مندرجات کا رخ کریں

قطب شمالی

متناسقات: 90°N 0°E / 90°N 0°E / 90; 0
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(North Pole سے رجوع مکرر)

شمالی قطب سے عموماً جغرافیائی شمالی قطب مراد لی جاتی ہے، اگرچہ شمالی قطب کئی قسم کے ہیں۔ جغرافیائی شمالی قطب سے مراد زمین کا شمالی ترین نقطہ ہے یعنی °90 درجے شمالی عرض بلد۔ یہ ایسا نقطہ ہے جس سے آپ جس طرف کو بھی چل پڑیں آپ جنوب ہی کی طرف جا رہے ہوں گے۔ قطب نما اس جغرافیائی شمالی قطب کی طرف اشارہ نہیں کرتا بلکہ مقناطیسی شمالی قطب کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

شمالی قطب 5 قسم کے ہیں جومندرجہ ذیل ہیں:

فائل:Kurra.jpg
جغرافیائی قطبین
  1. جغرافیائی قطب شمالی
  2. مقناطیسی قطب شمالی
  3. ارضی۔ مقناطیسی قطب شمالی
  4. سماوی قطب شمالی
  5. بعید ترین قطب شمالی

ان تمام مختلف تعریفوں کے مطابق شمالی قطب کو بحری سفر کے لیے اور صحرا میں سفر کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ آج کل ان کا استعمال فلکیات دان، ریاضی دان اور ارضی علوم کے ماہرین کثرت سے کرتے ہیں۔ زمین کے جتنے نقشے بنتے ہیں وہ جغرافیائی شمالی قطب کو مدِنظر رکھ کر بنتے ہیں، اسی لیے اسے صحیح شمالی قطب بھی کہتے ہیں۔ قابلِ تصدیق ریکارڈ کے مطابق پہلی دفعہ 1909ء میں کوئی انسان اس تک پہنچ سکا تھا۔

90°N 0°E / 90°N 0°E / 90; 0

An azimuthal projection showing the Arctic Ocean and the North Pole. The map also shows the 75th parallel north and 60th parallel north.
Temporary research station of German-Swiss expedition on the sea ice at the Geographic North Pole. Drillings at the landing site at 90°N showed an average ice thickness of 2.5 metres on April 16, 1990
This pressure ridge at the North Pole is about 1 km long, formed between two ice floes of multi-year ice.

قطب شمالی کو کوئی ٹائم زون تفویض نہیں کیا گیا ہے، لہذا کسی بھی وقت کو مقامی وقت کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تنگ عرض بلد دائروں کے ساتھ، مخالف گھڑی کی سمت مشرق اور گھڑی کی سمت مغرب میں ہے۔ قطب شمالی شمالی نصف کرہ کے مرکز میں ہے۔ قریب ترین زمین کو عموماً کافیکلوبن جزیرہ کہا جاتا ہے، جو گرین لینڈ کے شمالی ساحل سے تقریباً 700 کلومیٹر (430 میل) دور ہے، حالانکہ کچھ شاید نیم مستقل بجری کے کنارے قدرے قریب ہیں۔ قریب ترین مستقل طور پر آباد مقام الیسمیر Ellesmere جزیرہ، کینیڈا پر الرٹ ہے، جو قطب سے 817 کلومیٹر (508 میل) دور واقع ہے۔ جب کہ قطب جنوبی ایک براعظمی زمین پر واقع ہے، قطب شمالی بحرِ آرکٹک کے وسط میں ایسے پانیوں کے درمیان واقع ہے جو تقریباً مستقل طور پر مسلسل بدلتی ہوئی سمندری برف سے ڈھکے ہوئے ہیں۔ قطب شمالی پر سمندر کی گہرائی کو روسی میر آبدوز نے سنہ 2007ء میں 4,261 میٹر (13,980 فٹ)[1] اور سنہ 1958ء میں یو ایس ایس ناٹیلس نے 4,087 میٹر (13,409 فٹ) پر ناپا ہے۔[2] یہ قطب شمالی (قطب جنوبی کے برعکس) پر ایک مستقل اسٹیشن کی تعمیر کو ناقابل عمل بنا دیتا ہے۔ تاہم، سوویت یونین اور بعد میں روس نے سنہ 1937ء کے بعد سے عام طور پر سالانہ بنیادوں پر متعدد انسان بردار ڈرفٹنگ اسٹیشن بنائے، جن میں سے کچھ قطب کے اوپر سے یا بہت قریب سے گذر چکے ہیں۔ سنہ 2002ء کے بعد سے، روسیوں کے ایک گروپ نے بھی قطب کے قریب ایک نجی اڈا، بارنیو قائم کیا ہے۔ یہ ابتدائی موسم بہار میں چند ہفتوں تک چلتا ہے۔ سنہ 2000ء کی دہائی میں ہونے والے مطالعات نے پیش گوئی کی ہے کہ قطب شمالی موسمی طور پر برف سے پاک ہو سکتا ہے کیونکہ آرکٹک کی برف سکڑتی ہے، جس کے اوقات سنہ 2016ء سے لے کر اکیسویں صدی کے آخر تک یا بعد میں مختلف ہو سکتے ہیں۔[3]

شمالی قطب کے قریب ناروے میں آدھی رات کو سورج نکلا ہوا ہے

قطب شمالی تک پہنچنے کی کوششیں انیسویں صدی کے اواخر میں شروع ہوئیں، "سب سے دور شمال" کے ریکارڈ کو متعدد مواقع پر پیچھے چھوڑ دیا گیا۔ قطب شمالی تک پہنچنے والی پہلی غیر متنازع مہم ایئر شپ نورج کی تھی، جس نے سنہ 1926ء میں اس علاقے کو عبور کیا جس میں 16 افراد سوار تھے، بشمول مہم جو رہنما روالڈ ایمنڈسن۔ تین سابقہ ​​مہمات؛ جن کی قیادت فریڈرک کک (سنہ 1908ء، زمین)، رابرٹ پیری (سنہ 1909ء، زمین) اور رچرڈ ای برڈ (سنہ 1926ء، ہوائی)، کو بھی ایک بار قطب تک پہنچنے کے طور پر قبول کیا گیا تھا۔ تاہم، ہر معاملے میں بعد میں مہم کے اعداد و شمار کے تجزیے نے ان کے دعووں کی درستی پر شک پیدا کیا ہے۔ قطب شمالی تک پہنچنے کے لیے پہلی تصدیق شدہ سمندری مہم سنہ 1968ء میں رالف پلیسٹڈ، والٹ پیڈرسن، گیری پتزل اور جین۔لک بمبارڈیئر نے سنو موبائلز کا استعمال کرتے ہوئے اور فضائی مدد سے کی تھی۔[4]

جغرافیائی قطب شمالی

[ترمیم]

جغرافیائی شمالی قطب سے مراد زمین کا شمالی ترین نقطہ ہے یعنی °90 درجے شمالی عرض بلد۔ یہ ایسا نقطہ ہے جس سے زمین کا گردشی محور زمین کی شمالی سطح سے ٹکراتا ہے۔ گردشی محور وہ فرضی لکیر ہے جس پر زمین اپنے اردگرد گردش کرتی ہے۔ یہ ایسا نقطہ ہے جس سے آپ جس طرف کو بھی چل پڑیں آپ جنوب ہی کی طرف جا رہے ہوں گے۔ اسے صحیح شمالی قطب بھی کہتے ہیں۔ جغرافیائی شمالی قطب شمالی بحر منجمد شمالی میں واقع ہے مگر اس پر برف کی موٹی تہ جمی ہوئی ہے جس کی وجہ سے اس پرمستقل تجربہ گاہیں تعمیر کی گئی ہیں۔ مقناطیسی قطب نما اس کی طرف اشارہ نہیں کرتا بلکہ مقناطیسی شمالی قطب کی طرف اشارہ کرتا ہے جو اس سے سینکڑوں کلومیٹر دور بھی ہے اور بدلتا بھی رہتا ہے۔ جغرافیائی شمالی قطب چونکہ برف پر واقع ہے اور برف بہت غیر محسوس طریقہ سے کھسک رہی ہے اس لیے ادھر قائم تجربہ گاہیں حرکت کر کے شمالی قطب سے ہٹ جاتی ہیں۔ اسی لیے کچھ سالوں کے بعد انھیں بھی منتقل کرنا پڑتا ہے۔ مزے کی بات یہ کہ خود جغرافیائی شمالی قطب ایک جگہ نہیں بلکہ اس میں بہت معمولی تبدیلی آتی ہے۔ یعنی زمین لرزتی ہے۔ زمین کا گردشی محور کچھ میٹر تک حرکت کر سکتا ہے اور اس بات کو چانڈلر کا ارتعاش (Chandler wobble ) کہتے ہیں۔ گرمیوں میں چوبیس گھنٹے کا دن ہوتا ہے اور سردیوں میں چوبیس گھنٹے کی رات۔ 20 یا 21 مارچ کو سورج چھ ماہ کے لیے نکلتا ہے جس نے جون کے مہینے تک چڑھتے رہنا ہے۔ بیس جون کے بعد اس کا زوال شروع ہوتا ہے۔ 23 ستمبر کو سورج مکمل غروب ہو جاتا ہے جس کے بعد چھ ماہ کے لیے رات رہتی ہے۔

مقناطیسی قطب شمالی

[ترمیم]

