بھارتی ڈاک (انگریزی: India Post) بھارت کا حکومتی ڈاک کا نظام ہے جو وزارت مواصلات، حکومت ہند کے تحت کام کرتا ہے۔ بھارت میں اسے پوسٹ آفس کہا جاتا ہے اور یہ دنیا کا سب سے وسیع و عریض ڈاک کا نظام ہے۔ اس کی بنیاد 1854ء میں لارڈ ڈلہوزی نے جدید ہندوستان کے ڈاک نظام کو بہتر کرنے کے لیے رکھی تھی۔ ڈلہوزی نے یونیفارم ڈاک کی قیمتیں جاری کیں اور پوسٹ آفس ایکٹ 1854ء پاس کیا۔ یہ ایکٹ لارڈ ولیم بنٹنک کے 1837ء کے ایکٹ میں ترمیم کرتا ہے اور اس کی اصلاح کرتا ہے جس سے ڈاک کا نظام مزید بہتر ہو گیا۔ اسی ایکٹ کے تحت پورے ملک کے لیے بھارتی ڈاک کے لیے ڈائریکٹر جنرل کا عہدہ بھی قائم کیا گیا۔[6][7]

بھارتی ڈاک
भारतीय डाक
شعبہ کا جائزہ
قیام1 اکتوبر 1854؛ 170 سال قبل (1854-10-01)[1][2]
دائرہ کاربھارت
صدر دفترڈاک بھون، سنسد مارگ، سنسد مارگ
سالانہ بجٹ11,496.18 کروڑ (امریکی $1.6 بلین) (2018–19)[3]
وزیر ذمہ دار
  • روی شنکر پرساد, کابینی وزیر مواصلات
شعبہ افسرانِ‌اعلٰی
  • پردپتا کمار بسوئی (IPoS:1985)، سیکریٹری
  • سلیم حق، ڈائرکٹر جنرل[4]
اعلیٰ وزارتوزارت مواصلات، حکومت ہند
کلیدی دستاویز
ویب سائٹwww.indiapost.gov.in

بھارتی ڈاک متعدد خدمات فراہم کرتی ہے جیسے درست پتہ پر خطوط پہنچانا، منی آرڈر کے نام سے رقم پہنچانا، رقم جمع کرنا، لائف انشورنس کی سہولت مہیا کرنا، کھدرا کاروبار کے بل وصول کرنا اور مختلف طرح کے فارم فروخت کرنا وغیرہ۔ حکومت بھارتی ڈاک کو عوام کو کسی سہولت کی تقسیم کے لیے بھی استعمال کرتی ہے جیسے قومی دیہی ملازمت گارنٹی قانون 2005ء کی پنشن بھارتی ڈاک ہی تقسیم کرتی ہے۔ بھارتی ڈاک میں کل 155,015 ڈاک خانے ہیں اور اس طرح یہ دنیا کا سب سے بڑا ڈاک نظام ہے۔

ملک بھارت کو 23 ڈاک حلقوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر حلقہ کا ایک چیف پوسٹ ماسٹر جنرل ہوتا ہے۔ ہر حلقہ کئی خطوں میں منقسم ہوتا ہے اور ہر خطہ کا ایک پوسٹ ماسٹر جنرل ہوتا ہے۔ ہر خطہ کئی علاقوں میں منقسم ہوتا ہے جنہیں ڈویزن کہا جاتا ہے۔ پھر یہ ڈویزن سب ڈویزن میں تقسیم ہوتے ہیں۔ 23 حلقوں کے علاوہ بھارتی ڈاک کی دیگر خدمات بھی ہیں جیسے بھارتی مسلح افواج ایک الک شعبہ ہے جس کی صدارت ڈائریکٹر جنرل کرتا ہے۔ ہکیم، ہماچل پردیش میں واقع بھارت کا سب سے اونچا ڈاک خانہ ہے جس کی کل اونچائی 14,567 فٹ (4,440 میٹر)۔[8][9]

تاریخ

ترمیم

برطانوی راج (1858ء-1947ء)

