"سزائے موت" کے نسخوں کے درمیان فرق
م خودکار: خودکار درستی املا ← سے، سے، اور |
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی |
||
سطر 1: | سطر 1: | ||
'''سزائے موت''' {{دیگر نام|انگریزی= Capital punishment}} کسی بھی شخص پر [[عدالت|عدالتی]] طور پر سنگین [[جرم]] ثابت ہونے پر دی جانے والی ہلاکت یا [[قتل]] کی سزا ہے۔<br /> |
'''سزائے موت''' {{دیگر نام|انگریزی= Capital punishment}} کسی بھی شخص پر [[عدالت|عدالتی]] طور پر سنگین [[جرم]] ثابت ہونے پر دی جانے والی ہلاکت یا [[قتل]] کی سزا ہے۔<br /> |
||
قتل یا سزائے موت ماضی میں تقریباً ہر [[سماج|معاشرے]] میں مشق کی جاتی رہی ہے، فی الحال صرف 58 ممالک میں یہ سزا قانونی طور پر فعال ہے جبکہ 95 ممالک میں اس سزا پر قانونی طور پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ [[دُنیا|دنیا]] کے باقی ممالک میں پچھلے دس سال میں کسی کو بھی موت کی سزا نہیں سنائی گئی ہے اور وہاں صرف مخصوص حالات، جیسے [[جنگی جرائم]] کی پاداش میں ہی سزائے موت دی جا سکتی |
قتل یا سزائے موت ماضی میں تقریباً ہر [[سماج|معاشرے]] میں مشق کی جاتی رہی ہے، فی الحال صرف 58 ممالک میں یہ سزا قانونی طور پر فعال ہے جبکہ 95 ممالک میں اس سزا پر قانونی طور پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ [[دُنیا|دنیا]] کے باقی ممالک میں پچھلے دس سال میں کسی کو بھی موت کی سزا نہیں سنائی گئی ہے اور وہاں صرف مخصوص حالات، جیسے [[جنگی جرائم]] کی پاداش میں ہی سزائے موت دی جا سکتی ہے۔<ref>{{حوالہ جال| مصنف = | ربط = http://www.amnesty.org/en/death-penalty/abolitionist-and-retentionist-countries| تاریخ اشاعت =2008ء | عنوان =سزائے موت ترک اور تاحال قانونی اجازت کرنے والے ممالک کی فہرست | ترجمہ عنوان = | ناشر =ایمنسٹی انٹرنیشنل | زبان = }}</ref>یہ مختلف [[فہرست ممالک|ممالک]] اور [[ریاست|ریاستوں]] میں سرگرم اور متنازع معاملہ رہا ہے اور اس بارے مختلف معاشروں میں سیاسی اور تہذیبی بنیادوں پر متنوع رائے پائی جاتی ہے۔ یورپی یونین میں سزائے موت پر “بنیادی حقوق کے چارٹر“ کے مطابق پابندی عائد ہے۔<br /> |
||
گو کہ اس وقت دنیا کے زیادہ ممالک سزائے موت کو ترک کر چکے ہیں لیکن ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ ابھی بھی دنیا کی تقریباً 60 فیصد آبادی ایسے ممالک سے تعلق رکھتی ہے جہاں سزائے موت کو تاحال قانونی حیثیت حاصل ہے۔ ان ممالک میں زیادہ گنجان آباد ممالک جیسے [[ریاستہائے متحدہ امریکا|ریاست ہائے متحدہ امریکہ]]، [[چین|عوامی جمہوریہ چین]]، [[بھارت]] اور [[انڈونیشیا]] شامل ہیں۔<ref>{{حوالہ جال| مصنف = | ربط =http://www.atimes.com/atimes/South_Asia/FH13Df03.html | تاریخ اشاعت =اگست 2004ء | عنوان =جنوبی ایشیاء بارے بنیادی حقوق کے حقائق | ترجمہ عنوان = | ناشر =ائیر ٹائمز انٹرنیشنل | زبان = }}</ref><ref>{{حوالہ جال| مصنف = | ربط =http://www.worldcoalition.org/modules/smartsection/item.php?itemid=325&sel_lang=english | تاریخ اشاعت =23 اگست 2008ء | عنوان =انڈونیشیا میں سیاسی بنیادوں پر