مقناطیسی قطب شمالی زمین کا وہ مقام ہے جس کی طرف قطب نما اشارہ کرتا ہے۔ قطب نما صحیح شمال کی طرف اشارہ نہیں کرتا بلکہ کچھ انحراف کرتا ہے۔ یہ وہ نقطہ ہے جس پر زمین کا مقناطیسی میدان عموداً نیچے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ زمین کا مقناطیسی میدان مثالی نہیں ہے یعنی اگر ہم ایک فرضی لکیر مقناطیسی قطب شمالی سے مقناطیسی قطب جنوبی کی طرف کھینچیں تو وہ ایک خطِ مستقیم نہیں ہوگا۔ زمین کے مقناطیسی میدان میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں اس لیے مقناطیسی شمالی قطب ایک مقام پر قائم نہیں رہتا اور بدلتا رہتا ہے۔ آج کل یہ مقام سانچہ:°82.7 شمال اور سانچہ:°114.4 مغرب میں ہے جو حقیقی شمالی قطب (جغرافیائی) سے دور ہے اور چالیس کلومیٹر سالانہ حرکت میں ہے۔ یہ حرکت بیسویں صدی کے شروع میں نو کلومیٹر سالانہ تھی اور بیسویں صدی میں مقناطیسی شمالی قطب اپنی جگہ سے 1100 کلومیٹر حرکت کر چکا ہے۔ قطب نما کی سوئی اس کی طرف رخ کرتی ہے مگر مسئلہ اتنا بھی سیدھا نہیں کیونکہ اصل مقناطیسی شمالی قطب کی جگہ سوئی علاقائی مقناطیسی شمالی قطب کی طرف اشارہ کرتی ہے جومقناطیسی قطب شمالی کے رخ سے تھوڑا سا انحراف کرتی ہے۔ اس کو مقناطیسی انحراف کہتے ہیں۔ یہ مقناطیسی انحراف ہر علاقہ میں مختلف ہوتا ہے۔ بعض مقامات پر انحراف صفر ہوتا ہے۔ اگر ہم صفر انحراف رکھنے والے مقامات کو ایک فرضی خط سے ملائیں تو اسے خطِ لاانحرافی کہیں گے۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ جسے ہم مقناطیسی قطب شمالی کہہ رہے ہیں وہ اصل میں مقناطیسی میدان کا جنوبی قطب ہوگا کیونکہ مخالف سمتیں ایک دوسرے سے کشش محسوس کرتی ہیں یعنی مقناطیسی حساب سے اصل میں زمین کا مقناطیسی قطب شمالی مقناطیسی میدان کا جنوبی قطب اور زمین کا مقناطیسی قطب جنوبی اصل میں اس کے مقناطیسی میدان کا شمالی قطب ہوگا۔

ارضی۔ مقناطیسی قطب شمالی

[ترمیم]

زمین کا مقناطیسی میدان مثالی نہیں ہے۔ اگر زمین کے مقناطیسی شمالی قطب اور مقناطیسی جنوبی قطب کو ایک فرضی لکیر سے ملایا جائے اور اس لکیر کو زمین کے مرکز سے گزارا جائے تو ایک خطِ مستقیم نہیں بنتا۔ لیکن اگر ایسا خطِ مستقیم زمین کے مرکز سے گزارا جائے جو زمین کے مقناطیسی میدان کی بہترین ممکنہ انداز میں نمائندگی کر سکے تو وہ زمین کے شمال میں زمین کی سطح سے جہاں ٹکرائے گا اسے ارضی۔ مقناطیسی قطب شمالی کہیں گے۔ یہ اپنی جگہ بدلتا رہتا ہے۔ 2005 میں یہ °79.74 شمال اور°71.78 مغرب میں واقع ہے یعنی جغرافیائی قطب شمالی سے کافی دور ہے اور گرین لینڈ کے قریب ہے۔

سماوی قطب شمالی

[ترمیم]

زمین کی محوری گردش کے سبب ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ آسمان پر ستاروں کا جھرمٹ اکٹھا مشرق سے مغرب کی طرف حرکت کرتا ہے اور چوبیس گھنٹوں بعد پہلی حالت میں آ جاتا ہے۔ زمین جس فرضی لکیر کے ارد گرد اپنی محوری گردش کرتی ہے وہ لکیر فرضی طور پر آسمان میں ستاروں کے جھرمٹ کو جہاں ٹکراتی ہے اسے سماوی قطب شمالی کہتے ہیں۔ سماوی قطب شمالی قطبی ستارہ (Polaris) کے بالکل قریب ہے۔ اسی لیے قطبی ستارہ سے جغرافیائی شمال کی سمت بخوبی معلوم ہو سکتی ہے۔ قطبی ستارہ اور جغرافیائی شمال میں صرف بیالیس ڈگری دور ہے یعنی تقریباً سماوی قطب شمالی پر ہے۔

بعید ترین قطب شمالی

[ترمیم]

بحیرہ منجمد شمالی میں زمین سے دور ترین نقطہ بعید ترین قطب شمالی کہلاتا ہے۔ آج کل یہ °84 شمال °8 .174 مغرب پر واقع ہے۔ یہ صحیح جغرافیائی شمالی قطب سے 661 کلومیٹر دور ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]

  1. Russian sub plants flag at North Pole, Reuters, 2 August 2007
  2. Mouton، M.W. (1968)۔ The International Regime of the Polar Regions۔ Acadimie de Droit International de La Ha۔ ص 202۔ ISBN:978-9028614420
  3. Ljunggren, David (5 March 2009). Arctic summer ice could vanish by 2013: expert. Reuters
  4. Magazine, Smithsonian. "Who Discovered the North Pole?". Smithsonian Magazine.