ترمیم
19ویں اور یا 20ویں صدی میں بھارتی ڈاک کا تعلیمی کارڈ century
1850ء کی دہائی کا ڈاک ٹکٹ
اوٹی کے ایک ڈاک خانہ

1858ء میں برطانوی راج کا وجود ہوا جب برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کا کمپنی راج سلطنت برطانیہ کو سونپ دیا گیا۔[10][11] اس موقع پر ٹیلی گراف اور ڈاک جیسی متعدد خدمات کا اجرا کیا گیا تاکہ حکومتی نظام کو بہتر بنایا جا سکے:

  • 28 جنوری 1873ء کو گورنمنٹ بینک ایکٹ 1873ء پاس کیا گیا جسے 1882ء میں نافذ کیا گیا۔ بمبئی پریزیڈنسی کے علاوہ ملک بھر میں پاسٹ آفس سیونگ بینک کھولا گی۔ مدراس پریزیڈنسی میں یہ بہت محدود رہا اور بنگال پریزیڈنسی میں کولکاتا اور ہاوڑہ میں اسے نہیں کھولا جا سکا۔
  • 1 فروری 1884ء کو پوسٹل لائف انشورنس کا اجرا ہوا جس کے تحت بھارتی ڈاک اور ٹیلیگراف کے تمام ملازمین کو لائف انشورنس مہیا کیا گیا۔
  • 1885ء میں انڈین ٹیلیگراف ایکٹ۔
  • 22 مارچ 1898ء کو انڈین پوسٹ آفس ایکٹ 1898ء پاس ہوا۔
  • 1933ء کو انڈین وایرلیس ٹیلیگرافی ایکٹ پاس کیا گیا۔

آزادی کے بعد

ترمیم

آزادی کے بعد بھی بھارتی ڈاک بدستور اپنا کام کرتا رہا اور اس کے انتظامی ڈھانچہ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ بھارتی ڈاک کا سربراہ ڈائریکٹر ہوتا ہے۔ پھر اس کے نیچے علاقہ کے افسران رہتے ہیں۔ پھر خطہ کے افسران اور ڈاکخانہ کا سربراہ، ذیلی افسران اور اس طرح درجہ بندی بنی رہتی ہے۔ اپریل 1959ء میں بھارتی ڈاک نے اپنا نعرہ “مدد سے پہلے خدمت“ جاری کیا۔ ستمبر 2008ء میں لوگو میں ترمیم کی گئی۔[12]

1947ء میں بوقت آزادی کل ڈاکخانوں کی تعداد 23,344 تھی اور یہ زیادہ تر شہری علاقوں میں تھY۔ 2016ء میں کل تعداد 155,015 ہو گئی اور تقریباً 90 فیصد دیہی علاقوں میں بھارتی ڈاک نظام کی پہنچ درج کی گئی۔[13]

ڈاک ٹکٹ کی تاریخ

ترمیم

ایشیا میں پہلا ڈاک ٹکٹ

ترمیم
First all-India stamps
Six-anna Provisional stamp، 1866

ایشیا کا پہلا ڈاک ٹکٹ 1852ء میں سندھ میں خطہ کے چیف کمشنر بارٹل فرین نے جاری کیا۔[14] جون 1866ء میں ٹکٹ کی قیمت 1⁄2 اننا تھی۔ 1 اکتوبر 1854ء میں پہلی دفعہ آل انڈیا ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا۔

 
ایک ڈاک ٹکٹ جس میں مندر کی تصویر ہے

آمدنی

ترمیم
 
A still of illuminated Dak Bhavan (the Headquarters of Department of Posts) at Parliament Street, during the celebrations marking the entry of Department of Posts into 150 years of service to the nation (on 1 اکتوبر 2004)

بھارتی ڈاک کی آمدنی مندرجہ ذیل جدول میں مذکور ہے[15]:

سال کل خرچ (کڑوڑ میں) آمدنی (کڑوڑ میں) فائدہ/نقصان (کڑوڑ میں)
2010-11 13,075.0 6,962.3
2011-12 12,075.3 7,899.4
2012–13 14,676.4 93664.98
2013–14 16203.52 10730.42 (5473.10)
2014–15 17894.58 11635.98 (6258.60)
2015–16 18946.97 12939.79 (6007.18)

