پاکستان میں ناموسی قتل
بد چلنی کے شبہے میں عورت اور اس کے آشنا کا قتل کارو کاری کہلاتا ہے۔ غیرت کے نام پر ایسے قتل کی تاریخ خاصی پرانی ہے۔ یہ رواج پاکستان میں بلوچستان اور سندھ میں زیادہ عام تھا۔ ان کے رسم و رواج کے مطابق اپنے خاندان کی مشتبہ طور پر گمراہ عورت اور اس کے شریک جرم کا قتل کرنا جائز تھا اور قاتل سزا سے صاف بچ جاتا تھا۔ سندھ میں ایسے قتل کو کاروکاری کہتے ہیں۔ پنجاب میں یہ کالا کالی کہلاتا ہے۔ خیبر پختونخوا میں طورطورہ جبکہ بلوچستان میں سیاہ کاری کہا جاتا ہے۔
اس رسم کا غلط استعمال بھی بہت عام تھا۔ لوگ اپنے کسی دشمن کو تنہا پا کر مار دیتے تھے اور پھر اپنے ہی خاندان کی کسی عورت کو جو بڑھیا یا بچی بھی ہو سکتی تھی، کو مار کر دشمن کی لاش کے نزدیک ڈال دیتے تھے اور بیان دیتے تھے کہ انھیں غلط کام کرتے دیکھا گیا تھا اس لیے غیرت میں آ کر ان دونوں کو مار دیا گیا۔ عام قتل کے برعکس مقتول خاتون کا خاندان ایسے کیس میں پولیس سے تعاون نہیں کرتا نہ قاتل کو پکڑوانے میں دلچسپی لیتا ہے۔
یا ہم ایسا بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر ایک لڑکی اپنے خاندان کی رضامندی کے بغیر کسی لڑکے سے شادی کرتی ہے اور لڑکی کے خاندان والے اس بات کو اپنی عزت کی کمی کا باعث سمجھتے اور وہ لڑکی کو اپنی عزت بچانے کی خاطر قتل کر دیتے۔ اور اس قتل پر ان کو کسی قسم کا افسوس نہیں ہوتا۔
اسی کی مثال قندیل بلوچ کا قتل بھی تھا، جس کا چرچا دنیا بھر میں ہوا تھا۔