سزائے موت سنائے جانے کے رجحان میں اضافہ | ناشر =عالمی اتحاد | زبان =انگریزی }}</ref><ref>{{حوالہ خبر | عنوان =اراکین سینٹ کا امریکہ میں معاشی ترقی کے لیے سزائے موت کے خاتمے کی ضرورت پر زور | مصنف = | مصنف ربط = | ربط =http://www.foxnews.com/politics/2009/02/24/lawmakers-cite-economic-crisis-effort-ban-death-penalty | اخبار =فاکس نیوز | تاریخ =اپریل 2010ء | صفحہ = | صفحات = | زبان =انگریزی}}</ref> |
گو کہ اس وقت دنیا کے زیادہ ممالک سزائے موت کو ترک کر چکے ہیں لیکن ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ ابھی بھی دنیا کی تقریباً 60 فیصد آبادی ایسے ممالک سے تعلق رکھتی ہے جہاں سزائے موت کو تاحال قانونی حیثیت حاصل ہے۔ ان ممالک میں زیادہ گنجان آباد ممالک جیسے [[ریاستہائے متحدہ امریکا|ریاست ہائے متحدہ امریکہ]]، [[چین|عوامی جمہوریہ چین]]، [[بھارت]] اور [[انڈونیشیا]] شامل ہیں۔<ref>{{حوالہ جال| مصنف = | ربط =http://www.atimes.com/atimes/South_Asia/FH13Df03.html | تاریخ اشاعت =اگست 2004ء | عنوان =جنوبی ایشیاء بارے بنیادی حقوق کے حقائق | ترجمہ عنوان = | ناشر =ائیر ٹائمز انٹرنیشنل | زبان = }}</ref><ref>{{حوالہ جال| مصنف = | ربط =http://www.worldcoalition.org/modules/smartsection/item.php?itemid=325&sel_lang=english | تاریخ اشاعت =23 اگست 2008ء | عنوان =انڈونیشیا میں سیاسی بنیادوں پر سزائے موت سنائے جانے کے رجحان میں اضافہ | ناشر =عالمی اتحاد | زبان =انگریزی }}</ref><ref>{{حوالہ خبر | عنوان =اراکین سینٹ کا امریکہ میں معاشی ترقی کے لیے سزائے موت کے خاتمے کی ضرورت پر زور | مصنف = | مصنف ربط = | ربط =http://www.foxnews.com/politics/2009/02/24/lawmakers-cite-economic-crisis-effort-ban-death-penalty | اخبار =فاکس نیوز | تاریخ =اپریل 2010ء | صفحہ = | صفحات = | زبان =انگریزی}}</ref> |
||
نسخہ بمطابق 06:44، 14 مارچ 2018ء
سزائے موت (انگریزی: Capital punishment) کسی بھی شخص پر عدالتی طور پر سنگین جرم ثابت ہونے پر دی جانے والی ہلاکت یا قتل کی سزا ہے۔
قتل یا سزائے موت ماضی میں تقریباً ہر معاشرے میں مشق کی جاتی رہی ہے، فی الحال صرف 58 ممالک میں یہ سزا قانونی طور پر فعال ہے جبکہ 95 ممالک میں اس سزا پر قانونی طور پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ دنیا کے باقی ممالک میں پچھلے دس سال میں کسی کو بھی موت کی سزا نہیں سنائی گئی ہے اور وہاں صرف مخصوص حالات، جیسے جنگی جرائم کی پاداش میں ہی سزائے موت دی جا سکتی ہے۔[1]یہ مختلف ممالک اور ریاستوں میں سرگرم اور متنازع معاملہ رہا ہے اور اس بارے مختلف معاشروں میں سیاسی اور تہذیبی بنیادوں پر متنوع رائے پائی جاتی ہے۔ یورپی یونین میں سزائے موت پر “بنیادی حقوق کے چارٹر“ کے مطابق پابندی عائد ہے۔
گو کہ اس وقت دنیا کے زیادہ ممالک سزائے موت کو ترک کر چکے ہیں لیکن ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ ابھی بھی دنیا کی تقریباً 60 فیصد آبادی ایسے ممالک سے تعلق رکھتی ہے جہاں سزائے موت کو تاحال قانونی حیثیت حاصل ہے۔ ان ممالک میں زیادہ گنجان آباد ممالک جیسے ریاست ہائے متحدہ امریکہ، عوامی جمہوریہ چین، بھارت اور انڈونیشیا شامل ہیں۔[2][3][4]
