وقفے سے ‘‘ جنگ کا راستہ اختیار کر سکے گا۔ خلاف ورزی کی صورت میں انجمن کے دوسرے تمام رکن ممالک جارح ملک سے اقتصادی اور مالی روابط قطع کر لینے کے پابند تھے۔

جمعیت اقوام کو انتظامی اختیارات حاصل نہ تھے۔ اور نہ وہ رکن ممالک کی حکمت عملیوں کی تدوین و ترتیب میں کوئی عمل دخل رکھتی تھی۔ البتہ بین الاقوامی تنازعات کے سلسلے میں بیچ بچاؤ کرانے، رکن ممالک کو جنگ سے محفوظ رکھنے اور امداد باہمی کی بنیاد پر دفاع کا انتظام کرنا اس کے فرائض میں شامل تھا۔ اس کے علاوہ مزدوروں کے حالات، صحت عامہ، مواصلات، اقتصادی اور مالی امور، اسلحے اور عورتوں اور بچوں کی ناجائز خرید فروخت ایسے معاملات میں اسے عمل دخل حاصل تھا۔ یعنی جنگ کے سدباب کے ساتھ ساتھ انجمن اقوام عالم نے عالمی سطح پر اقتصادی اور معاشرتی امور کی دیکھ بھال کی ذمے داری بھی سنبھال رکھی تھی۔ انجمن نے اپنے فرائض کی بجاآوری کے لیے کئی شعبے قائم کر رکھے تھے۔ ان میں سے ایک اسمبلی تھی، دوسری کونسل، تیسرا سیکٹریریٹ، چوتھا بین الاقوامی دفتر محنت اور پانچواں بین الاقوامی عدالت انصاف تھی۔ کونسل کو ابتدا میں متحارب ملکوں میں مفاہمت کرانے میں کامیابی ہوئی۔ مثلاً 1921ء میں جب یوگوسلاویہ نے البانیہ اور 1925ء میں بلغاریہ نے یونان پر حملہ کیا تو کونسل نے ہی بچ بچاؤ کرایا۔ اسی طرح جب سویڈن اور فن لینڈ کے درمیان جزیرہ ہالینڈ کے بارے میں اور ترکی اور عراق میں سرحدی تنازع پیدا ہوا تو کونسل کی کوششوں ہی سے مفاہمت ہوئی۔

لیکن یہ صورت تادیر قائم نہ رہ سکی۔ جب بڑی طاقتوں کی مفاد پرستی بروئے کار آئی تو انجمن کے مقاصد کوشکست ہونے لگی۔ انجمن کو اپنے فیصلوں کے نفاذ کا عملاً کوئی اختیار حاصل نہ تھا۔ یہی خامی اس کی تباہی کا موجب بن گئی۔ انجمن دلینا پر قبضے کے تنازعے میں پولینڈ اور لیتھونیا میں تصفیہ نہ کرا سکی۔ اسی طرح اٹلی اور یونان کے تنازعے کا بھی کوئی حل نہ نکل سکا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بلند آہنگ مقاصد جن کے حصول پر بابندی عائد کرنے سے متعلق کانفرنس کی ناکامی اور اسی برس حبشہ پر اٹلی کا حملہ بھی دراصل انجمن کی بے اثری کا نتیجہ تھا۔ پیراگوئے اور بولیویا کے درمیان گرانچاکو کے مسئلے پر جنگ چھڑی تو جب بھی انجمن صلح صفائی نہ کرا سکی۔ جاپان نے منچوریا پر قبضہ کر لیا تو اس وقت بھی انجمن خاموش تماشائی بنی رہی۔ جرمنی نے آسٹریا اور چیکوسلواکیہ پر قبضہ کیا تو اس وقت بھی انجمن خاموش رہی، لیکن جب روس نے فن لینڈ پر حملہ کیا تو انجمن نے اسمبلی کا اجلاس 11 دسمبر 1939ء کو بلایا۔ جس میں روس کی مذمت کی گئی اور اسے رکنیت سے بھی خارج کر دیا گیا۔ یہ انجمن کی آخری کارروائی تھی۔ اس کا آخری اجلاس 18 اپریل 1946ء کو ہوا اور اس کے ساتھ ہی اس کا خاتمہ ہو گیا۔

حوالہ جات

[ترمیم]