مندرجات کا رخ کریں

انتقاد بر قرآن

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
نظرثانی بتاریخ 00:30، 5 دسمبر 2011ء از WikitanvirBot (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (r2.7.1) (روبالہ ترمیم: en:Criticism of the Quran)
  • ماسواۓ کسی خصوصی بیان کے تمام القرآن حوالہ جات بیرون الویکی صفحات پر جاتے ہیں۔

انتقاد بر قرآن یا قرآن پر تنقید (criticism of the qur'an) اصل میں اسی خالق کی پیدا کردہ انسانی نفسیات سے پیدا ہوتی ہے کہ جس نے قرآن نازل کیا؛ اور قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ قرآن پر کیا جانے والا یہ انتقاد محض غیرمسلم اشخاص تک محدود نہیں بلکہ خود مسلمانوں میں ایسے اشخاص تاریخی طور پر ثابت ہیں کہ جنہوں نے مختلف الفاظ و اشکال میں اس تنقید کی جھلک پیش کی۔ عام طور پر مسلم اذہان میں قرآن کا جو تصور اور توقیر ہے وہ شاید ہی کسی اور الہامی (غیر الہامی) کتاب رکھنے والوں میں پائی جاتی ہو، مسلمانوں کے لیئے قرآن پر انتقاد ایسا ہرگز نہیں جیسا کہ عیسائیوں کے لیئے بائبل پر تنقید یا بدھوں کے لیئے سترا پر تنقید ہو اور اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن اور اسلام ، اسلام میں مذہب کے ایسے جدا اجزاء نہیں کے جیسے بائبل اور عیسائیت ، عیسائیت میں ہیں؛ مسلم اذہان کے لیئے قرآن پر انتقاد اصل میں اسلام پر انتقاد ہی کے مترادف ہے۔ قرآن اور بائبل کے اس فرق کو یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ؛ قرآن ، مسلمانوں کے لیے ایک الہام یا وحی ہے جبکہ بائبل عیسائیوں کے لیے وہ نسخہ ہے جہاں الہام یا وحی کو پایا جاسکتا ہے گویا تقابلی انداز اختیار کیا جائے تو یہ کہنا غلط نا ہوگا کہ قرآن کا عیسائیت میں متبادل بائبل نہیں بلکہ حضرت عیسیٰفائل:ALAYHE.PNG کی ذات ہے جبکہ بائبل کی حیثیت کا اسلامی متبادل حدیث کو قرار دیا جاسکتا ہے[1]۔ قرآن پر کیئے جانے والے انتقاد میں تنقید کا کوئی بھی پہلو نظر انداز نہیں کیا گیا اور اس تنقید کا دائرہ ؛ قرآن کے انسانی نا کہ الہامی منبع ، قرآن میں تاریخی اغلاط ، قرآن میں قواعدی و لسانی اغلاط ، قرآن میں سائنسی و علمی اغلاط ، قرآن کی حفاظت میں اغلاط اور خود قرآن کے اپنے الفاظ و متن میں تصادم و اغلاط تک وسعت رکھتا ہے۔

قرآن، پیغمبرِاسلام کی تحریر

مسلم اذہان کے لیے قرآن محض اللہ کا کلام یا کوئی مذہبی کتاب نہیں بلکہ مسلم اذہان میں قرآن اس کائنات میں موجود وہ زندہ شئے ہے جس کو انسان کہا جاتا ہے۔ مسلم فرد قرآن کی صرف قرآت و تلاوت نہیں کرتا بلکہ وہ خود چلتا پھرتا قرآن ہوتا ہے، خود پیغمبر اسلام کے بارے میں مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ قرآن کو محض منتقل کرنے والے نہیں تھے بلکہ وہ اپنی ذات میں ایک قرآن تھے۔ ایک مسلم مفکر بنام اقبال نے اسی تصور کو یوں بیان کیا ہے۔

یہ بات کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن

قرآن کا ماخذ انسانی ہے یا الہامی؟ قرآن کس نے تحریر کیا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو درون اسلامی دنیا میں یا تو اٹھتے ہی نہیں اور یا پھر بلا شک و شبہ کے اپنا جواب رکھتے ہیں کہ قرآن الہامی کتاب ہے جس کو اللہ نے تحریر کیا اور محمد کے وسیلے سے انسانوں تک پہنچایا؛ لیکن بیرون اسلامی دنیا میں یہ ایسے سوالات ہیں جن پر بحث تاریخی طور پر چلی آرہی ہے اور غیرمسلم و مسلم دونوں جانب سے جواب در جواب اور سوال در سوال کا سلسلہ کہیں ختم نہیں ہوتا۔ انسانی ذہن ، دماغ میں وارد ہونے والا کوئی پہلو (خواہ اچھائی کا تسلیم کیا جائے یا برائی کا) چھوڑتا نہیں ہے؛ قرآن پر انتقاد کرنے والے بھی اسی فطری اصول کی مثال نظر آتے ہیں۔ اور قرآن پر اعتراض کا سب سے بڑا اور اہم پہلو دماغ میں یہی آتا ہے کہ اس کو الہامی نہیں بلکہ خود پیغمبر اسلام یا ان کے بعد آنے والے اصحابہ اکرام کی جانب سے آنے والا متن ثابت کرنے میں کوئی دقیقہ باقی نا رہنے دیا جائے؛ انسانی ہاتھوں میں موجود وہ قرآن کہ جس کے بارے میں مسلم عقیدہ ہے کہ اس کی ہو بہو اصل اللہ کے پاس محفوظ ہے (فِي لَوْحٍ مَّحْفُوظٍ - (قرآن: سورۃ البروج:21 - 22)) ، معترضین اسی کو تورات اور انجیل کی نقل قرار دیتے ہیں۔