سزائے موت بارے بین الاقوامی رجحان
جنگ عظیم دوم کے بعد سے دنیا بھر میں سزائے موت پر پابندی کا رجحان دیکھا گیا ہے۔ 1977ء میں 16 ممالک نے سزائے موت پر پابندی لگا دی۔ 2010ء میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے شائع ہونے والی معلومات کے مطابق، مجموعی طور پر 95 ممالک نے اب تک سزائے موت پر پابندی عائد کی ہے، 9 ممالک نے غیر معمولی حالات کے علاوہ اس سزا پر پابندی جبکہ 35 ممالک نے سزائے موت کا قانون ہونے کے باوجود پچھلے دس سال میں اسے استعمال نہیں کیا ہے اور ان ممالک میں یہ قانون خاتمے کی جانب گامزن ہے۔ 58 ممالک ایسے پائے گئے ہیں جہاں سزائے موت کو قانونی حیثیت حاصل ہے اور یہاں اس سزا پر عمل درآمد بھی کیا جاتا ہے۔[5]
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق 2009ء میں دنیا کے 18 ممالک میں تقریباً 714 افراد کو سزائے موت دی گئی۔ اس کے علاوہ کئی ممالک ایسے ہیں جو سزائے موت پر عمل درآمد بارے معلومات فراہم نہیں کرتے، ان میں عوامی جمہوریہ چین سر فہرست ہے جہاں خیال کیا جاتا ہے کہ ہر سال سینکڑوں افراد کو سزائے موت دی جاتی ہے۔ 2010ء کی اول سہ ماہی تک دنیا بھر میں 17000 افراد کو سزائے موت سنائی جا چکی تھی اور سزا پر عمل درآمد ہونا باقی تھا۔[6]
2009ء میں دی گئیں سزائے اموات
ملک | کل پھانسی پانے والے (2015) |
---|---|
چین | 1,000+ |
ایران | 977+ |
پاکستان | 326 |
سعودی عرب | 158+ |
ریاستہائے متحدہ | 28 |
عراق | 26+ |
صومالیہ | 25+ |
مصر | 22+ |
انڈونیشیا | 14 |
چاڈ | 10 |
یمن | 8+ |
تائیوان | 6 |
سوڈان | 5+ |
بنگلادیش | 4 |
سنگاپور | 4 |
سوڈان | 3 |
جاپان | 3 |
اردن | 2 |
سلطنت عمان | 2 |
افغانستان | 1 |
بھارت | 1 |
متحدہ عرب امارات | 1 |
ویت نام | نامعلوم |
ملائیشیا | نامعلوم |
شمالی کوریا | نامعلوم |
طریقے
سزائے موت پانے والے مجرم کو ہلاک کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان طریقوں میں برقی کرسی، گولی باری، سنگ سار، گھٹن، پھانسی اور مہلک زہریلے ٹیکوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔
مزید دیکھیے
حوالہ جات
- ↑ "سزائے موت ترک اور تاحال قانونی اجازت کرنے والے ممالک کی فہرست"۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل۔ 2008ء
- ↑ "جنوبی ایشیاء بارے بنیادی حقوق کے حقائق"۔ ائیر ٹائمز انٹرنیشنل۔ اگست 2004ء
- ↑ "انڈونیشیا میں سیاسی بنیادوں پر سزائے موت سنائے جانے کے رجحان میں اضافہ" (بزبان انگریزی)۔ عالمی اتحاد۔ 23 اگست 2008ء
- ↑ "اراکین سینٹ کا امریکہ میں معاشی ترقی کے لیے سزائے موت کے خاتمے کی ضرورت پر زور" (بزبان انگریزی)
- ↑ "ممالک کے لحاظ سے سزائے موت کے قوانین کی فہرست"۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل۔ 2008-06-10
- ↑ "سال 2009ء: سزائے موت بارے حقائق" (بزبان انگریزی)۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل۔ 20 مئی 2010ء
ویکی ذخائر پر سزائے موت سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |