بھیرہ ضلع سرگودھا کی تحصیل ہے سرگودھا سے 57 کلومیٹر لاہور سے 207 اور اسلام آباد سے 183 کلومیٹر پہ واقع ہے
بھروچی تہزیب کا امین یہ شہر بہت بڑی تاریخ رکھتا ہے اگر لاہور واٸلڈ سٹی کی طرح اس شہر میں کام کیا جائے تو یہ اس شہر کا چپہ چپہ تاریخ سے بھرا پڑا ہے جس نے سکندر اعظم کے حملوں کی یلغار دیکھی جس نے مغلیہ دور سکھا شاہی دور انگریز دور اپنی آغوش میں اکٹھے کیے ہوئے ہیں
بھیرہ کا قدیم نام چوب ناتھ نگر تھا۔2017ء کی مردم شماری کے مطابق اس تحصیل کی آبادی 3 لاکھ 14 ہزار سے زائد تھی جس میں ڈھائی لاکھ سے اوپر دیہی جبکہ 60 ہزار سے زائد شہری زندگی میں موجود ہے۔ کل 504 مربع کیلومیٹر پہ محیط یہ تحصیل 110 گاؤں اور 16 یونین کونسلوں پہ مشتمل ہے۔ 17 جولائی 2012ء میں اسے تحصیل کا درجہ دیا گیا
بھیرہ شروع سے ہی اہم تجارتی مرکز رہا ہے یہاں لکڑی کا کام مہندی تعمیراتی مواد اور ماہر ہنر مند ہر وقت موجود ہوتے تھے
بھیرہ کی تاریخی طور پہ اہمیت کو تاریخی حوالہ جات کے طور پہ الیگزینڈر کنگھم کی کتاب Ancient Geography of India, چینی زائر فی شان کا 2ہزار سال قبل بھیرہ کا ذکر، مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کا اپنی کتاب تزک بابری میں ، یونانی تاریخ دان آریان اور جان برگز کا فرشتے میں بھیرہ کا نمایاں طور پہ ذکر دیکھا جا سکتا ہے
یہ وہی سرزمین ہے جہاں فاتح دنیا سکندر اعظم کو راجا پورس کا سخت مقابلہ کرنا پڑا کہتے ہیں سکندر اعظم یہاں شکست سے دوچار ہوا اور اس کا گھوڑا بھی اسی جنگ میں زخمی ہوا اور بعد میں مارا گیا محقیقن کا خیال ہے کہ گھوڑا #پھالیہ کے نزدیک جا کے مرا راجا پورس کو بھی شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑا
کچھ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ راجا پورس کہ ہاتھیوں کی سونڈھیں کاٹنے کی وجہ سے ہاتھی پورس کی ہی فوج پہ چڑھ گئے جس کی وجہ سے پورس شکست خورد ہوا اور پھر بعد میں سکندر اعظم نے اس کی بہادری کو دیکھتے ہوئے اس کا علاقہ اسے واپس کر دیا لیکن کچھ تاریخ دانوں میں یہ اختلاف ہے کہ ایسا نہیں ہوا بلکہ سکندر یونانی کو یہاں سے بھاگنا پڑا بحر حال جو بھی ہو یہ خطہ بہت تاریخی ہے
تاریخ میں بہت سے جنگجو۔حملہ آور۔بہادروں اور تاجروں نے اس خطے پہ قدم جمائے گیارہویں صدی میں محمود غزنوی 1519ء میں ظہیر الدین بابر 1540ء میں شیر شاہ سوری نے یہاں اپنی حکومت میں بہت سے کام کیے
یاد رہے یہاں مشہور بھیرہ کی مسجد جسے شروع میں شیر شاہ سوری نے بنوایا بعد میں اسی کی بنیادوں پہ ابھی نٸ مسجد موجود ہے جسے شیر شاہ سوری مسجد ہی کہا جاتا ہے
اس بھروچی تہزیب کو بچائے رکھنے کے لیے شیر شاہ سوری نے ناقابل فراموش کام کیا اس تہزیب کو دریائے جہلم کے مغربی کنارے سے لاکر مشرقی کنارے پہ دوبارہ نٸ سرے سے آباد کیا (اب پرانا بھیرہ ضلع جہلم میں ہے) اس کے علاوہ شیر شاہ سوری نے یہاں سڑکیں مینار اور فصیلوں کے علاوہ یہاں آٹھ دروازے جو شہر کی بلند اور مضبوط فصیل میں تھے قاٸم کیے
8 دروازے جو مختلف سمتوں میں واقع شہروں یا علاقوں کے نام پہ رکھے گئے جن میں لاہوری دروازہ ، کشمیری۔ چٹی پلی ۔ دروازہ، ملتانی۔لالو والی۔دروازہ، چنیوٹی۔چک والا۔دروازہ، کابلی دروازہ، پیراں والا، لوہاراں والا دروازہ اور چڑی چوگ دروازہ جس کے باہر ایک برگد کا درخت ہوتا تھا یہ دونوں اب ختم ہو چکے ہیں
یاد رہے انگریز دور میں یہاں کے ڈپٹی کمشنر کلفٹن ڈیوس نے یہاں کے مشہور ماہر تعمیرات دھر چند کوہلی کی خدمات حاصل کیں اور ان دروازوں کی دوبارہ تعمیر اور مناسب مرمت بھی کی۔)
1757ء میں احمد شاہ درانی نے بھی اس خطہ میں اہنی دھاک جماٸی رکھی
پھر سکھا شاہی دور میں یہاں بہت سی تباہی ہوٸی لیکن یہاں اپنی حکومت جمانے کے لیے بہت سے کام کیے گئے عمارتیں تعمیر کی گٸ گردوارے مندر تعمیر کیے گئے یہاں ٹکسالی کا قیام کیا گیا جہاں سونے اور چاندی کے سکے بنائے جاتے تھے
سکھا شاہی دور کے بعد یہاں انگریز وارد ہوئے انھوں نے اس شہر کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے یہاں بہت سے کام کیے 1840ء میں یہاں مزید ایک مسجد تعمیر کی گٸ اس کے علاوہ سکھوں کے گردوارے ہندوؤں کے مندر اور دیگر عبادت گاہیں بھی بناٸی گٸیں
انگریز نے 1881ء میں یہاں ریلوے لاٸن بچھاٸی ریلوے اسٹیشن بنایا جیسا کے اوپر زکر کیا گیا یہاں موجود آٹھ دروازوں کی دوبارہ تعمیر کی گٸ خستہ حال عمارتوں کی مرمت و دیکھ بھال اور تعلیم و صحت صنعت و تجارت کو مزید بڑھایہ اور 2 اپریل 1927ء میں یہاں سرکاری اسکول کا قیام ہوا۔
بھیرہ کی گلی کوچوں میں تعمیر پرانی عمارتیں آج بھی اپنے دیکھنے والوں کو حیرت میں ڈالتی ہیں کے کیسے ان میں عمدہ کاریگری سے لکڑی کا بہترین کام کیا گیا جو ہر عمارت کے دروازوں کھڑکیوں بالکونیوں میں دیکھا جا سکتا ہے جو آج بھی منفرد ہے اور عمارتوں کو چونے سرخ مٹی چھوٹی اینٹوں اور منفرد رنگوں سے بنایا گیا ہے
گو کہ آٹھ دروازے وقت کی غفلت کا شکار ہو گئے ہیں ان میں سے اب چار چار دروازے ہی باقی ہیں
واضح رہے کہ قدیم بھیرہ اب ضلع جہلم میں جبکہ بعد میں 1540ء میں بسایا جانے والا شہر دریائے جہلم کے مغربی کنارے پر ضلع سرگودھا میں واقع ہے۔
موجودہ بھیرہ روحانی علم دانش کا مرکز سمجھا جاتا ہے
یہاں کا زیادہ ذریعہ معاش زراعت ہے اور تھوڑے عرصہ میں پورے پاکستان کہ علاوہ دنیا میں مشہور ہونے والی میٹھی سوغات پھینیاں بھی اس شہر کی ایجاد ہیں