حسن نصر اللہ

حزب اللہ کے جنرل سیکٹری 1992ء تا 2024ء)

حسن نصر اللہ (31 اگست 1960ء - 27 ستمبر 2024ء) ایک لبنانی عالم اور حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل تھے، جو ایک شیعہ اسلامی عسکریت پسند گروپ اور سیاسی جماعت ہے جسے بیشتر مغربی ممالک نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔

سید   ویکی ڈیٹا پر (P511) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
حسن نصر اللہ
(عربی میں: حسن نصر الله ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

مناصب
سیکرٹری جنرل حزب اللہ (3  )   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
16 فروری 1992  – 27 ستمبر 2024 
عباس الموسوی  
نعیم قاسم  
معلومات شخصیت
پیدائش 31 اگست 1960ء [1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برج حمود   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 27 ستمبر 2024ء (64 سال)[3][4][5]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
حارہ حریک   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات ہوائی حملہ ،  اختناق   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قاتل اسرائیلی فضائیہ   ویکی ڈیٹا پر (P157) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات قتل [6]  ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت لبنان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام [7]  ویکی ڈیٹا پر (P140) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جماعت تحریک امل (1978–1982)
حزب اللہ (1982–27 ستمبر 2024)  ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ فاطمہ یاسین (1978–27 ستمبر 2024)  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد محمد ہادی نصر اللہ ،  زینب نصر اللہ   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعداد اولاد 5   ویکی ڈیٹا پر (P1971) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی حوزہ علمیہ نجف   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
استاذ محمد باقر الصدر   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ عالم ،  عسکری قائد ،  سیاست دان ،  عسکری قائد [8]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی [9]،  فارسی ،  انگریزی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل اسلام اور سیاست [10]،  سیاسی تحریک [11]  ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مؤثر روح اللہ خمینی ،  محمد باقر الصدر ،  عباس الموسوی   ویکی ڈیٹا پر (P737) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تحریک اخوانی شیعیت   ویکی ڈیٹا پر (P135) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں شمالی لبنان تنازع ،  لبنان جنگ، 2006ء ،  شامی خانہ جنگی ،  اسرائیل حزب اللہ تنازع (2023ء تاحال)   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دستخط
 
IMDB پر صفحات  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابتدائی زندگی

خاندانی پس منظر

حسن نصر اللہ 31 اگست 1960ء کو ضلع متن (بیروت کے مشرقی مضافات) کے برج حمود میں ایک شیعہ خاندان میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے خاندان کے دس بچوں میں نویں نمبر پر تھے۔ ان کے والد، عبدالکریم نصراللہ، جنوبی لبنان کے علاقے جبل آمیل میں واقع گاؤں بازوریہ میں پیدا ہوئے تھے اور وہ ایک عام تاجر تھے جو پھل اور سبزیاں بیچتے تھے۔[12]

ابتدائی تعلیم

نصراللہ نے ابتدائی تعلیم النجہ اسکول سے حاصل کی اور بعد میں سن الفیل کے ایک سرکاری اسکول میں داخلہ لیا، جہاں انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کی۔ ان کے اسکول کے دنوں میں ہی انہیں مذہب سے دلچسپی ہوئی اور وہ مذہبی تعلیمات کی طرف راغب ہو گئے، حالانکہ ان کا خاندان خاص طور پر مذہبی نہیں تھا۔[12]

دینی تعلیم اور سیاسی سرگرمیاں

دینی تعلیم کا آغاز

نصراللہ نے اپنی دینی تعلیم صور کے علاقے میں ایک مدرسے میں شروع کی، جہاں انہوں نے شیعہ اسلامی تعلیمات حاصل کیں۔ بعد میں وہ بعلبک چلے گئے جہاں انہوں نے ایک شیعہ مدرسے میں اپنی تعلیم جاری رکھی۔ یہاں انہوں نے امل موومنٹ میں مختصر طور پر شمولیت اختیار کی اور عباس موسوی سے قریبی تعلق قائم کیا۔[13]

ایران میں تعلیم

حسن نصراللہ نے کچھ عرصہ ایران میں گزارا، جہاں انہوں نے قم کے دینی مدارس میں مزید تعلیم حاصل کی۔ یہاں پر انہوں نے ایران کے اعلیٰ شیعہ علما سے تعلیم حاصل کی اور شیعہ اسلامی نظریات اور فقہ میں مہارت حاصل کی۔ نصراللہ کے مطابق، ایران میں ان کے قیام نے ان کے عقائد اور نظریات کو مزید تقویت بخشی۔[14]

حزب اللہ میں شمولیت

حزب اللہ کا قیام

1982ء میں اسرائیل کی لبنان پر حملے کے بعد حزب اللہ کا قیام عمل میں آیا، جس کا مقصد اسرائیلی جارحیت کے خلاف مزاحمت کرنا تھا۔ حسن نصراللہ حزب اللہ کی قیادت میں ابتدائی دنوں سے شامل ہوئے اور جلد ہی ایک اہم رہنما بن گئے۔ ان کی قیادت میں حزب اللہ نے عسکری اور سیاسی میدان میں قابل ذکر کامیابیاں حاصل کیں۔[15]

حزب اللہ کی قیادت سنبھالنا

1992ء میں، حزب اللہ کے اس وقت کے سیکرٹری جنرل عباس موسوی اسرائیلی فضائی حملے میں ہلاک ہو گئے، جس کے بعد حسن نصراللہ کو حزب اللہ کا نیا سیکرٹری جنرل مقرر کیا گیا۔ نصراللہ کی قیادت میں حزب اللہ نے جنوبی لبنان پر قابض اسرائیلی افواج کے خلاف جنگ جاری رکھی، جس کے نتیجے میں 2000ء میں اسرائیلی افواج کو جنوبی لبنان سے پسپائی اختیار کرنا پڑی۔[16]

حزب اللہ کی عسکری اور سیاسی سرگرمیاں

اسرائیل کے ساتھ تنازعہ

نصراللہ کی قیادت میں حزب اللہ نے اسرائیل کے خلاف کئی اہم عسکری کارروائیاں کیں۔ 1993ء میں اسرائیل نے حزب اللہ کے خلاف "آپریشن اکاؤنٹیبلٹی" کا آغاز کیا، جس کا مقصد حزب اللہ کی فوجی صلاحیتوں کو کمزور کرنا تھا۔ لیکن حزب اللہ نے اپنی مزاحمتی کارروائیوں کو جاری رکھا۔ 2006ء کی لبنان جنگ کے دوران، حزب اللہ نے اسرائیل پر راکٹ حملے کیے اور سرحدی علاقوں میں جھڑپیں ہوئیں، جس سے جنگ کا دائرہ وسیع ہو گیا۔[17]

شام کی خانہ جنگی میں کردار

شام کی خانہ جنگی کے دوران، حزب اللہ نے شامی حکومت کی حمایت میں سرگرمی سے حصہ لیا۔ حسن نصراللہ نے شامی صدر بشار الاسد کی حمایت کی اور حزب اللہ کے جنگجوؤں کو شامی فوج کی مدد کے لیے بھیجا۔ اس کردار کی وجہ سے حزب اللہ کو علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا، لیکن نصراللہ نے اسے "اسلامی انتہا پسندوں" کے خلاف جنگ قرار دیا۔[18]

ذاتی زندگی

خاندانی زندگی

حسن نصراللہ نے فاطمہ یسین سے شادی کی تھی اور ان کے چار بچے تھے: محمد جاوید، زینب، محمد علی اور محمد مہدی۔ نصراللہ اپنی ذاتی زندگی کو عوامی نگاہوں سے دور رکھنے کے لیے مشہور تھے اور بہت کم انٹرویوز یا عوامی ملاقاتوں میں شامل ہوتے تھے۔[19]

والدہ کا انتقال

25 مئی 2024ء کو حزب اللہ کے میڈیا نے اطلاع دی کہ نصراللہ کی والدہ، حاجی ام حسن، کا انتقال ہو گیا ہے، جس پر نصراللہ نے عوامی طور پر تعزیت کی اور اپنی والدہ کو ایک عظیم شخصیت قرار دیا۔[20]

موت

اسرائیلی فضائی حملہ

27 ستمبر 2024ء کو، اسرائیلی فضائیہ نے بیروت میں حزب اللہ کے مرکزی صدر دفتر پر ایک بڑا فضائی حملہ کیا، جس میں حسن نصراللہ کو نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیلی دفاعی افواج (IDF) نے اس حملے کے بعد اعلان کیا کہ ان کا ہدف نصراللہ تھا اور انہوں نے ان کے مرکزی صدر دفتر پر براہ راست حملہ کیا۔[21] اس حملے میں حزب اللہ کے اہم ارکان سمیت کم از کم چھ افراد ہلاک اور نوے سے زیادہ افراد زخمی ہوئے۔[22]

حزب اللہ کا رد عمل

28 ستمبر 2024ء کو، حزب اللہ نے سرکاری طور پر اعلان کیا کہ حسن نصراللہ اس حملے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔ حزب اللہ کے میڈیا اور لبنان کے حکومتی ذرائع نے بھی نصراللہ کی موت کی تصدیق کی، جس کے بعد پورے لبنان میں سوگ کا اعلان کیا گیا۔ حزب اللہ کے حمایتیوں نے نصراللہ کی شہادت کو ایک عظیم قربانی قرار دیا اور اسرائیل کے خلاف مزید عسکری کارروائیوں کی دھمکی دی۔[23]

نصراللہ کی موت کے بعد لبنان کا سیاسی منظر نامہ

حسن نصراللہ کی موت نے لبنان اور مشرق وسطیٰ میں بڑے پیمانے پر سیاسی اور عسکری ہلچل پیدا کر دی۔ لبنان میں حزب اللہ کے مخالفین نے ان کی موت کو لبنان میں ایک نئے سیاسی دور کے آغاز کے طور پر دیکھا، جبکہ حزب اللہ کے حامیوں نے نصراللہ کو ایک مزاحمت کا ہیرو قرار دیا۔ لبنان کے سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ نصراللہ کی موت حزب اللہ کی قیادت اور لبنان کی سیاست پر گہرے اثرات ڈال سکتی ہے، کیونکہ نصراللہ ایک طاقتور اور مقبول رہنما تھے جن کی موت سے حزب اللہ کی طاقت میں کمی آ سکتی ہے۔

حزب اللہ نے نصراللہ کی موت کے بعد فوری طور پر اپنے نئے سیکرٹری جنرل کے انتخاب کا اعلان نہیں کیا، لیکن توقع کی جاتی ہے کہ تنظیم کے اندرونی حلقوں میں ان کے جانشین کا تعین جلد ہی کیا جائے گا۔ نصراللہ کے جانشین کے حوالے سے قیاس آرائیاں جاری ہیں، اور یہ دیکھا جا رہا ہے کہ آیا نیا رہنما نصراللہ کی پالیسیوں کو جاری رکھے گا یا حزب اللہ میں کوئی نئی حکمت عملی اپنائی جائے گی۔[24]

وراثت اور اثرات

حسن نصراللہ کی شخصیت اور وراثت

حسن نصراللہ کو ان کی مزاحمتی تحریک، اسرائیل کے خلاف ان کی عسکری حکمت عملی، اور ان کے خطبات کے لیے یاد کیا جائے گا۔ ان کے حامیوں کے نزدیک، وہ ایک مزاحمت کے ہیرو تھے جنہوں نے لبنان کو اسرائیلی جارحیت سے بچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ نصراللہ کی قیادت میں حزب اللہ لبنان کی ایک بڑی عسکری اور سیاسی قوت بن گئی، جس نے نہ صرف لبنان بلکہ پورے خطے میں اثر و رسوخ قائم کیا۔

نصراللہ کے نقادوں کا کہنا ہے کہ ان کی قیادت نے لبنان کو کئی تنازعات میں الجھا دیا، جس کے نتیجے میں ملک کو اقتصادی اور سیاسی عدم استحکام کا سامنا کرنا پڑا۔ خاص طور پر شام کی خانہ جنگی میں حزب اللہ کی مداخلت اور 2005ء میں لبنانی وزیر اعظم رفیق حریری کے قتل میں حزب اللہ کے مبینہ کردار نے نصراللہ کی قیادت پر شدید تنقید کی گئی۔

عالمی سطح پر اثرات

نصراللہ کی موت نے عالمی سطح پر بھی بڑے اثرات مرتب کیے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں حزب اللہ کے اتحادیوں، خاص طور پر ایران اور شام نے ان کی موت پر غم کا اظہار کیا، جبکہ اسرائیل اور مغربی ممالک نے اس خبر کا خیر مقدم کیا۔ اسرائیل کے وزیر اعظم نے نصراللہ کی موت کو "لبنان میں دہشت گردی کے ایک دور کے خاتمے" سے تعبیر کیا۔[25]

حسن نصراللہ کی موت کے بعد مشرق وسطیٰ میں امن اور استحکام کے حوالے سے مختلف قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں، اور یہ دیکھنا باقی ہے کہ حزب اللہ کی قیادت میں آنے والی تبدیلیاں خطے کی سیاست پر کیا اثر ڈالیں گی۔

حوالہ جات

  1. عنوان : Encyclopædia Britannica — دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/Hassan-Nasrallah — بنام: Hassan Nasrallah — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  2. بنام: Hassan Nasrallah — Munzinger person ID: https://www.munzinger.de/search/go/document.jsp?id=00000025756 — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  3. تاریخ اشاعت: 28 ستمبر 2024 — IDF says Hezbollah leader Hassan Nasrallah was killed in Beirut strike
  4. تاریخ اشاعت: 28 ستمبر 2024 — A Hezbollah megerősítette, hogy az izraeli hadsereg támadásában meghalt a vezetőjük
  5. تاریخ اشاعت: 28 ستمبر 2024 — جيش الاحتلال الإسرائيلي يعلن اغتيال حسن نصر الله
  6. ناشر: روٹیرز — تاریخ اشاعت: 29 ستمبر 2024 — Nasrallah's killing reveals depth of Israel's penetration of Hezbollah — اقتباس: His assassination was the culmination of a rapid succession of strikes that have eliminated half of Hezbollah's leadership council and decimated its top military command
  7. مصنف: اسٹیو چین ، چاڈ ہرلی اور جاوید کریم — یوٹیوب ویڈیو آئی ڈی: https://www.youtube.com/watch?v=66Sv7_mkvt8
  8. این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=xx0053039 — اخذ شدہ بتاریخ: 17 نومبر 2024
  9. مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہhttp://data.bnf.fr/ark:/12148/cb15801998h — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  10. این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=xx0053039 — اخذ شدہ بتاریخ: 8 اکتوبر 2024
  11. این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=xx0053039 — اخذ شدہ بتاریخ: 1 نومبر 2024
  12. ^ ا ب "Profile: Sayed Hassan Nasrallah"۔ Al Jazeera۔ 17 جولائی 2000۔ 2020-09-13 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-04-22
  13. Augustus R. Norton (2018)۔ Hezbollah: a short history۔ Princeton studies in Muslim politics (3rd ایڈیشن)۔ Princeton Oxford: Princeton University Press۔ ص 69۔ ISBN:978-0-691-18088-5
  14. "Hassan Nasrallah Biography". Al Jazeera (انگریزی میں). Retrieved 2018-03-19.
  15. "Hezbollah"۔ Council on Foreign Relations۔ 2016-03-28 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-03-19
  16. "What is Hezbollah and why is Israel attacking Lebanon?". BBC News (برطانوی انگریزی میں). 3 نومبر 2023. Retrieved 2024-09-28.
  17. Augustus R. Norton (2018)۔ Hezbollah: a short history۔ Princeton studies in Muslim politics (3rd ایڈیشن)۔ Princeton Oxford: Princeton University Press۔ ص 69۔ ISBN:978-0-691-18088-5
  18. "Hassan Nasrallah's role in the Syrian war"۔ Reuters۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-09-28
  19. "Hassan Nasrallah Biography". Al Jazeera (انگریزی میں). Retrieved 2018-03-19.
  20. "Hassan Nasrallah's mother dies"۔ The Daily Star۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-09-28
  21. "Israel says it struck Hezbollah's headquarters in huge explosion that shakes Lebanese capital". AP News (انگریزی میں). 27 ستمبر 2024. Retrieved 2024-09-27.
  22. "حزب الله يعلن رسميا استشهاد حسن نصرالله"۔ Saraya (عربی میں)۔ 28 ستمبر 2024۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-09-28
  23. Tia Goldenberg; Wafaa Shurafa (8 اکتوبر 2023). "Hezbollah and Israel exchange fire as Israeli soldiers battle Hamas on second day of surprise attack". Associated Press (انگریزی میں). Archived from the original on 2023-10-08. Retrieved 2024-08-25.
  24. "Hassan Nasrallah's death: Impact on Hezbollah and Lebanon". BBC News (انگریزی میں). Retrieved 2024-09-28.
  25. "Israeli PM welcomes news of Nasrallah's death". The Times of Israel (انگریزی میں). Retrieved 2024-09-28.