پن کوڈ

ترمیم
 
بھارتی ڈاک کا ایک لیٹر باکس

ڈاک اشاریہ رمز چھ عدد کا رمز ڈاک ہے جسے رابطہ عامہ کی زبان میں پن کوڈ یا ژپ کوڈ کہا جاتا ہے۔ پن کوڈ کولکاتا میں ڈاک کے ملازم بھیکاجی ویلنکر کی دین ہے جسے 15 اگست 1972ء کو سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی نے جاری کیا تھا۔ اس وقت کل 9 ڈاک خطے بنائے گئے تھے جن میں 8 جغرافیائی خطے ہیں جنکہ ایک فوج کا ڈاک نظام ہے۔ پن کوڈ کی مندرجہ ذیل خصوصیات ہیں:

  • پہلا عدد خطہ کو ظاہر کرتا ہے۔
  • بعد کے دو اعداد ذیلی خظے کو ظاہر کرتے ہیں۔
  • پہلے 3 اعداد ضلع کو ظاہر کرتے ہیں۔
  • آخری 3 اعداد علاقہ کے ڈاک خانہ کو ظاہر کرتے ہیں۔

بھارتی ڈاک کی ویب گاہ پر پن کوڈ کی مکمل فہرست موجود ہے۔[16] 2014ء کے مطابق کل 19,101 پن کوڈ ہیں جو 154,725 علاقوں کو محیط ہیں۔ اس میں فوج کا ڈاک نظام شامل مہیں ہے۔[17][18]

حوالہ جات

ترمیم
  1. "GPO: awaiting restoration"۔ The Hindu۔ 08 مئی 2003 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2019 
  2. "Postal Network and System"۔ india.gov.in۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2019  [مردہ ربط]
  3. "Union Budget (2018–19) – Department of Posts" (PDF)۔ Open Budgets India۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2019 
  4. "Organization Overview"۔ India Post۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2019 
  5. "Annual Report 2017–18" (PDF)۔ India Post۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2019 
  6. M. N. Das and M. M. Das (1958)۔ "DALHOUSIE AND THE REFORM OF THE POSTAL SYSTEM"۔ Indian History Congress۔ 21 (21): 488–495۔ JSTOR 44145245 
  7. Grover B.L. & Mehta Alka (2018)۔ A New Look at Modern Indian History (From 1707 to The Modern Times)، 32e۔ S. Chand Publishing۔ صفحہ: 163–۔ ISBN 978-93-5253-434-0 
  8. ہے۔"World's Highest Post Office"۔ Stamps of India۔ 16 جولائی 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اپریل 2011 
  9. "The World's Highest Post Office Is Not In Hikkim In Lahaul & Spiti And Here's Why That Is"۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 دسمبر 2017 
  10. Chandrika Kaul۔ "From Empire to Independence: The British Raj in India 1858–1947"۔ برطانوی نشریاتی ادارہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 مارچ 2011 
  11. "India Post: In letter and spirit"۔ India Today (بزبان انگریزی)۔ 2017-08-11۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 فروری 2018 
  12. (PDF) Annual Report 2009-09. India Post. Archived from the original on 2016-04-25. https://web.archive.org/web/20160425200104/http://indiapost.gov.in/Report/Annual_Report_2008-2009.pdf۔ اخذ کردہ بتاریخ 14 اپریل 2016. 
  13. https://www.indiapost.gov.in/VAS/Pages/AboutUs/PostOfficeNetwork.aspx
  14. "Scinde District Dawks"۔ 27 اکتوبر 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  15. "Revenue of Postal Department"۔ PIB۔ 19 فروری 2014۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 فروری 2014 
  16. "Welcome to the Indiapost Website"۔ Indiapost.gov.in۔ 20 مئی 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 اگست 2012 
  17. "Do you know the total number of PIN Codes in INDIA ?"۔ infoknown.com۔ 27 مئی 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مئی 2014 
  18. "Do you know the total number of POST Offices in INDIA?"۔ infoknown.com۔ 27 مئی 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مئی 2014