جزیہ
زمرہ جات | |
| |
|
وہ ٹیکس جو کسی ملک کو فتح کرنے کے بعد غیر مسلم آبادی سے وصول کیا جاتا ہے۔ جب مسلمان کسی ملک کو فتح کرتے تھے تو وہاں کی غیر مسلم رعایا کو اسلام قبول کرنے کی تلقین کرتے۔ اگر وہ لوگ اسلام قبول نہ کرتے تو ان سے جزیہ لیا جاتا تھا۔ جو لوگ جزیہ دیتے تھے انھیں اہل ذمہ یا ذمی کہتے تھے۔ ان کو اپنی عبادت اور مذہبی رسوم ادا کرنے میں پوری آزادی ہوتی تھی۔ اور ان کی حفاظت حکومت کا فرض ہوتا تھا۔ وہ جنگی خدمات سے بھی آزاد ہوتے تھے۔ جبکہ مسلمانوں پر جنگی خدمت فرض تھی۔ بوڑھوں، بچوں، اپاہجوں، غلاموں اور پاگلوں کو جزیہ سے مستثنیٰ قرار دیا جاتا تھا۔
جزیہ کو عربی الاصل لفظ سمجھا جاتا ہے جس سے گمان ہوتا ہے کہ شاید یہ اسلام کے بعد شروع ہوا۔ جبکہ یہ فارسی لفظ گزیہ سے معرب ہے جس کے معنی خراج کے ہیں۔جزیہ ہر بالغ مرد اور عورت سے اس کی مالی حیثیت کے مطالق نقد یا جنس کی صورت میں لیا جاتا تھا۔ خلیفہ حضرت عمر کے زمانے میں جزیہ کی کم سے کم رقم چھ درہم اور زیادہ سے زیادہ چالیس درہم سالانہ تھی۔ متوسط طبقہ کے لوگ 24 درہم سالانہ جزیہ ادا کرتے تھے۔ انتہائی غریب غیر مسلموں کا جزیہ معاف ہوتا تھا۔ اگر اُس زمانے کی تنخواہوں سے جزیے کا موازنہ کیا جائے تو اسلامی فوج کے ہر سپاہی کو کم از کم 300 درہم سالانہ تنخواہ ملتی تھی جبکہ افسران کو سات سے دس ہزار درہم سالانہ ملتے تھے۔
جنگ یرموک سے پہلے جب رومی شہنشاہ ہرقل انطاکیہ میں بہت بڑی فوج اکھٹا کر رہا تھا تو مسلمانوں نے بھی اپنی فوجیں مختلف شہروں سے واپس بُلا لیں۔ جب مسلمان فوجوں نے دمشق، حمص اور دیگر شہروں کو چھوڑا تو وہاں کے باشندوں کو جزیے کی رقم واپس کر دی۔ مسلمان ان شہروں کے باشندوں کی حفاظت نہیں کر سکتے تھے اس لیے ان سے جزیہ لینا بھی ناجائز تھا۔
جزیہ ترکان عثمانی کی حکومت میں جاری رہا۔ جزیہ کی ساری رقم بیت المال میں جمع ہوتی تھی۔ ابتدا میں جزیہ ادا کرنے والے کے گلے میں جست کی مہر لٹکا دی جاتی تھی۔ لیکن خلیفہ ہشام نے اس کی جگہ باقاعدہ تحریری رسید کا طریقہ رائج کیا۔ جزیہ شخصی اور ذاتی محصول تھا جبکہ خراج علاقائی محصول جو زمین پر لگتا تھا۔
حوالہ جات
ترمیم- تاریخ اسلام از محمود الحسن صدیقی اور چراغ حسن حسرت۔ صفحہ 87۔