مندرجات کا رخ کریں

زبرقان بن بدر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حضرت زبر قانؓ بن بدر
(عربی میں: الحصين بن بدر التميمي ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
تاریخ وفات سنہ 665ء   ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لقب زبرقان
عملی زندگی
پیشہ شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام ونسب

[ترمیم]

حسین نام، ابو عیاش کنیت، زبرقان لقب، نسب نامہ یہ ہے، زبرقان بن بدر ابن امرؤ القیس بن خلف بن بہدلہ بن عوف بن کعب بن زید مناۃ بن تمیم تمیمی سعدی، زبرقان تمیمی کے شاہی خاندان کے رکن اوراپنے قبیلہ کے سردار تھے،اسلام کے بعد بھی ان کا یہ اعزاز اور مرتبہ برقرار رہا۔

اسلام

[ترمیم]

9ھ میں وفد تمیم کے ساتھ مدینہ آئے،وفد کے تمام ارکان شاہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے،اس لیے مدینہ میں بھی جاہلی ٹھاٹھ کے ساتھ آئے،تعلی اورفخاری کے لیے آتش بیان خطیب اورسحر بیان شعرا ساتھ تھے،آستان نبوی پر پہنچ کر رسول اللہ ﷺ سے اجازت مانگی، محمد جئناک نفاخرک فاذن لشاعر نا محمد، ہم تم سے مفاخرۃ کے لیے آئے ہیں ہمارے شاعروں کو اجازت دو، آپ سے اجازت لے کر مجلس مفاخرہ منعقد کی اوربنی تمیم کے شعرا اور خطباء نے ان کی عالی نسبی، بادشاہی اوراثر واقتدار کے ترانے گائے، زبر قان بن بدر نے بھی ایک پر زور قصیدہ جو تمام ترنخوت، تعلی فخاری اورخود ستائی پر مشتمل تھا سنایا، طوطی اسلام حضرت حسانؓ ابن ثابؓت نے اس کا جواب دیا، ان کی فصاحت و بلاغت اور شاعرانہ عظمت کو دیکھ کر ارکان وفد دنگ رہ گئے اوراقرعؓ بن حابس کی تحریک سے سب نے اسلام قبول کر لیا، اقرعؓ بن حابس کے حالات میں اس مجلس مفاخرہ کے تفصیلی حالات لکھے جاچکے ہیں۔ [1]

امارت بنی سعد اورفتنہ ردہ

[ترمیم]

قبول اسلام کے بعد آنحضرتﷺ نے زبرقان کو بنی سعد کا امیر مقرر فرمایا، آپ کی وفات کے وقت وہ اس عہد پر تھے، (حضرت ابوبکرؓ کی مسند نشینی کے بعد جب ارتداد کا فتنہ اٹھا، اوربنی تمیم کی بہت سی شاخیں مرتد ہوگئیں اور زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا، اس وقت زبرقان نے اپنی کوششوں سے اپنے قبیلہ بنی سعد کو اس وبا سے بچائے رکھا اورجب دستور زکوٰۃ وصول کرکے حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں بھیجی [2] حضرت ابوبکرؓ نے اس خدمت کے صلہ میں انھیں ان کے عہدہ پر برقرار رکھا۔ [3]

عہد فاروقی

[ترمیم]

حضرت عمرؓ کے زمانہ میں بھی زبر قان اپنی مفوضہ خدمت انجام دیتے رہے ایک مرتبہ زکوٰۃ کی رقم لیے ہوئے مدینہ آ رہے تھے ،راستہ میں مشہور شاعر حطیہ سے ملاقات ہوئی، یہ وہ زمانہ تھا کہ عراق فتح ہو چکا تھا، اورعرب بھی دنیا وی تکلفات سے آشنا ہوچلے تھے اور یہاں کے جوش باش عیش پرست عرب کے خشک اوربنجر علاقہ سے تبدیل آب وہوا اور عیش پرستی کے لیے عراق پہنچتے تھے ،حطیہ بھی اس مقصد سے عراق جارہا تھا، زبرقان عہد رسالت کی سادگی کی جگہ اس قسم کے تعیش کو نا پسند کرتے تھے؛چنانچہ انھوں نے حطیہ کو اس راہ سے روک کر اپنے گھر واپس کر دیا اورکہا کہ وہ ان کی واپسی تک ان کا مہمان رہے ،حطیہ اس وقت تو لوٹ گیا، لیکن زبر قان نے اس کے شاعرانہ جذبات کو ٹھیس لگائی تھی، اس لیے زبرقان کی ایک ہجو کہہ ڈالی، انھوں نے حضرت عمرؓ سے اس کی شکایت کی، آپ نے استادِ فن حضرت حسان ؓبن ثابت سے رائے طلب کی کہ حطیہ کے اشعار ہجو میں آتے ہیں یا نہیں انھوں نے فیصلہ کیا کہ ہجو ہے، اثباتِ جرم کے بعد حضرت عمرؓ نے حطیہ کو قید کر دیا، لیکن پھر کچھ دنوں کے بعد حضرت عبد الرحمن بن عوف اورزبیر بن عوامؓ کی سفارش پر آیندہ کے لیے توبہ کراکے رہا کر دیا۔ [4]

اظہار حق میں جرأت

[ترمیم]

زبرقان اظہارحق میں بڑے جری اوربے باک تھے ،حق پر ٹوکنے میں کسی کی پروا نہ کرتے تھے، زیاد کا جو روستم مشہور ہے، اس کے پاس جاکر کہا کہ خلقِ خدا تمھارے جو روظلم پر خندہ زن ہے۔ [5]

وفات

[ترمیم]

ان کے وفات کا صحیح زمانہ متعین نہیں کیا جا سکتا، امیر معاویہ کے عہد تک ان کی زندگی کا پتہ چلتا ہے۔

حلیہ

[ترمیم]

باپ کا نام بدر تھا، زبرقان اسی بدر کے لڑکے تھے اور اپنے غیر معمولی حسن وجمال کی وجہ سے "ماہ نجد" کہے جاتے تھے،مکہ جاتے تھے تو فتنہ کے خیال سے چہرہ پر ڈھاٹا باندھ لیتے تھے تاکہ صورت پر کسی کی نظر نہ پڑنے پائے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. (سیرۃ ابن ہشام نے نہایت تفصیل سے اس مفاخرہ کو لکھا ہے ہم نے صرف بقدر ضرورت شامل کیا ہے:2/255تا36)
  2. (اسد الغابہ:1/194)
  3. (ایضاً)
  4. (استیعاب :1/211)
  5. (اصابہ:2/4)