الزام پرانا ، توجیہات نئی

قرآن پر الہامی کلام نا ہونے کا الزام کوئی نیا نہیں ہے، قرآن پر اللہ کا کلام نا ہونے کا یہ الزام تو اہلِ عرب ، غروبِ زمانۂ جاہلیت اور ظہورِ عہد اسلام سے لگاتے چلے آرہے ہیں۔ جب ان کو اس بات کا کوئی جواب نا ملتا کہ قرآن کی فصاحت و بلاغت اور اس کا اذہان پر طاری ہوجانے والا انداز و بیان ایک غیرتعلیم یافتہ شخص (الرَّسُولَ النَّبِيَّ الأُمِّيَّ - (قرآن: سورۃ الاعراف:157)) کیسے مرتب کرسکتا ہے؟ تو وہ قرآن کے پراثر کلام کے لب و لہجے کو کسی جن یا روح یا بدروح کی کارستانی گردان دیتے تھے۔ قرآن (الاعراف 157) کو قرآن ہی سے غلط ثابت کرنے والے خوش فہم (اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ - (قرآن: سورۃ العلق:1)) کا حوالہ بھی دیتے ہیں کہ اگر محمد اُمّی تھے تو پھر مذکورہ بالا آیت میں ان کو پڑھنے کے لیے (اقرا) کیوں کہا جاتا؟ مسلم تفاسیر میں اقرا کے معنی عربی قواعد کے لحاظ سے پڑھنے اور تلاوت کرنے دونوں کے بتائے جاتے ہیں؛ دونوں ہی معنوں میں ، اُمّی ہونے کی حالت کوئی قباحت پیدا نہیں کرتی کیونکہ پڑھنے (سمجھ مشروط) اور تلاوت یا قرات (سمجھ غیرمشروط) ، دونوں کے لیے ہی بات ، جبرائیلفائل:ALAYHE.PNG سے سن کر دہرانے کی کی جارہی ہے نا کہ خود اپنے علم سے کچھ بیان کرنے یا کسی تحریر کو پڑھنے کی بات کی جارہی ہو۔
مسلمان جس بات کو قرآن کا معجزہ بنا کر پیش کرتے ہیں اعتراض کرنے والے اسی معجزے کو مزید اعتراضات اٹھانے کے لیئے استعمال کرتے ہیں؛ قرآن کی اپنے جیسی ایک سورت ہی بنا کر دکھانے کی للکار (قُلْ فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّثْلِهِ - (قرآن: سورۃ یونس:38)) کا سامنا آج تک کوئی عربیدان نا کرسکا لیکن معترضین کے مطابق ایسا بے مثال کلام لکھ کر اس کو اپنے نام سے منسوب کرنے کے بجائے اللہ کا کلام کہنے کے ، حضرت محمد کے اپنے مخصوص مقاصد تھے۔۔۔۔۔

  1. ذاتی شہرت ، آسائش و طاقت کی تمنا
    اعتراض پر جواب: تاریخ سے ثابت ہے کہ اسلام کی خاطر پیغمبر اسلام نے اپنی جان کو خطرے میں ڈالا اور مزید یہ کہ کبھی عیش و عشرت کی زندگی بھی بسر نہیں کی؛ اگر قرآن کو پیغمبر اسلام کی تحریر مان لیا جائے تو وہ شخص جو تمام عرب شعرا کو اپنی تحریر کے سامنے لاجواب کرسکتا ہو[2]، وہ شخص جو بڑے بڑے مخالفین کو اپنی جانب راغب کرسکتا ہو وہ اتنی دانش و اہلیت تو ضرور رکھتا ہوگا کہ شہرت و طاقت کے حصول کی خاطر وہ طریقہ اختیار کرے جس میں اس کی جان خطرے میں نا پڑے۔
  2. اپنی (یعنی عرب) قوم کی اخلاقی بدحالی درست کرنا
    اعتراض پر جواب:
  3. اپنی قبائل میں منتشر قوم کو متحد و یکجا کرنا
    اعتراض پر جواب:
  4. پیغمبر کی حیثیت سے تاریخ میں اپنا نام درج کروانا
    اعتراض پر جواب:

حوالہ جات

  • آج کل کم و پیش تمام کتب ، گوگل کتب پر دستیاب ہو جاتی ہیں۔
  1. {{حوالہ کتاب}}: استشهاد فارغ! (معاونت)
  2. {{حوالہ کتاب}}: استشهاد فارغ! (معاونت)